Deen Mein Tarjeehat
دین میں ترجیحات

وہ مکہ کے ایک ہوٹل میں بیٹھا موبائل پر تصویریں سکرول کر رہا تھا۔ چہرے پر تازگی تھی، احرام کھول چکا تھا، چمکتی قینچی سے بال تراشے جا چکے تھے۔ سامنے ٹیبل پر کالی کافی بھاپ چھوڑ رہی تھی، ساتھ ڈونٹس رکھے تھے۔ اچانک اس کی نظر فون کی سکرین پر رُک گئی۔ اس کے محلے کا ایک واٹس ایپ پیغام تھا: "بھائی جان، اللہ آسانی کرے، بچوں کے دودھ کے پیسے ختم ہو گئے ہیں، آپ سے کچھ قرض مانگنا ہے۔ " اس نے تھوڑی دیر سوچا، پھر فون ایک طرف رکھ دیا۔ کافی کی چسکی لی، آنکھیں بند کیں اور آہستہ سے بولا، "اللہ قبول فرمائے، بہت روحانی سفر تھا، " پھر اگلے ہی لمحے کیمرہ آن کیا اور ایک ویڈیو ریکارڈ کی، "دوستو! اللہ نے مجھے بار بار اپنے گھر بلایا ہے، یہ اُس کا خاص کرم ہے۔ " ویڈیو آپ لوڈ ہوگئی، لائکس آنے لگے، دل ہشاش بشاش ہوگیا۔ اسے یاد بھی نہ رہا کہ کسی کے گھر دودھ ختم ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے: "آخری زمانے میں حاجی بہت بڑھ جائیں گے، ان کے سفر آسان ہوں گے، رزق وسیع ہوگا، مگر وہ خالی ہاتھ واپس آئیں گے۔ ان میں ایک کی سواری اسے پہاڑوں اور ریگستانوں سے گزارے گی لیکن اس کے پہلو میں کوئی تنگ دست پڑوسی ہوگا جس کے ساتھ وہ غم خواری نہیں کرے گا۔ " یہ قول میں نے برسوں پہلے پڑھا تھا، مگر آج اس کی گونج ہر طرف سنائی دیتی ہے۔ حج، عمرہ، زیارت، نذرانے، عطیات۔ سب کچھ بڑھ گیا ہے۔ مگر دلوں کی نرمی کم ہوگئی ہے۔ ہم عبادت کے ظاہر میں الجھ گئے ہیں اور روح کو بھول بیٹھے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اللہ کے نزدیک کیا بڑا ہے اور کیا چھوٹا، کہاں رکنا ہے اور کہاں جھکنا۔ علامہ یوسف القرضاوی اپنی کتاب "فقہ الاولویات" میں لکھتے ہیں کہ دین کا سب سے بڑا بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان ترجیحات الٹ دے، جب چھوٹے عمل کو بڑا اور بڑے عمل کو چھوٹا سمجھنے لگے، جب وہ سمجھنے لگے کہ نماز تو ہوگئی، بس اب سب کچھ ٹھیک ہے، حالانکہ نماز کا اثر تو چہرے کے نرم لہجے، ہاتھ کی سخاوت اور آنکھ کی شرم میں ظاہر ہونا چاہیے۔
کچھ عرصہ پہلے میرے شہر کے ایک شخص نے مسلسل تین عمرے کیے۔ لوگ تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ واپسی پر میں نے ان سے پوچھا: "کیا ملا اس بار مکہ سے؟" وہ بولے، "بہت سکون، بہت برکت۔ " میں نے پوچھا، "آپ کے محلے میں جو بیوہ عورت بجلی کا بل ادا نہیں کر سکتی، اس کے لیے کیا کیا؟" وہ خاموش رہے۔ یہی خاموشی آج ہمارے چہروں پر لکھی ہے۔ ہم عبادت تو کرتے ہیں مگر اس کے اثرات اپنے اردگرد نہیں دیکھ پاتے۔ ہم اللہ کے در پر جاتے ہیں مگر اس کے بندوں سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ ہم طواف کرتے ہیں مگر دل کے گرد موجود خودغرضی کے بت نہیں توڑ پاتے۔ ہم نے عمل کو عبادت سمجھا اور نیت کو نظر انداز کر دیا۔ ہم نے دکھاوا، مقابلہ اور رواج کو دینداری کا لبادہ پہنا دیا۔ ہر طرف "میں نے کیا" اور "میں نے جیتا" کی دوڑ ہے۔ کوئی تصویریں اپلوڈ کر رہا ہے، کوئی ٹوئٹ کر رہا ہے، کوئی تسبیحوں کی گنتی کر رہا ہے، لیکن کہیں وہ ایک آنسو، وہ ایک سچّی نیت، وہ ایک غریب کے درد کا احساس ناپید ہے جو عبادت کی اصل روح تھی۔
