Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Dadi Bhagan, Allah Ke Sache Wade Ki Jeeti Jaagti Daleel

Dadi Bhagan, Allah Ke Sache Wade Ki Jeeti Jaagti Daleel

دادی بھاگاں، اللہ کے سچے وعدے کی جیتی جاگتی دلیل

دادی بھاگاں، ایک ایسا نام جو زبان سے ادا ہو تو دل کے کسی نرم گوشے سے خوشبو اُٹھتی ہے۔ مٹی میں پسینے کی خوشبو، دھوپ میں چمکتے لوٹے کا عکس اور تہجد کی اذان کے ساتھ گونجتی کسی بے آواز دعا کی حرارت۔ دادی بھاگاں ہمارے گھر کی نہیں، ہمارے پورے عہد کی علامت تھیں۔ ایک ایسی خاتون جو اگر وقت کی مشین میں بٹھا کر آج کے زمانے میں لائی جائے تو انسان حیران رہ جائے کہ کیا یہ ممکن ہے؟ کہ ایک ان پڑھ عورت اتنی سمجھدار، اتنی باوقار، اتنی صاحبِ حکمت ہو سکتی ہے؟ مگر ہاں، وہ تھی۔

جب ہم نے ہوش سنبھالا تو دادی ہمیشہ مٹی کے لوٹے کے ساتھ دکھائی دیتیں۔ کبھی سر پر اُٹھائے کھیتوں کو جاتی ہوئی، کبھی کسی درخت کی چھاؤں میں اسے چھپا کر رکھتی ہوئی۔ دادی کا یہ چھپا ہوا لوٹا محض پانی کا برتن نہیں تھا، یہ ان کی روحانی طہارت کی علامت تھا۔ وہ کہتیں، "وضو کا پانی پاک ہونا چاہیے، اس پر کسی کا ہاتھ نہ لگے، کسی کا منہ نہ چھوئے" اور ہم شرارتی بچوں کو یہی چیلنج سب سے دلچسپ لگتا۔ ہم چھپ کر وہ لوٹا ڈھونڈ نکالتے، چپکے سے اس میں سے پانی پی لیتے اور پھر اعلان کرتے، "دادی! ہم نے آپ کے لوٹے سے پانی پی لیا!" دادی کا چہرہ سرخ ہو جاتا، وہ ڈانٹنے لگتیں، "اوئے نالائقو! وضو دا پانی مکروہ کر دِتا تساں!" لیکن اگلے ہی لمحے ان کی آواز نرم ہو جاتی۔ وہ کہتیں، "چلو، جتنا پی سکتے ہو پی لو، اب یہ پانی میرے کسی کام کا نہیں"۔ پھر نیا پانی بھرنے نکل جاتیں۔ وہ اپنی عبادت پر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں تھیں۔

دادی کا دن فجر سے پہلے شروع ہوتا۔ تہجد اور نماز فجر کے بعد وہ سورج کے اُٹھنے سے پہلے ہی کھیتوں کی سمت روانہ ہو جاتیں۔ کھیت ان کے لیے صرف کام کی جگہ نہیں تھے، وہ ان کا مزار، ان کا مکتب، ان کی محراب تھے۔ جیسے ہی فصل بیجی جاتی، دادی کی ذمہ داریاں شروع ہو جاتیں۔ ان کے نزدیک بیج ایک امانت تھا۔ وہ کھیتوں کے راستے بند کر دیتیں کہ کوئی جانور یا آدمی وہاں سے نہ گزرے۔ "بیج بچے وانگوں ہُندے نیں، انہاں نوں سکون چاہیدا اے اگن لئی"۔ وہ کہتیں۔ بیجوں کی رکھوالی ان کا عشق تھا۔ وہ کھیت کے کونے میں بیٹھ کر گھنٹوں نئی کونپلوں کو دیکھتیں، جیسے کوئی ماں بچے کے پہلے قدم دیکھتی ہے۔

جب جڑی بوٹیاں اُگنے لگتیں تو دادی کا اگلا معرکہ شروع ہوتا۔ وہ ہاتھ سے ایک ایک پودا نکالتیں، مٹی جھاڑ کر الگ کرتیں۔ شام کو وہی جڑی بوٹیاں چادر میں باندھ کر گھر لایا کرتیں، انہیں مشین پر کاٹ کر جانوروں کے لیے چارہ بنا دیتیں۔ دادی کہتیں، "اللہ نے وی فضول کچھ نہیں بنایا۔ جو فصل نوں تنگ کرے، اوہ وی کسی ہور دی بھلائی لئی اے"۔ یہی ان کی زندگی کا فلسفہ تھا۔ نقصان بھی کسی کے فائدے میں بدل دینا۔

دادی بھاگاں ان پڑھ تھیں، مگر علم کی وہ روشنی ان کے اندر تھی جو کسی کتاب سے نہیں آتی۔ تہجد گزاروں کے لیے قرآن میں جو وعدہ ہے کہ "میں اسے حکمت عطا کروں گا" وہ ان پر پورا اُترا تھا۔ پورے علاقے کی گائناکالوجسٹ تھیں۔ کتنی عورتیں ان کے ہاتھوں سے ماں بنیں، کتنے بچے ان کے لمس سے زندگی میں آئے۔ بغیر کسی ڈگری، بغیر کسی سند کے، وہ ایک مکمل گائناکالوجسٹ تھیں۔ مشکل سے مشکل ڈیلیوری کیس وہ ایسے حل کرتیں جیسے کوئی تجربہ کار سرجن۔ اگر کبھی کوئی کہتا، "دادی، تُسی ایہہ سب کِدّاں سِکھیا؟" تو وہ ہنس کر کہتیں، "اللہ خود سکھا دیندا اے جِنہاں نوں نیت صاف ہُندی اے"۔

