Darya, Taqat Aur Siasat, Brahmaputra Dam Ka Manzar Nama
دریا، طاقت اور سیاست، برہمپتر ڈیم کا منظرنامہ

دریا ہمیشہ سے صرف پانی کے بہاؤ کا نام نہیں رہا بلکہ زندگی، تہذیب، طاقت اور سیاست کا بھی استعارہ رہا ہے۔ انسان نے جب آنکھ کھولی تو سب سے پہلے دریا کے کنارے تہذیبوں کو پروان چڑھتے دیکھا۔ دریاؤں نے زندگی کو جِلا بخشی، زمینوں کو زرخیز کیا، ثقافتوں کو جنم دیا اور سلطنتوں کی بنیادیں رکھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دریا صرف پانی کے وسائل تک محدود نہ رہے، بلکہ ریاستوں کی بقا، دشمنوں کی ناکہ بندی اور حتیٰ کہ بین الاقوامی دباؤ کا ذریعہ بھی بن گئے۔
دریا، بالخصوص جب وہ کئی ممالک سے گزرتے ہوں، تو ان کی حرکیات پانی سے زیادہ سیاست اور طاقت کی کہانی سناتی ہیں۔ جنوبی ایشیا، جہاں پانی کے کئی بڑے دریا مختلف ممالک میں بٹ کر بہتے ہیں، اس خطے کی سیاست میں دریا ایک خاموش مگر طاقتور کردار بن چکے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائے سندھ کا پانی برسوں سے کشیدگی کا باعث رہا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے باوجود دونوں ممالک اس پر بداعتمادی کے بادلوں سے آزاد نہیں ہو سکے۔ اسی تناظر میں اگر چین کی جانب سے برہمپتر دریا پر بنائے جانے والے دیو ہیکل ڈیم کی خبر آئے، تو یہ نہ صرف بھارت کے لیے تشویش کا باعث بنے گی بلکہ خطے میں طاقت کے توازن پر بھی سوالیہ نشان بن جائے گا۔
برہمپتر دریا، جسے چین میں یارلنگ ژانگبو کے نام سے جانا جاتا ہے، تبت کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور بھارت کے اروناچل پردیش اور آسام سے ہوتا ہوا بنگلہ دیش میں جمنا دریا میں تبدیل ہو کر گنگا سے جا ملتا ہے۔ یہ دریا نہ صرف ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کا حصہ ہے بلکہ آج بھی لاکھوں افراد کی زندگی، معیشت اور زراعت اسی کے پانی سے وابستہ ہے۔ جب چین اس دریا پر ایک بڑا ڈیم بنانے کا اعلان کرتا ہے، تو یہ اعلان محض ایک تعمیراتی منصوبہ نہیں بلکہ ایک سٹریٹجک پیغام بھی ہوتا ہے۔ چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور عالمی طاقت کی دوڑ میں وہ ہر اس ہتھیار کو آزمانا چاہتا ہے جس سے وہ اپنی برتری کو یقینی بنا سکے۔ پانی اس وقت دنیا میں تیل کے بعد سب سے قیمتی وسیلہ بن چکا ہے۔
پانی پر بالادستی کا مطلب ہے زرعی خود کفالت، بجلی کی فراہمی، معیشت کی روانی اور دشمن کی کمزوری کا مکمل ادراک۔ چین نے جب برہمپتر پر سپر ڈیم بنانے کی تیاری شروع کی تو اس کا پہلا ردِعمل بھارت سے آیا، جس نے اسے اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔ بھارت کو اندیشہ ہے کہ چین مستقبل میں اس دریا کے پانی کو محدود کر سکتا ہے، اسے موڑ سکتا ہے، یا سیلاب کی صورت میں ایک سٹریٹجک ہتھیار کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ برہمپتر پر اس طرح کا کنٹرول صرف بھارت ہی کے لیے خطرہ نہیں بلکہ خطے میں دوسرے ممالک کے لیے بھی سٹریٹجک نتائج کا حامل ہے، خاص طور پر پاکستان کے لیے۔
پاکستان، جو پہلے ہی پانی کے شدید بحران سے گزر رہا ہے، اس وقت دریائے سندھ پر بھارت کے ساتھ کشیدگی کا سامنا کر رہا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے باوجود بھارت کئی چھوٹے ڈیم تعمیر کر چکا ہے جن سے پاکستان کے لیے دستیاب پانی کی مقدار متاثر ہوئی ہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ کیا چین اپنے سٹریٹجک اتحادی پاکستان کی مدد کے لیے برہمپتر کے پانی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا؟ اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں کیونکہ پانی کو ہتھیار بنانے کے نتائج اتنے پیچیدہ اور دور رس ہوتے ہیں کہ انہیں ایک محدود تعلق یا وقتی فائدے کے لیے استعمال کرنا خود تباہی کا سامان بن سکتا ہے۔
