Cricket Bani, Baniye Ki Hatti, Wah Baniye
کرکٹ بنی، بنیے کی ہٹی: واہ بنیے

کرکٹ، جسے کبھی "جنٹلمینز گیم" کہا جاتا تھا، اب ایک ہٹی میں بدل چکی ہے، جہاں کھیل نہیں بکتا بلکہ ریٹنگ، سپانسرشپ اور سیاست کی بولیاں لگتی ہیں اور اس ہٹی کا مالک کون ہے؟ وہی بنیا، جس نے ہر میدان میں سوداگری کو عبادت بنا لیا ہے۔ کبھی چائے بیچنے والے کی زبان پر "وشو گرو" کے خواب چڑھے ہوتے ہیں اور کبھی وہی خواب دنیا کی سب سے بڑی کرکٹ تنظیم کو اپنی مٹھی میں قید کر لیتے ہیں۔ اب کرکٹ کا ہر فیصلہ، ہر سز ا، ہر ضابطہ اور ہر انصاف بھارتی روپے کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔
یہ کوئی الزام نہیں، بلکہ ایک ایسا اعتراف ہے جو خود ایک سابق میچ ریفری کرس براڈ نے دنیا کے سامنے کیا۔ برطانوی اخبار ٹیلی گراف کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح انہیں بھارت کے خلاف نرمی برتنے کا حکم دیا گیا۔ جی ہاں، وہی بھارت جو خود کو کھیلوں میں اخلاقیات کا پجاری اور دوسروں کے لیے سبق سکھانے والا ملک سمجھتا ہے۔ کرس براڈ نے کہا کہ ایک میچ میں بھارتی ٹیم کا سلو اوور ریٹ بنتا تھا اور ضابطے کے مطابق ان پر جرمانہ لازم تھا، لیکن انہیں ایک فون کال آئی اور ہدایت ملی کہ "ہاتھ ہلکا رکھو، کوئی حل نکالو، کیوں کہ یہ بھارت ہے!"
یہ جملہ، "کیوں کہ یہ بھارت ہے"، شاید آج کے بین الاقوامی کرکٹ نظام کی سب سے بڑی تعریف بھی ہے اور سب سے بڑی مذمت بھی۔ اس ایک فقرے نے وہ سب کچھ بے نقاب کر دیا جو برسوں سے پردوں میں چھپا ہوا تھا۔ کرس براڈ نے بتایا کہ انہوں نے پھر ٹائم کیلکولیشن میں "ایڈجسٹمنٹ" کی، تاکہ بھارت بچ نکلے۔ یہ ایڈجسٹمنٹ نہیں، بلکہ انصاف کے گلے پر چھرا تھا۔ ایک ایسا زخم جو کھیل کی روح پر آج تک رستا ہے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ اگلے میچ میں جب بھارتی کپتان ساروو گنگولی نے وہی حرکت دوبارہ دہرائی تو کرس براڈ نے پوچھا کہ اب کیا کرنا ہے؟ جواب ملا: "صرف گنگولی کو سزا دو، ٹیم کو نہیں۔ " گویا جرم اجتماعی، مگر سزا انفرادی۔ کیونکہ یہ بھارت ہے، جس کے لیے قانون الگ ہے، ضابطہ الگ اور کرکٹ کا معیار الگ۔
کرس براڈ نے آخرکار کہا، "سارا پیسہ بھارت کے پاس ہے، اس نے عملی طور پر آئی سی سی پر قابو کرلیا ہے"۔
یہ اعتراف صرف ایک شخص کا نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی گواہی ہے جس نے کھیل کو سیاست کا غلام بنا دیا ہے۔ بھارت نے کرکٹ کو تجارت اور اثر و رسوخ کے کھیل میں بدل دیا ہے۔ اب آئی سی سی "انٹرنیشنل کرکٹ کونسل" نہیں، بلکہ "انڈین کنٹرولڈ کونسل" بن چکی ہے۔
یہ وہی بھارت ہے جو خود کو جمہوریت کا علمبردار کہتا ہے، مگر کھیل کے میدان میں آمر بن کر کھڑا ہے۔ جس کے میڈیا ہاؤسز رات دن دوسروں کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں، مگر جب سچ ان کے دروازے پر آ کر کھٹکھٹاتا ہے تو وہ چیختے ہیں کہ یہ سازش ہے۔
یہ وہی ملک ہے جو کبھی حریف ٹیموں کے خلاف بال ٹیمپرنگ، امپائرنگ دباؤ اور میڈیا وار کے ذریعے میدان میں "نفسیاتی دہشت" پیدا کرتا ہے اور پھر جب کوئی ان کے چہرے سے نقاب کھینچتا ہے تو اخلاقیات کے سبق دینے لگتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ باقی دنیا کہاں ہے؟
آسٹریلیا، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، یہ سب کب سے اتنے بے بس ہو گئے کہ ایک ملک کے سامنے جھکنے لگے؟ کرس براڈ کا یہ انکشاف دراصل سفید فام دنیا کے ضمیر پر ایک چبھتا ہوا طمانچہ ہے۔ یہ وہی گورے ہیں جو ہمیں میرٹ، شفافیت اور قانون کی بالادستی کے لیکچر دیتے نہیں تھکتے۔ مگر جب معاملہ بھارت کا آتا ہے تو وہ "نرم ہاتھ" رکھنے لگتے ہیں۔ یہی وہ منافقت ہے جس نے عالمی کھیلوں کو کرپشن اور سیاست کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔
بھارت کے پاس آج پیسہ ہے، میڈیا ہے اور مارکیٹ ہے۔ کرکٹ بورڈز جانتے ہیں کہ اگر بھارت ناراض ہو جائے تو ان کے ٹی وی معاہدے ختم ہو جائیں گے، ان کے اشتہارات رک جائیں گے اور ان کے ٹورنامنٹس "بین الاقوامی" سے "علاقائی" بن جائیں گے۔ اسی لیے وہ سب بھارت کی خوشنودی کے اسیر بنے بیٹھے ہیں۔ اب کرکٹ میں "فئیر پلے" نہیں، بلکہ "فئیر پی" (Fair Pay) چلتا ہے، جو زیادہ پیسہ دے، وہی جیتے۔
یہی نہیں، بھارت نے کھیل کو بھی "سافٹ پاور" کی طرح استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ کرکٹ میچز میں صرف گیند اور بلے کی جنگ نہیں ہوتی، بلکہ قوموں کے اعصاب کی جنگ لڑی جاتی ہے۔ جہاں کمنٹری سے لے کر ریویو سسٹم تک سب بھارتی اثر میں ہیں اور اگر کسی ملک نے زبان کھولی تو میڈیا پر اس کی بے عزتی مہم شروع ہو جاتی ہے۔
پاکستان کی مثال سامنے ہے، جب بھی بھارت ہارتا ہے، میڈیا چیخنے لگتا ہے کہ سازش ہوئی، امپائر biased تھے، پچ جعلی تھی، بال reverse swing کسی سائنسی جرم کے زمرے میں آ گئی۔ اب یہ کھیل کھیل نہیں رہا، یہ ایک تماشا بن گیا ہے اور یہ تماشا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک باقی دنیا خاموش تماشائی بنی رہے گی۔
مگر یاد رکھو، وقت بدلتا ہے۔ جو آج خرید رہا ہے، کل بکے گا۔ جو آج دوسروں کو دبائے بیٹھا ہے، کل اسی کے کندھے پر کوئی دوسرا سوار ہوگا۔ تاریخ گواہ ہے، طاقت کبھی مستقل نہیں رہتی۔ جب برطانیہ کے پاس پیسہ اور طاقت تھی، وہ بھی اپنے مفادات کے لیے انصاف کا خون کرتا تھا۔ آج وہی گورے بھارت کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اور کل بھارت کسی اور کے سامنے جھکے گا۔ یہ قدرت کا اٹل قانون ہے۔ جب ظلم، لالچ اور تکبر حد سے بڑھ جائے، تو زوال اس کا مقدر بن جاتا ہے۔
بھارت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کرکٹ کا کھیل "بیٹنگ ایوریج" سے نہیں، "کردار" سے جیتا جاتا ہے۔
وہ لاکھ پیسہ لگا لے، ہزاروں امپائر خرید لے، مگر کھیل کا ضمیر خرید نہیں سکتا۔ جب عوام، کھلاڑی اور دنیا کے شعور یافتہ لوگ بولنا شروع کریں گے تو اس ہٹی کے پردے خود بخود گر جائیں گے۔ کھیل کے میلے میں سوداگر زیادہ دیر نہیں ٹک سکتے، کیونکہ میدان آخرکار کردار مانگتا ہے اور بنیا کردار کا نہیں، حساب کتاب کا بندہ ہے۔
کرکٹ میں آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ دراصل کھیل کی نہیں، بلکہ ضمیر کی شکست ہے۔ جب ایک میچ ریفری سچ بولنے پر مجبور ہو جائے، تو سمجھ لو کہ کھیل ختم ہو چکا۔ کرس براڈ نے جو کہا، وہ ایک خبر نہیں بلکہ اعلان ہے کہ کھیل کی روح مر چکی ہے۔ اب صرف شور باقی ہے، پیسہ باقی ہے اور ایک بنیا باقی ہے، جو ہٹی پر بیٹھا ہے اور کرکٹ کے ضمیر کے ٹکڑے بیچ رہا ہے۔
لیکن یقین رکھیے، جب کھیل سے انصاف رخصت ہو جاتا ہے، تو میدان خالی ہو جاتا ہے اور جب میدان خالی ہو جائے، تو بنیا بھی کنگال ہو جاتا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب دنیا کہے گی: "کچھ خیال کرو، یہ سری لنکا ہے، ساری طاقت اس کے پاس ہے، ایسے کرو جیسا وہ چاہتا ہے!" اور تب بھارت کو سمجھ آئے گا کہ طاقت کے تاجر ہمیشہ انجام پر خسارے میں رہتے ہیں۔