لیکن دادی کا کمال صرف کام میں نہیں، کردار میں تھا۔ ان کی زندگی کے سب سے بڑے امتحان کا نام تھا، صبر۔ دادا کے رویے میں سختی تھی، کبھی بے رحمی بھی۔ مگر دادی نے کبھی شکوہ نہ کیا۔ ان کے صبر میں ایسی خاموش عظمت تھی کہ انسان جھک جائے۔ وہ دادا کے بیدار ہونے سے پہلے گھر چھوڑ دیتیں، کھیتوں میں دن بھر محنت کرتیں، مغرب کی نماز کھیتوں میں ہی ادا کرتیں اور اندھیرا چھا جانے پر واپس لوٹتیں تاکہ آمنا سامنا نہ ہو۔ یہ دوری ان کے دل کے سکون کا راز تھی۔ وہ نہ جھگڑتیں، نہ شکایت کرتیں۔ وہ بس اللہ سے کہتیں، "تُو دیکھ رہا اے"۔

دادی کا ایک الگ جہان تھا۔ ان کی عبادت، ان کا کھیت، ان کے جانور، ان کا لوٹا اور ان کا صبر۔ لیکن سب سے بڑا جہان ان کے اندر تھا۔ وہ جہاں ہم جیسے بچوں کے لیے بے پناہ محبت بھری کائنات تھی۔ ہم جب دوپہر میں کھیتوں کے کنارے پہنچتے تو دادی ہمیں کھیت کے کنارے بٹھا کر چھوٹے چھوٹے مٹی کے برتنوں میں دہی یا لسی ڈال دیتیں۔ وہ کہتیں، "پُتر، کھیت دی روٹی تے لسی نال جنت دا مزہ اے" اور واقعی، ان کے ہاتھ کا ہر لقمہ جنت کی خوشبو رکھتا تھا۔

آج جب ہم جدید دنیا کے اس شور میں بیٹھے، اپنے بچوں کو موبائل اور ٹیب میں گم دیکھتے ہیں، تو دادی بھاگاں یاد آتی ہیں۔ وہ عورت جو زمانے کی سب تعریفوں سے بالاتر تھی۔ اس کے پاس نہ سوشل میڈیا تھا، نہ لائکس، نہ واٹس ایپ گروپ، نہ کوئی "ریپیوٹیشن اسکور"، لیکن ان کی زندگی کا ہر لمحہ معنویت سے بھرا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ زندگی کا اصل حسن خدمت میں ہے، عبادت میں ہے، صبر میں ہے۔

اگر آپ غور کریں تو دادی بھاگاں جیسی عورتیں ہمارے معاشرے کے اصل ستون تھیں۔ وہ اسکول نہیں گئیں مگر انہوں نے تعلیم کی روح ہم تک پہنچائی۔ وہ ڈاکٹر نہیں تھیں مگر زندگی بخشنے والی تھیں۔ وہ صوفی نہیں کہلاتی تھیں مگر ان کے عمل میں تصوف کا کمال تھا۔ ان کے ہاتھوں سے جو بیج زمین میں جاتا، وہ صرف فصل نہیں اُگاتا، وہ یقین اور دعا کا پودا بنتا۔

ہماری آج کی نسل کے لیے شاید "دادی بھاگاں" محض ایک قصہ لگے۔ لیکن اگر وہ ان کی آنکھوں میں دیکھ سکیں، تو جان جائیں کہ محبت اور عبادت کا جو رشتہ ان کے اندر تھا، وہ کسی یونیورسٹی، کسی ادارے، کسی ٹریننگ سے نہیں ملتا۔ وہ اللہ کے سچے وعدے کی جیتی جاگتی دلیل تھیں۔ کہ جو دل سے عبادت کرتا ہے، اسے حکمت عطا ہوتی ہے۔

دادی بھاگاں اب نہیں رہیں، مگر جب بھی کسی کھیت کے کنارے سے ہوا کا جھونکا آتا ہے، یا کسی مسجد سے فجر کی اذان گونجتی ہے، تو لگتا ہے دادی کی دعا اب بھی فضا میں موجود ہے۔ وہ دعا جو لوٹے کے پانی میں چھپی ہوتی تھی، جو کھیت کے بیج میں اترتی تھی، جو زمین سے آسمان تک سفر کرتی تھی۔

آج ہمیں اپنی دنیا میں دادی بھاگاں جیسے کرداروں کی ضرورت ہے۔ ان عورتوں کی جو علم سے زیادہ حکمت رکھتی ہیں، جن کے وضو کا پانی پاکیزہ ہو، جن کے ہاتھوں سے مٹی میں برکت اترے اور جن کے صبر میں روشنی ہو۔

دادی بھاگاں ایک عورت نہیں تھیں، ایک فلسفہ تھیں۔ اس فلسفے کا نام تھا خدمت، صبر اور یقین۔

اور شاید اسی یقین کے بل پر وہ آج بھی کہیں نہ کہیں، کسی کھیت کے کنارے، کسی درخت کی چھاؤں میں، مٹی کے لوٹے کے ساتھ بیٹھی ہوں، ہمارے لیے دعا کرتی ہوئی۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari