Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Cricket Coaching, Khof Se Etemad Tak Ka Safar

Cricket Coaching, Khof Se Etemad Tak Ka Safar

کرکٹ کوچنگ، خوف سے اعتماد تک کا سفر

کرکٹ محض ایک کھیل نہیں، یہ تہذیب کا عکس ہے۔ جس طرح ایک معاشرہ اپنی اقدار اور رویوں کے ذریعے پروان چڑھتا ہے، اسی طرح ایک کرکٹ ٹیم بھی اپنے ماحول، کوچنگ کے طریقۂ کار اور کھلاڑیوں کے درمیان تعلقات کے ذریعے اپنی اصل پہچان بناتی ہے۔ دنیا بھر میں کرکٹ کوچنگ نے جس طرح ترقی کی ہے، اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مغرب نے ہمیشہ اس کھیل کو سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھایا، جب کہ ہم نے زیادہ تر انفرادی صلاحیتوں پر بھروسہ کیا۔ کبھی کبھی کوئی ایک سپر اسٹار نکل آیا اور اس کی بدولت ٹیم جیت گئی، لیکن ادارہ جاتی سطح پر تربیت اور کوچنگ کے نظام کو ہم وہ مقام نہ دے سکے جس کے وہ حقدار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں گورا کوچنگ کے معاملے میں ہم سے دس سال آگے تھا، لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ اب یہ فرق گھٹ کر تین سال تک رہ گیا ہے۔ اس فرق کو ختم کرنے کے لیے ہمیں سوچنا ہوگا کہ کوچنگ کی اصل ضرورت کہاں ہے، کس عمر میں ہے اور کس انداز میں ہے۔

کرکٹ کوچنگ کے لیے تین بنیادی عناصر ہمیشہ بنیادی حیثیت رکھتے ہیں: ڈسپلن، ورک ایتھکس اور رپورٹنگ۔ ڈسپلن کا مطلب محض وقت پر آنا یا جرمانے سے بچنا نہیں بلکہ اپنی ذات کو ایک ٹیم کا حصہ سمجھ کر کھیلنا ہے۔ ورک ایتھکس وہ رویہ ہے جس میں کھلاڑی اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لیے اضافی محنت کرے، بغیر کسی بیرونی دباؤ کے اور رپورٹنگ وہ عمل ہے جو کوچ کو کھلاڑیوں کے مزاج، ان کی فٹنس اور ان کے رویوں کا سچائی کے ساتھ عکس دکھاتا ہے۔ اگر رپورٹنگ درست نہ ہو تو ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے، کیونکہ فیصلہ ساز ادارے اصل صورتِ حال سے لاعلم رہتے ہیں۔

پاکستان میں ایک دلچسپ مثال سامنے آئی جب جونیئر لیول پر کاؤنٹی کے ایک کوچ کو کوچنگ کے لیے بلایا گیا۔ اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ پاکستانی جونیئر کھلاڑی اپنے سینئرز سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرنے اور اصل صلاحیت دکھانے سے بھی کتراتے ہیں۔ یہ مشاہدہ ہمارے کھیل کی جڑوں میں چھپی اس بیماری کی نشاندہی کرتا ہے جسے ہم برسوں سے نظر انداز کرتے آ رہے ہیں۔ خوف زدہ کھلاڑی نہ کبھی سوال کرتا ہے، نہ اپنے کھیل میں جدت لاتا ہے اور نہ ہی کبھی اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتا ہے۔ وہ محض احکامات ماننے پر اکتفا کرتا ہے، چاہے وہ حکم درست ہو یا غلط۔ یہی رویہ بعد میں قومی سطح پر بھی منتقل ہوتا ہے اور پھر ٹیم ایک جیتے جاگتے ادارے کے بجائے چند طاقتور افراد کے زیرِ اثر گروہ میں بدل جاتی ہے۔

یہ سوال اہم ہے کہ کوچنگ کس سطح پر سب سے زیادہ ضروری ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کوچنگ کی بنیاد جونیئر لیول پر رکھنی چاہیے۔ دس سے سولہ سال کے درمیان کھلاڑی جس ماحول میں تربیت حاصل کرتا ہے، وہی اس کے مستقبل کا تعین کرتا ہے۔ اگر اس عمر میں اسے ڈسپلن، محنت اور سچائی کی عادت نہیں ڈالی گئی تو بعد میں بڑے بڑے کوچ بھی اسے محض ٹیکنیکل ہدایات دے سکتے ہیں، اس کا کردار اور رویہ تبدیل نہیں کر سکتے۔ دنیا کی بہترین ٹیمیں اسی اصول پر چلتی ہیں۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور اب بھارت نے بھی جونیئر کرکٹ پر اتنی سرمایہ کاری کی ہے کہ وہاں سے نکلنے والا ہر کھلاڑی پہلے سے ایک مکمل پیکیج بن چکا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں جونیئر کرکٹ کو اکثر نظر انداز کیا گیا اور پھر قومی ٹیم کے ڈریسنگ روم میں پندرہ کے قریب کوچنگ اسٹاف بٹھا کر سمجھا گیا کہ مسئلہ حل ہوگیا۔ حالانکہ یہ اضافی اسٹاف زیادہ تر کھلاڑیوں کو الجھانے کا سبب بنتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا قومی ٹیم کو واقعی اتنے بڑے کوچنگ اسٹاف کی ضرورت ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایک قومی ٹیم کے کھلاڑی پہلے ہی اپنے اپنے فرسٹ کلاس یا جونیئر سسٹم سے ٹریننگ پا کر آتے ہیں۔ قومی سطح پر زیادہ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ کپتان اور منیجر ٹیم کو متحد رکھیں، صحیح فیصلے کریں اور کھلاڑیوں کو اعتماد دیں۔ کوچنگ کا اصل کردار یہاں محدود ہو جاتا ہے۔ قومی ٹیم میں کوچ زیادہ سے زیادہ ایک گائیڈ یا مشیر کا کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن جب ڈریسنگ روم میں ہر مسئلے کے لیے ایک نیا کوچ بیٹھا ہو، تو کھلاڑی الجھ جاتے ہیں کہ اصل ہدایت کس کی ہے۔ یہ ماحول کسی ٹیم کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور کرتا ہے۔

کھلاڑیوں کے رویے کے بارے میں بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا سینئرز کو جونیئرز پر رعب ڈالنا چاہیے؟ کیا قومی ٹیم میں دوستانہ ماحول ہونا چاہیے یا عامرانہ؟ حقیقت یہ ہے کہ ایک ٹیم میں دوستانہ رویہ ہی اعتماد پیدا کرتا ہے۔ سینئر کھلاڑی اگر جونیئرز کو حوصلہ دیں، ان کی رہنمائی کریں اور انہیں اپنی بات کہنے کا موقع دیں، تو ٹیم کا ماحول ایک خاندان جیسا بن جاتا ہے۔ لیکن اگر سینئرز اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے جونیئرز کو دبائیں تو نہ صرف ان کی صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں بلکہ ٹیم کا اندرونی انتشار بھی بڑھتا ہے۔ وہی خوف زدہ ماحول جو ایک کاؤنٹی کوچ نے رپورٹ کیا تھا، پوری ٹیم کے لیے زہر بن جاتا ہے۔

کرکٹ یا کوئی بھی کھیل صرف ٹیکنیک کا نام نہیں ہے بلکہ یہ رویوں اور ماحول کا بھی کھیل ہے۔ اگر کسی ادارے میں خوف کا ماحول ہو، تو لوگ اپنی اصل رائے چھپاتے ہیں، اپنی بہترین کارکردگی نہیں دکھا پاتے اور محض وقت گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ماحول دوستانہ ہو، جہاں ہر شخص اپنی بات کہنے میں آزاد ہو، وہاں جدت آتی ہے، مسائل کے حل نکلتے ہیں اور اعتماد جنم لیتا ہے۔ یہی اصول کرکٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

پاکستان کو چاہیے کہ کوچنگ کے نظام کو جونیئر لیول پر مضبوط کرے۔ اسکولوں، اکیڈمیوں اور کلب لیول پر ایسے کوچ مقرر کیے جائیں جو محض کرکٹ کی ٹیکنیک نہ سکھائیں بلکہ کھلاڑیوں کو ایک بہتر انسان بنانے پر بھی زور دیں۔ انہیں سچ بولنا سکھائیں، ٹیم ورک کی اہمیت سمجھائیں اور یہ احساس دلائیں کہ سینئر صرف رہنما ہیں، آقا نہیں۔ قومی سطح پر کوچنگ اسٹاف کو کم سے کم رکھا جائے اور زیادہ ذمہ داری کپتان اور منیجر کے سپرد ہو۔

ایک دن ایسا بھی آ سکتا ہے کہ پاکستان میں کرکٹ کوچنگ کا فرق مکمل طور پر ختم ہو جائے اور ہم صرف انفرادی صلاحیتوں پر نہیں بلکہ ادارہ جاتی تربیت پر بھی فخر کر سکیں۔ لیکن اس کے لیے ہمیں خوف کے کلچر کو توڑنا ہوگا اور اعتماد کے کلچر کو پروان چڑھانا ہوگا۔ کوچنگ کا اصل مقصد یہی ہے کہ کھلاڑی اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھے، اپنی رائے کا اظہار کرے اور ٹیم کے ساتھ مل کر کچھ بڑا کرنے کا خواب دیکھے۔ اگر ہم نے یہ سبق سیکھ لیا تو نہ صرف کرکٹ بلکہ ہر کھیل اور ہر ادارہ ایک نئی روشنی کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali