Dickie Bird, Cricket Umpiring Ka Badshah
ڈکی برڈ، کرکٹ امپائرنگ کا بادشاہ

کرکٹ کی دنیا میں کچھ کردار ایسے ہوتے ہیں جو کھیل سے بڑھ کر اپنی موجودگی سے ایک پورا عہد تشکیل دیتے ہیں۔ ڈکی برڈ انہی میں سے ایک تھے۔ ان کا سفید کوٹ، جھجکتا ہوا قدم، میدان میں موجود کھلاڑیوں کے ساتھ ان کا دوستانہ رویہ اور سب سے بڑھ کر وہ مشہور و معروف انگلی جو اکثر دیر تک جیب میں چھپی رہتی تھی۔ یہ سب کچھ انہیں دوسرے تمام امپائرز سے منفرد بناتا تھا۔ وہ محض ایک امپائر نہیں تھے بلکہ کرکٹ کی اس گمشدہ معصومیت اور دلکشی کی علامت تھے جسے آج کی مشینی اور ٹیکنالوجی زدہ دنیا میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ ان کی وفات نے نہ صرف انگلش کرکٹ بلکہ دنیا بھر کے پرانے شائقین کے دلوں میں خلا چھوڑ دیا ہے۔
ڈکی برڈ کے فیصلوں پر کبھی کبھی کھلاڑی سر پکڑ کر رہ جاتے، کبھی مداح مسکرا اٹھتے اور اکثر ایسا بھی ہوتا کہ وہ "نہ" کہنے میں اتنے محتاط اور ڈرے ہوئے دکھائی دیتے جیسے ابھی کوئی آندھی ان پر چڑھ دوڑے گی۔ لیکن اسی جھجک میں ان کی پہچان چھپی تھی۔ ان کے فیصلوں میں انسانی کمزوری اور دل کی نرمی جھلکتی تھی۔ آج جب ہم ٹی وی اسکرین پر بار بار ری پلے دیکھ کر، ہاک آئی اور سنک میٹر پر انحصار کرکے ہر فیصلے کی جانچ پرکھ کرتے ہیں تو ہمیں وہ دور یاد آتا ہے جب امپائر کی بات ہی قانون ہوا کرتی تھی۔ اس دور میں ڈکی برڈ کی شخصیت کسی بادشاہ کی سی تھی جس کے اشارے پر کھیل کا رنگ بدل جاتا۔
کرکٹ کی تاریخ کا ایک انوکھا پہلو یہ بھی ہے کہ ڈکی برڈ کی شہرت بعض کھلاڑیوں سے بڑھ کر تھی۔ ذرا تصور کیجیے کہ وہ تینوں ابتدائی ورلڈ کپ فائنلز میں امپائرنگ کر رہے ہیں اور پھر وہ دن آتا ہے جب 1996 میں لارڈز کے میدان پر وہ اپنی آخری ٹیسٹ میچ امپائرنگ کرتے ہوئے اشک بار آنکھوں کے ساتھ کھلاڑیوں کے گارڈ آف آنر کے بیچ میں سے گزرے۔ یہ منظر آج بھی شائقین کے ذہنوں میں نقش ہے۔ وہ لمحہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ڈکی برڈ صرف امپائر نہیں تھے، وہ کھیل کی روح تھے، کھیل کی حرمت تھے اور کرکٹ کے اس چہرے کی علامت تھے جو اب ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ آج کے دور میں امپائرنگ کرتے تو شاید ایک دن بھی میدان میں نہ ٹھہر پاتے۔ ڈی آر ایس، ہاک آئی، ٹویٹر پر ہزاروں ری ٹویٹس اور میڈیا کے دباؤ میں ان کا نازک دل اور جھجک بھرا انداز کہاں ٹھہر سکتا تھا؟ لیکن خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کا کیریئر اس دور میں آیا جب کھیل ابھی اپنی اصل سادگی اور خلوص کے ساتھ زندہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کا نام آتے ہی چہروں پر مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے اور ایک پرانا زمانہ یاد آ جاتا ہے جب کھیل صرف کھیل تھا اور کرکٹ ایک تہذیب۔
ڈکی برڈ کی شخصیت میں ایک عجیب قسم کی انفرادیت تھی۔ وہ اپنے فیصلوں کے علاوہ بھی مشہور تھے۔ کبھی کسی بم کی افواہ پر کھیل رکوا دیتے، کبھی کسی شیشے پر سورج کی کرن پڑنے کو بہانہ بنا لیتے اور کبھی کبوتر کے پھڑپھڑانے پر کھیل کو روک دیتے۔ آج اگر کوئی ایسا کرے تو آئی سی سی فوراً اسے جرمانہ کر دے، میڈیا اس پر طوفان برپا کر دے اور سوشل میڈیا مذاق بنا دے۔ لیکن ڈکی کے دور میں یہ سب ایک دل لگی تھا، ایک یادگار لمحہ تھا جو کھلاڑیوں اور شائقین کو ایک ساتھ ہنسنے پر مجبور کرتا۔ یہی تو وہ انسانیت تھی جو کھیل کے حسن کو بڑھاتی تھی۔
کرکٹ کے بڑے بڑے کھلاڑی ان کی عزت کرتے تھے۔ وہ صرف ایک امپائر نہیں تھے بلکہ ایک دوست، ایک بزرگ اور ایک راست گو انسان کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ویسٹ انڈیز کے تیز گیندباز ہوں یا انگلینڈ کے نروس میڈیم پیسرز، سب جانتے تھے کہ ڈکی کے سامنے اپیل کرنے کا مطلب ہمیشہ فیصلہ ملنا نہیں ہے۔ لیکن اگر ایک دن وہ انگلی اٹھا دیتے تو وہ فیصلہ پتھر پر لکیر ہوتا۔ یہی وجہ تھی کہ 1993 میں جب ٹرینیڈاڈ میں انہوں نے اپنے ساتھی اسٹیو بکنر کے ساتھ مل کر ریکارڈ 17 ایل بی ڈبلیو فیصلے دیے تو دنیا حیران رہ گئی۔
ڈکی برڈ کا نام صرف کرکٹ کی امپائرنگ تک محدود نہیں رہا۔ وہ عوامی مقبولیت کے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں عام طور پر صرف بڑے کھلاڑی یا شوبز کے ستارے پہنچتے ہیں۔ برطانیہ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب شاید صرف ایان بوتھم ان سے زیادہ پہچانے جاتے تھے۔ باقی ہر گھر میں، ہر محفل میں ڈکی برڈ کا ذکر کسی نہ کسی صورت ہوتا تھا۔ ٹی وی کے رنگین عہد کے آغاز پر انہوں نے جو مقام پایا وہ آج کے دور میں ناقابلِ تصور ہے۔
ان کے بچپن کی کہانی بھی کسی فلمی منظر سے کم نہیں۔ بارنسلے کے ایک چھوٹے سے گھر سے نکل کر وہ اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے تھے۔ انہی دوستوں میں ایک جیوفری بائیکاٹ بھی تھے جو آگے جا کر انگلینڈ کے عظیم اوپنر بنے۔ ایک اور دوست مشہور میزبان مائیکل پارکنسن تھے اور پھر وہ المیہ کہ تیسرا دوست ٹامی ٹیلر، جو مانچسٹر یونائیٹڈ کے فٹبالر تھے، 1958 کے میونخ ایئر ڈیزاسٹر میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سب واقعات ڈکی برڈ کی شخصیت کو مزید گہرائی بخشتے ہیں۔ شاید اسی لیے وہ زندگی کو ایک کھیل سمجھتے اور کھیل کو زندگی کی طرح محبت سے جیتے تھے۔
آج جب ہم موجودہ امپائرز کو دیکھتے ہیں تو وہ کسی "منیجر" جیسے لگتے ہیں۔ خاموش، سخت اور مشین کی طرح درست فیصلے دینے والے۔ ان کے انداز میں وہ انسانی رنگ، وہ مزاح، وہ بے ساختگی باقی نہیں رہی جو ڈکی برڈ جیسے کرداروں کے ہاں دکھائی دیتی تھی۔ بلّی باؤڈن کے مزاحیہ اشارے ہوں یا روڈی کوئرٹزن کی سست انگلی، سب کے انداز وقت کے ساتھ دب گئے کیونکہ جدید کرکٹ نے امپائر کو بس ایک "ہیٹ اسٹینڈ" بنا دیا ہے۔ لیکن ڈکی کا دور کچھ اور تھا۔ وہ کھیل کو صرف چلاتے نہیں تھے بلکہ اس میں جان ڈالتے تھے۔
ڈکی برڈ کی موت نے گویا ایک پوری دنیا کو یادوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔ وہ دنیا جہاں کھیل انسانی رشتوں، دوستیوں، مزاح اور خلوص کے رنگوں سے بھرا ہوا تھا۔ آج کے قاری کے لیے شاید یہ سب قصے محض داستانیں ہوں، لیکن جنہوں نے ڈکی کو میدان میں امپائرنگ کرتے دیکھا ہے ان کے لیے یہ یادیں انمول خزانہ ہیں۔ وہ لمحے جب ڈکی اپنی انگلی جیب سے نکالنے میں ہچکچاتے، وہ قہقہے جب کھلاڑی ان سے ہنسی مذاق کرتے اور وہ اشکبار آنکھیں جب انہوں نے آخری بار لارڈز پر کھلاڑیوں کے بیچ سے گزر کر الوداع کہا۔ یہ سب کچھ کرکٹ کی تاریخ کا حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
ڈکی برڈ نے کبھی شادی نہیں کی۔ وہ اکثر کہتے تھے: "میں کرکٹ سے شادی شدہ ہوں۔ " اور سچ یہی ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسی کھیل کو دے دی۔ ان کے جانے کے بعد یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب وہ کھیل بیوہ ہوگیا ہے۔ کیونکہ ایسی شخصیت، ایسی سادگی اور ایسا خلوص دوبارہ پیدا نہیں ہو سکتا۔
آج کے کرکٹ شائقین جب یہ کالم پڑھیں گے تو انہیں اپنے اندر ایک پرانا زمانہ جھانکتا دکھائی دے گا۔ وہ محسوس کریں گے کہ کرکٹ کبھی صرف رنز اور وکٹوں کا کھیل نہیں تھا بلکہ ایک تہذیب تھی جس کے امین ڈکی برڈ جیسے کردار تھے۔ انہوں نے دنیا کو یہ سبق دیا کہ کھیل کھیل ہی رہے، جنگ نہ بنے۔ یہی ان کی اصل میراث ہے اور یہی وہ چیز ہے جو انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
ڈکی برڈ اب ہم میں نہیں رہے لیکن ان کی یادیں، ان کے فیصلے، ان کے قصے اور ان کا جھجکتا ہوا انداز ہمیشہ کرکٹ کی تاریخ میں جگمگاتا رہے گا۔ کرکٹ نے انہیں ایک مقام دیا اور انہوں نے کرکٹ کو ایک روح بخشی۔ یہی وہ رشتہ ہے جسے وقت کبھی مٹا نہیں سکتا۔

