Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Cricket Ke Maidan Mein Dushmani Nahi, Akhuwat Ke Bande Ban Ke Aao

Cricket Ke Maidan Mein Dushmani Nahi, Akhuwat Ke Bande Ban Ke Aao

کرکٹ کے میدان میں دشمنی نہیں، اخوت کے بندے بن کر آؤ

کرکٹ کا میدان وہ واحد جگہ ہے جہاں ہم اپنی قوموں کی محبت، فخر اور امیدوں کو ایک صاف شفاف مقابلے میں سمیٹ کر رکھتے ہیں۔ مگر جب اس میدان میں تلخی آ جائے تو نقصان صرف کھیل کا نہیں ہوتا، قوموں کے بیچ کے رشتے بھی ٹوٹتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جب ایک خوبصورت کرکٹ میچ کے بعد روایتی مصافحے سے گریز کا واقعہ سامنے آیا تو ہم سب نے محسوس کیا کہ کرکٹ کا وہ ہمدردانہ اور مردانہ رویہ کہیں پس پشت چلا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ اور اس پر پیدا ہونے والی بحث نے ہمیں یاد دلایا کہ کھیل کا سب سے بڑا سبق یہی ہے: تم جیتو یا ہارو، آخر میں ہاتھ بڑھاؤ، مبارک دو، گلے لگو اور ہارنے والے کی ہمت بڑھاؤ۔ یہی کرکٹ ہے، یہی جینٹل مین گیم ہے۔

ہمارا شوق، ہمارا جوش، ہمارا غرور، سب کچھ اس بات پر منحصر نہیں کہ کون سی ٹیم جیت رہی ہے بلکہ اس بات پر بھی ہے کہ ہم کیسے جیت رہے ہیں اور کیسے ہار رہے ہیں۔ ایک فیلڈ میں جب تم مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے طعنہ زنی، نفرت انگیز بیانات، یا قوم پرستی کی شدتوں کو لاتے ہو تو تم کھیل کے حقیقی مزے کو ختم کر دیتے ہو۔ اس کا نقصان اس کے کھلاڑیوں تک محدود نہیں رہتا، اس کا اثر فیملی کے کمروں، شاہراہوں اور عوامی بحثوں تک پھیلتا ہے۔ جب ہم اپنے سٹیڈیم میں دشمن بن کر بیٹھتے ہیں تو ہم دراصل کرکٹ کی اصل روح کو دفن کر دیتے ہیں۔ کرکٹ نے ہمیشہ ہمیں سکھایا ہے کہ روحِ بازی، عزتِ حریف اور وقتِ شکست میں شاندار بزرگی ہی اصل جیت ہوتی ہے۔

یہاں میں واضح طور پر کہوں گا کہ کھیل اور سیاست کے بیچ سرحد ضروری ہے۔ سیاست اپنے مقام پر رہے۔ لوگ اپنے سیاسی نظریات کے مطابق بحث کریں، احتجاج کریں، ووٹ دیں، مگر جب وہ کھیل کے میدان میں آ کر کھلاڑیوں کی ذات، کھیل کی روح اور قوموں کے بیچ بھائی چارے کو نقصان پہنچائیں تو وہ کھیل کی روح کا قتل ہے۔ خاص طور پر جب کوئی طاقتور سیاسی ایجنڈا اس میدان میں آ کر جینٹل مین گیم کو مسخ کر دے تو ہمیں روکنے کا حق ہے۔ گندی سیاست، جو تقسیم اور نفرت بوئے، اسے اس میدان سے نکال باہر کریں۔ میدان کو دوبارہ اس کے اصل نصب العین یعنی کھیل، مہارت اور باہمی عزت کے لیے خالی کریں۔ ہم سب کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم کرکٹ کو پھر سے امن و آشتی کا سفیر بنائیں، نہ کہ سیاسی دشمنی کا آلہ۔

