Dhyan Chand, General Of Hockey
دھیان چند، جنرل آف ہاکی

بسا اوقات تاریخ اپنے کسی ہیرو کو اتنی خاموشی سے جنم دیتی ہے کہ خود ہیرو کو بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ آنے والے برسوں میں اس کا نام اس کھیل، اس میدان، اس فن اور اس عہد کی پہچان بن جائے گا۔ میجر دھیان چند بھی ایسے ہی خاموش، سادہ، کم گو لیکن اپنے فن میں بے مثال انسان تھے۔ وہ کوئی نعرہ باز کھلاڑی نہیں تھے، وہ کوئی اشتہاروں میں نظر آنے والی شخصیت نہیں تھے، وہ کسی سیاسی یا تجارتی طاقت کے بل بوتے پر نہیں اُبھرے تھے۔ وہ بس کھیلتے تھے، اتنے سکون، اتنی concentrating focus اور اتنی مہارت کے ساتھ کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہاکی ان کے ہاتھ میں نہیں، ان کی سانسوں میں بندھی ہوئی ہے۔ میدان میں جب وہ گیند کو اسٹک سے چھوتے تو آواز نہیں آتی تھی، بس ایک جادو سا چلتا محسوس ہوتا تھا۔ لوگ بعد میں اسے "جادو" کہنے لگے، مگر دھیان چند تو بس اسے اپنا فرض، اپنی مشق اور اپنے رب کی عطا سمجھتے تھے۔
کہتے ہیں جرمن شہنشاہ ایڈولف ہٹلر نے برلن کے اولمپکس میں دھیان چند کا کھیل دیکھا تو حیران رہ گیا۔ عجیب بات یہ تھی کہ دھیان چند کا کھیل دیکھ کر حیران ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ دنیا کے ہر میدان میں، ہر ٹورنامنٹ میں، ہر مقابلے میں لوگ پہلے حیران ہوتے، پھر ششدر اور آخر میں ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ مخالف ٹیم کے کھلاڑی ان کا کھیل دیکھ کر پہلے الجھتے، پھر تھک جاتے اور آخر میں بس دعا کرتے کہ کسی طرح یہ آدمی رک جائے۔ لیکن وہ نہیں رکتے تھے۔ ان کے پاس وہ مہارت تھی جو نصاب میں نہیں پڑھائی جا سکتی۔ وہ انداز تھا جو کسی کوچ کے لیکچر سے نہیں ملتا۔ وہ ہاتھ تھا جسے قدرت نے خاص طور پر ہاکی کے لئے بنایا تھا۔ ان کی رفتار، ان کی ڈاج، ان کی پاسنگ اور ان کی فیلڈ میں mind-reading ایسی تھی کہ آج بھی دنیا ہاکی کی تاریخ میں انہیں "General" نہیں بلکہ "General of Hockey" کہہ کر یاد کرتی ہے۔ جنرل اس لیے نہیں کہ وہ فوجی تھے، بلکہ اس لیے کہ وہ کھیل کے پورے میدان کو ایک جرنیل کی طرح پڑھ لیتے تھے۔
دھیان چند کی سب سے بڑی خوبی یہ نہیں تھی کہ وہ شاندار اسکورر تھے یا ناقابلِ شکست dribbler تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کھیل کو ایک عبادت سمجھ کر کھیلتے تھے۔ ان کی modesty کا یہ عالم تھا کہ جب 1936 کے اولمپکس میں ان کے دانت توڑ دیے گئے، خون بہہ رہا تھا، طبی عملے نے کھیل چھوڑنے کا کہا، مگر انہوں نے صرف ایک بات کہی: "میرا کام کھیلنا ہے اور میرا ملک دیکھ رہا ہے"۔ وہ میدان میں واپس آئے اور پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا تھا، مخالف ٹیم کے دفاع میں زلزلہ آ گیا۔ ان کی dribbling سے لوگ یوں بھاگتے جیسے کہ کوئی بھاری توپ میدان میں چھوڑ دی گئی ہو۔ ان کا اسٹک میدان میں کسی جادوگر کی چھڑی کی طرح چلتا اور گیند ان کی مرضی کے بغیر کہیں نہیں جاتی تھی۔
دھیان چند کے بارے میں ایک عجیب قصہ ہے۔ کہتے ہیں ایک بار کسی نے مذاق میں ان کی ہاکی کی اسٹک کو چیک کیا کہ شاید اس میں کوئی چمبک چھپا ہوا ہو، ورنہ گیند یوں ان کے ساتھ کیوں چپکی رہتی ہے؟ جب اسٹک کو کاٹا گیا، کھولا گیا، جانچا گیا تو اندر سے کچھ بھی نہیں ملا۔ بس لکڑی، سادہ لکڑی۔ یہ سن کر دھیان چند مسکرائے اور کہا: "جادو اسٹک میں نہیں ہوتا، ہاتھ میں ہوتا ہے اور ہاتھ کو جادو وہ دیتا ہے جس نے ہاتھ بنایا ہے"۔ یہی ان کی شخصیت کا خلاصہ تھا۔ زندگی میں بھی وہ ایسے ہی تھے۔ سادہ، کم گو، نرم دل اور انتہائی disciplined۔ انہیں شہرت سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ اپنے تمغے بیڈ کے نیچے دراز میں رکھ دیتے تھے۔ جب ریٹائر ہوئے تو ان کا گھر ان گنت ٹرافیوں کا قبرستان تھا جس پر نہ گرد جھاڑی جاتی تھی نہ کوئی display رکھا جاتا تھا۔ وہ بس کھیلنے آئے تھے، کھیل کر چلے گئے۔ شاندار مگر بے نشاں۔
آج جب ہم ہاکی کے زوال کی بات کرتے ہیں تو دھیان چند جیسے لوگ خواب لگتے ہیں، افسانہ محسوس ہوتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ کیا واقعی کوئی آدمی ایسا بھی تھا جو گیند کو یوں قابو کر لیتا تھا جیسے اپنا سایہ پکڑ لیا ہو؟ کیا کسی کھلاڑی کے پاس واقعی اتنی فن کی دولت ہو سکتی ہے کہ دنیا کا کوئی دفاع اس کے آگے ٹھہر نہ سکے؟ اور کیا کوئی ہیرو ایسا بھی ہو سکتا ہے جس نے دنیا کو فتح کیا ہو مگر کبھی اپنے کارناموں کا ڈھنڈورا تک نہ پیٹا ہو؟ دھیان چند ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اصل عظمت خاموشی میں ہوتی ہے۔ اصل مہارت دکھاوے میں نہیں، عمل میں ہوتی ہے۔ اصل ہیرو وہ ہے جو اپنے فن سے دنیا کو بدل تو دے مگر خود نہ بدلے۔ آج کے شور شرابے، اشتہارات، برانڈنگ اور سیاسی تقسیم کے شور میں دھیان چند ایک ایسی ہوا کا جھونکا لگتے ہیں جس میں سادگی بھی ہے، عظمت بھی اور روحانیت بھی۔
ہمارے آج کے کھلاڑیوں، ہمارے کوچز، ہماری اکیڈمیوں اور ہمارے کھیل کے نظام کو اگر کوئی ایک مثال دیکھنی چاہیے تو وہ دھیان چند ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ٹیلنٹ بغیر کردار کے بے وقعت ہے۔ مہارت بغیر اخلاق کے ادھوری ہے اور کھیل بغیر روح کے صرف دوڑنے بھاگنے کا نام ہے۔ دھیان چند کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ کامیابی کی آواز کم ہوتی ہے مگر اثر بہت زیادہ۔ ان کے جانے کے دہائیوں بعد بھی دنیا آج تک انہیں "ہاکی کا جادوگر" اور "General of Hockey" کہہ کر یاد کرتی ہے۔ یہ اعزاز نہ میڈیا دیتا ہے، نہ حکومتیں۔ یہ اعزاز صرف وقت دیتا ہے اور وقت صرف ان لوگوں کو دیتا ہے جو سچے ہوں، خالص ہوں اور اپنے فن کے امین ہوں۔
دھیان چند کی داستان کسی پرانے کھلاڑی کے قصے میں محدود نہیں۔ یہ ایک روایت ہے، ایک معیار ہے، ایک torch ہے جو آج بھی ہمیں روشنی دکھا سکتی ہے اگر ہم اس کی سمت میں دیکھنے کا حوصلہ کریں۔ کھیل کے میدان میں جب بھی کوئی نوجوان کھلاڑی گیند پکڑتا ہے، تو شاید اسے اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ جس کھیل کو اپنی انگلیوں پر نچانے کی کوشش کر رہا ہے، اس کھیل کا اصل بادشاہ کبھی دھیان چند نام کا ایک شخص تھا۔ ایک ایسا شخص جو گیند کے ساتھ نہیں چلتا تھا، گیند اس کے ساتھ چلتی تھی اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک دنیا انہیں صرف ایک کھلاڑی نہیں بلکہ "جنرل آف ہاکی" کہتی ہے۔ وہ جرنیل جس نے ہاکی کو میدان سے اٹھا کر تاریخ میں لکھ دیا۔