ایک بزرگ کہا کرتے تھے: "بیٹا! دین کا وزن پیمانے سے نہیں، نیت سے ہوتا ہے۔ " میں نے پوچھا، "مطلب؟" وہ بولے، "ایک شخص روز ایک روٹی کسی غریب کو دیتا ہے، دوسرا ایک لاکھ کا چندہ مسجد کو دیتا ہے۔ اللہ کے ہاں دونوں کا اجر برابر ہے، بلکہ پہلے کا کچھ زیادہ ہے، کیونکہ ایک کے پاس ایک روٹی تھی، اس نے وہ دے دی، دوسرے کے پاس ہزار روٹیاں تھیں، اس نے ایک دی۔ " یہی ہے ترجیح۔ یہی ہے توازن۔ ہم نے دین کو صرف عبادات کی فہرست بنا دیا ہے، حالانکہ دین ایک مکمل شعور ہے، ایک طرزِ زندگی۔ اگر یہ شعور ہمارے اندر جاگ جائے تو ہم جان لیں گے کہ کبھی کبھی ایک غریب کے آنسو پونچھنا، مکہ کی مٹی چومنے سے زیادہ قیمتی عمل ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: "تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور اللہ کو وہ بندہ سب سے زیادہ محبوب ہے جو اس کے بندوں کے لیے سب سے زیادہ نفع رساں ہو۔ "
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں، اگر آج حضرت ابن مسعودؓ ہوتے تو ہمیں دیکھ کر کیا کہتے؟ شاید وہ مسکرا کر فرماتے: "تم نے سواریاں بدل لیں، نیتیں نہیں بدلیں۔ تم نے راستے چھوٹے کر لیے، دل تنگ کر لیے۔ تم نے حرم تک پہنچنے کے ذرائع بنا لیے، مگر غریب کے در تک جانے کے بہانے ختم کر دیے۔ " ہم نے دین کو رسم بنا دیا اور رسمیں کبھی معاشرے نہیں سنوار سکتیں۔ ہمارا دینی ورثہ، ہمارا قرآن، ہماری سنت، سب ہمیں ترجیحات کا سبق دیتے ہیں۔ نماز تمہیں ظلم سے روکے، روزہ تمہیں احساس دلائے، حج تمہیں قربانی سکھائے، زکوٰۃ تمہیں دوسروں کے دکھ سے جوڑے۔ جمعہ المبارک کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑی نیکی وہ ہے جو دل کو بدل دے۔ ترجیحات درست ہو جائیں تو اعمال خود سیدھے ہو جاتے ہیں۔ آئیے آج یہ عہد کریں کہ عبادت صرف ادا نہیں کریں گے، اسے زندگی کا مرکز بنائیں گے۔ ہم مکہ جائیں تو اپنے محلے کے بھوکے کو بھی یاد رکھیں گے، ہم نماز پڑھیں تو اس کے اثرات اپنے رویّے میں دکھائیں گے، ہم دین کو رسومات کی فہرست سے نکال کر ترجیحات کی حکمت بنائیں گے۔ شاید پھر وہ دن آئے کہ جب حاجی خالی ہاتھ نہیں بلکہ بھرا دل لے کر لوٹیں اور اللہ کے بندے ایک دوسرے کی تکلیف پر ایسے تڑپیں جیسے اللہ اور اس کے عظیم رسول نے ہمیں بتایا ہے۔ یہی دین کی اصل روح ہے، یہی جمعہ المبارک کا پیغام ہے اور یہی ہمارا کھویا ہوا دینی ورثہ ہے جسے دوبارہ حاصل کرنا اب وقت کی سب سے بڑی ترجیح ہے۔