پروفیسر راجیو کی بات میں وزن ہے کہ اگرچہ یہ ممکن ہے، لیکن فی الحال امکان کم ہے۔ چین ایک محتاط قوت ہے جو طویل مدتی حکمتِ عملی پر یقین رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر وہ برہمپتر کے پانی کو پاکستان کے فائدے یا بھارت کے نقصان کے لیے استعمال کرتا ہے تو یہ ایک کھلا اعلان جنگ ہوگا۔ اس سے نہ صرف چین-بھارت تعلقات خراب ہوں گے بلکہ بنگلہ دیش، نیپال اور دوسرے ہمالیائی خطے کے ممالک میں بھی بے چینی بڑھے گی، جہاں برہمپتر کی ایک بڑی اہمیت ہے۔ چین کا اس وقت فوکس معاشی ترقی، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور خطے میں اپنی ساکھ مضبوط کرنے پر ہے۔ وہ شاید کسی ایسے اقدام سے گریز کرے جو اس کے عالمی تصور کو منفی رنگ دے۔
تاہم یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کی سیاست مستقل نہیں، نہ ہی اس کے مفادات جامد ہوتے ہیں۔ کل کا اتحادی آج کا رقیب بن سکتا ہے اور کل کا خاموش حریف آج کا دوست۔ چین اور بھارت کی موجودہ کشیدگی، لداخ میں تصادم، بحیرہ جنوبی چین میں فوجی تیاریاں اور عالمی طاقتوں کی نئی صف بندیاں ایک ایسے ماحول کو جنم دے رہی ہیں جہاں پانی جیسے وسائل کو محض ترقیاتی منصوبے کے تناظر میں دیکھنا ممکن نہیں رہا۔ اگر کل کو بھارت چین کے خلاف کسی سخت پالیسی پر چلتا ہے، یا چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں رکاوٹ ڈالتا ہے، تو چین یہ محسوس کر سکتا ہے کہ برہمپتر اس کا ایک سٹریٹجک ہتھیار ہے، بالکل ویسے ہی جیسے امریکہ معاشی پابندیوں کو ہتھیار بناتا ہے۔
دوسری طرف اگر پاکستان پر دباؤ بڑھے، یا بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں کو تیز کرے، تو چین پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو ایک اور سطح پر لے جا سکتا ہے۔ چین پہلے ہی پاکستان میں بہت بڑی سرمایہ کاری کر چکا ہے، گوادر سے لے کر سی پیک تک اس کی موجودگی واضح ہے۔ پاکستان کو مستحکم رکھنا چین کے مفاد میں ہے۔ پانی کے بحران سے پاکستان کو محفوظ رکھنا، خواہ وہ برہمپتر سے ہو یا کسی اور ذریعے سے، چین کے سٹریٹجک مقاصد کو مضبوط کر سکتا ہے۔ اگر چین مستقبل میں برہمپتر کے پانی کا ایسا نظم قائم کرے جس سے بھارت کو نقصان اور پاکستان کو فائدہ ہو، تو یہ بظاہر ترقیاتی اقدام بھی ایک سٹریٹجک چال بن جائے گا۔
اس تمام منظرنامے میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اس ممکنہ پانی کی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے؟ شاید ابھی نہیں، لیکن آثار تشویشناک ہیں۔ جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے، موسم بدل رہا ہے، پانی کے وسائل کم ہو رہے ہیں اور ریاستیں اپنی بقا کی جنگ میں مصروف ہو رہی ہیں، ویسے ویسے دریا اب تہذیب کے نشان سے زیادہ طاقت کے نشان بنتے جا رہے ہیں۔ برہمپتر پر چین کا ڈیم اسی طاقت کی ایک علامت ہے۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پانی اب صرف حیات بخش نہیں، بلکہ اس کی حیثیت ایک سٹریٹجک اثاثے کی ہے۔ جیسے ایٹم بم نے دنیا کی سیاست کو بدل دیا تھا، ویسے ہی پانی کے وسائل اب عالمی پالیسی میں ایک سنجیدہ اور اہم عنصر بن چکے ہیں۔ اگر ریاستیں بروقت کوئی عالمی معاہدہ یا ضابطہ اخلاق وضع نہ کر سکیں، تو یہ بات زیادہ دور نہیں جب دریا صرف پل باندھنے کے لیے نہیں بلکہ سرحدیں توڑنے کے لیے استعمال ہوں گے۔
لہٰذا، اس وقت ضرورت ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک باہمی اعتماد کے ساتھ ایک ایسے علاقائی پانی معاہدے کی طرف بڑھیں جو صرف دریاؤں کے بہاؤ کا حساب نہ کرے بلکہ آنے والے خطرات کو سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کی سلامتی اور ترقی کو بھی مدنظر رکھے۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب برہمپتر، سندھ، گنگا اور دوسرے دریا، جنہوں نے تہذیبوں کو جنم دیا، انہی تہذیبوں کی قبریں بھی کھود دیں۔