کرکٹ کے مہتمم لمحے وہ ہوتے ہیں جب فاتح اور مغلوب دونوں ایک دوسرے کی کارکردگی کو سراہتے ہیں۔ وہ لمحات جب ایک نوجوان بلے باز نے دل کھول کر شور مچایا اور مخالف اس کی مہارت کو داد دیتا ہے، یا جب فیلڈر نے زبردست کیچ پکڑا اور ہر طرف سے تالیوں کی گونج اٹھے، یہی وہ مناظر ہیں جو دلوں میں گھر کر جاتے ہیں۔ حقیقی فین اسی کھیل کا خیرخواہ ہوتا ہے جو اچھا کھیل دیکھ کر خوش ہوتا ہے، جو حریف کے اچھے کھیل کو تسلیم کرتا ہے اور جو شکست کھانے والے کو دل سے اٹھا کر اگلی محنت کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو کرکٹ کو نفرت کے آلے میں بدل دیتے ہیں، کھیل کے اصلی مزے کو چھین لیتے ہیں اور دونوں قوموں کے بیچ براہِ راست رکاوٹ کھڑی کر دیتے ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کرکٹ صرف نوابوں یا سپر سٹارز کا کھیل نہیں، یہ عوام کا کھیل ہے۔ گراؤنڈ میں بیٹھے ان تقریباََ بیس ہزار انسانوں کی آوازیں، ان کے جذبات، ان کے غم اور خوشی سب اس کھیل میں شامل ہوتے ہیں۔ جب ہم سٹیڈیم میں بیٹھ کر کسی کے خلاف نفرت کی زبان بولتے ہیں تو ہم ان لوگوں کے دلوں میں بھی وہی نفرت بوتے ہیں۔ سنو: کھیل کے بعد جب دونوں ٹیمیں ملیں، جب جیتنے والے ہارنے والوں کو گلے لگائیں، تب ہی حقیقی جیت ہوتی ہے، نہ صرف اس دن کی، بلکہ آنے والے کل کی کشادگی کی۔ یہی وہ تصویر ہے جسے ہم اپنے بچوں کو دکھانا چاہتے ہیں، یہی وہ مثال ہے جو نسل در نسل یاد رکھی جاتی ہے۔

جب میں پاکستان اور انڈیا کے رابطے کی بات کرتا ہوں تو میری نظر میں دونوں قوموں کے درمیان کرکٹ کبھی صرف مقابلہ نہیں رہی، یہ ایک طرح کی ڈپلومیسی رہی ہے، ایک زبان جسے دونوں فریق سمجھتے ہیں۔ اس کھیل نے کئی بار سرد جنگ کے دنوں میں بھی پل کا کام کیا، لوگوں کے دلوں کو قریب لایا اور نفرت کے بجائے دوستی کے راستے کھولے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ ہم اس کھیل کو دوبارہ اسی مقام پر پہنچائیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم گندی سیاست کو میدان سے باہر رکھیں اور کھلاڑیوں کو کھیلنے دیں۔ کھیل کی عزت اور کھیل کی خوشبو برقرار رہے تو عوام کی نفرتیں بھی کم ہوں گی اور امیدیں بڑھیں گی۔

کیا مطلب ہے جینٹل مین گیم کھیلنے کا؟ یہ مطلب ہے کہ ہم میدان میں اخلاق، رواداری اور احترام کے ساتھ آئیں۔ یہ مطلب ہے کہ جب تم کبھی فتح حاصل کرو تو تم اپنے انداز میں بڑے بنو، داد دو، جھک کر مبارک باد دو اور اپنی کامیابی کو پر وقار انداز میں مناؤ۔ یہ مطلب ہے کہ جب تم ہارو تو خود کو نیچا نہ سمجھو بلکہ حریف کے ہاتھ سے اٹھ کر اگلی راہ تلاش کرو۔ یہ مطلب ہے کہ بچپن کے وہ سبق جو کرکٹ نے ہمیں دیے۔ ضد سے دوری، ٹیم ورک، حوصلہ افزائی اور احترام۔ انہیں ہم دوبارہ زندہ کریں۔

کبھی کبھی ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ کھلاڑی بھی انسان ہیں اور اس انسانیت میں خامیاں آتی ہیں۔ اگر کسی نے غلطی کی یا کسی نے کسی روایتی آداب کو توڑا تو ہمیں اسے سزا دینے کی بجائے اسے سمجھانے اور بتانے کا راستہ اپنانا چاہیے۔ میڈیا کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ایسی خبروں کو ہوا نہ دے جو تناؤ بڑھائیں۔ شائقین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جذباتیت پر قابو رکھیں۔ حکومتوں اور کرکٹ بورڈز کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی صورتحال میں فوری طور پر مثبت رویے کو فروغ دیں اور کھلاڑیوں کو نہ صرف ٹیکنیکل بلکہ اخلاقی تربیت بھی دیں۔

ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ سٹیڈیم میں ہر چیز جیت یا ہار تک محدود نہیں۔ یہ بھی دیکھو کہ کھلاڑیوں کا مستقبل کیا ہوتا ہے، ان کے کردار، ان کی صحت اور ان کے خاندان۔ اگر ہم کھیل کو ذاتی انتقام یا سیاسی ایجنڈا کا میدان بنا دیں تو یہ کھلاڑیوں کے لیے غیر منصفانہ ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر میچ کو ایک موقع سمجھیں۔ موقع کہ ہم ایک دوسرے کے قریب آئیں، موقع کہ ہم خوشی منائیں اور دکھ میں سہارا بنیں۔ اس میں جیت دلچسپ ہے مگر انسانیت سب سے بڑی چیز ہے۔

آخر میں میرا نعرہ یہ ہے: ہم ایک بار پھر کرکٹ کو وہ مقام دیں جو اس کا حق ہے۔ گندی سیاست، جو تقسیم اور نزاع پھیلاتی ہے، اسے باہر نکال دیں۔ آئیں سٹیڈیم میں اللہ کے بندے بن کر بیٹھیں، دشمنی کی روش ترک کریں اور اس کھیل کی روح کو زندہ کریں۔ جیتنے والے کے لیے تالی بجائیں، گرنے والے کو اٹھائیں اور میچ کے بعد ہاتھ ملائیں، گلے لگیں، مبارکباد دیں۔ ہارنے والے کی حوصلہ افزائی کریں اور کم آن مین، کم پریپیرڈ نیکسٹ ٹائم، یعنی کم شکایت، زیادہ تیاری اور پھر دوبارہ کوشش۔ اینڈ ٹرائی اینڈ ون دا گیم، کھیل کھل کر کھیلو، سچا دل دکھاؤ اور پھر بھی جینٹل مین کی طرح گھر واپس چلے آؤ۔

کرکٹ ہمیں سکھاتی ہے کہ بڑا ہونے کا مطلب صرف میدان میں حریف کو ہرانا نہیں، بلکہ کھیل کے بعد بھی ایک بڑے دل کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اسی بڑے دل کی بدولت ہم نہ صرف کھیل جیت سکتے ہیں بلکہ دل بھی جیت سکتے ہیں۔ آج اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستان، انڈیا اور پوری دنیا کے درمیان کرکٹ دوبارہ محبت اور احترام کی علامت بنے تو سب سے پہلے ہمیں اپنے اندر وہ تبدیلی لانی ہوگی، وہی تبدیلی جو ہمیں استاد نے بچپن میں سکھائی تھی: شرافت، ہمت، احترام اور حوصلہ۔ اگر ہم ایسا کریں تو کرکٹ دوبارہ وہی روشنی بن جائے گی جس نے دنیا کے دل جیتے ہیں۔ جس نے اندھیروں میں اجالا کیا ہے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan