Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. County Literature Se Aalam e Insaniyat Tak

County Literature Se Aalam e Insaniyat Tak

کاؤنٹی لٹریچر سے عالمِ انسانیت تک

دنیا کے شور و غوغا میں، جب انسان اپنی ہی بنائی ہوئی روشنیوں میں اندھا ہو جاتا ہے، تو کہیں کوئی کسی گوشے میں ادب ایک دیا جلاتا ہے۔ یہ دیا نہ دولت کی چمک سے جلتا ہے، نہ اقتدار کے ایندھن سے، بلکہ انسانیت کی اصل حرارت سے۔ آج جب چین کے مشہور و معروف ادیب، علائی، لی جوان اور دیگر، بڑے شہروں کی چکا چوند چھوڑ کر چھوٹے قصبوں اور کاؤنٹیوں میں جا رہے ہیں، تو وہ دراصل ادب کو واپس اس کے اصل سرچشمے تک لے جا رہے ہیں: انسان تک۔

"کاؤنٹی لٹریچر" یعنی "ضلع یا قصبے کا ادب" بظاہر ایک معمولی اصطلاح لگتی ہے، مگر حقیقت میں یہ وہ آئینہ ہے جس میں انسانی زندگی کا اصل عکس جھلکتا ہے۔ نہ دیہات کی سادگی سے کٹا ہوا، نہ شہروں کی مصنوعی چمک میں گم۔ یہ وہ زمین ہے جہاں مٹی کی خوشبو اور زندگی کی سچائی ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی ہیں۔ جہاں انسان، اپنی تمام کمزوریوں اور خوابوں کے ساتھ، جیسے ہے بالکل ویسا نظر آتا ہے۔

یہی تو وہ مقام ہے جہاں ادب زندہ ہوتا ہے، جہاں کہانی سانس لیتی ہے، جہاں لفظ خون میں بہتے ہیں۔ کاؤنٹی لٹریچر میں نہ کوئی مصنوعی آہنگ ہوتا ہے نہ دکھاوے کی دانش۔ یہ ادب اپنی کچی مٹی سے اٹھتا ہے، مگر اسی مٹی سے انسانیت کا سب سے مضبوط قلعہ تعمیر کرتا ہے۔

یہ وہی مقام ہے جہاں کہانی کا کردار کوئی شہنشاہ یا صنعتکار نہیں، بلکہ وہ عام انسان ہے جو روز صبح اُٹھ کر زندگی کے میدان میں اُترتا ہے۔ جو ہل چلاتا ہے، دفتر جاتا ہے، محبت کرتا ہے، روتا ہے، ہنستا ہے۔ مگر ان معمولی انسانوں کی زندگیوں میں زمانے کی تبدیلیاں، انسان کے باطن کی کشمکش اور روح کی تڑپ جھلکتی ہے۔ یہی وہ ادب ہے جو بتاتا ہے کہ عظمت تخت و تاج میں نہیں، بلکہ اس سادہ انسان کے دل میں ہے جو زمین کے قریب رہتا ہے۔

آج کے زمانے میں جب انسان نے ترقی کے نام پر فاصلوں کو گھٹایا مگر دلوں کو دور کر دیا، جب سوشل میڈیا کے ہجوم میں تنہائی عام ہوگئی، جب مکالمہ چیخ و پکار میں بدل گیا، تب کاؤنٹی لٹریچر کی سادہ آواز ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان ہونا ہی سب سے بڑی تہذیب ہے۔ یہ ادب چیختا نہیں، بلکہ دھیرے سے کہتا ہے: "ہم ایک دوسرے کے بغیر کچھ نہیں"۔

یہ بات کتنی معنی خیز ہے کہ چین جیسے تیز رفتار ترقی پذیر معاشرے میں بھی بڑے مصنفین چھوٹے قصبوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ وہ وہاں جا کر اپنی شہرت نہیں بانٹتے، بلکہ اپنی سوچ، اپنی روشنی اور اپنی تخلیقی تجربات ان لوگوں کے ساتھ بانٹتے ہیں جو لفظوں سے اپنا مستقبل تراشنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ کسی ناتواں لکھاری کا ہاتھ تھام کر کہتے ہیں: "تم بھی کہانی لکھ سکتے ہو۔ تمہاری زندگی بھی ادب ہے"۔

یہی اصل ادب کا کام ہے۔ طاقتور کو مزید طاقتور بنانا نہیں، بلکہ کمزور کو اپنی طاقت پہچنوانا ہے۔ وہ ادب جو صرف اشرافیہ کے ڈرائنگ روم میں زندہ رہے، وہ ادب نہیں، وہ صرف سجاوٹ ہے۔ اصل ادب تو وہ ہے جو مٹی کی خوشبو کے ساتھ سانس لے، جو جھونپڑی میں بھی اتنی ہی چمک پیدا کرے جتنی کسی محل میں۔

کاؤنٹی لٹریچر نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عظیم موضوعات صرف جنگوں، انقلابوں یا ہیروز کے گرد نہیں گھومتے۔ اصل عظمت تو اس مزدور کی کہانی میں ہے جو شام کو تھکن کے باوجود کتاب کھولتا ہے۔ اس استاد میں ہے جو تنخواہ کی پرواہ کیے بغیر بچوں کے دل میں علم کا چراغ جلاتا ہے۔ اس کسان میں ہے جو اپنے گاؤں کے کلچر سینٹر میں بیٹھ کر شاعری لکھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ لفظ ہی وہ بیج ہیں جن سے آنے والے موسموں کی فصل اگتی ہے۔

یہ وہی جذبہ ہے جو تہذیب کو قائم رکھتا ہے۔ جو انسان کو انسان بنائے رکھتا ہے۔ جب ایک بڑا مصنف کسی چھوٹے گاؤں میں جا کر نوجوان لکھنے والوں کو حوصلہ دیتا ہے، تو وہ صرف لفظ نہیں بانٹ رہا ہوتا، وہ ایک چراغ دوسرے کے ہاتھ میں دے رہا ہوتا ہے اور یہی چراغ جب اگلی نسلوں کے ہاتھ میں جاتا ہے تو دنیا روشن ہوتی ہے۔

ادب کا یہ رخ ہمیں ایک بڑی سچائی کی طرف لے جاتا ہے: انسانیت کسی ایک مرکز یا طبقے کی ملکیت نہیں۔ ادب کی طرح، انسانیت بھی اُس وقت زندہ رہتی ہے جب وہ مرکز سے نکل کر کناروں تک پہنچتی ہے۔ جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ ہر انسان کی اپنی کہانی ہے، ہر آواز سننے کے لائق ہے، ہر دل احترام کے قابل ہے۔

بدقسمتی سے، آج کا انسان اپنے آپ کو برتر سمجھ کر دوسرے انسانوں سے دور ہوگیا ہے۔ ہم نے ترقی کے نام پر مقابلہ تو سیکھ لیا، مگر ساتھ چلنا بھول گئے۔ ہم نے علم کے نام پر تکبر سیکھ لیا، مگر عاجزی بھول گئے۔ ہم نے اپنی کامیابی پر فخر کرنا سیکھ لیا، مگر گرے ہوئے کو اٹھانا بھول گئے۔

یہی تو وہ لمحہ ہے جب ادب ہمیں جھنجھوڑتا ہے۔ کاؤنٹی لٹریچر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسانیت کی اصل روح مدد میں ہے، مسکراہٹ بانٹنے میں ہے، ہاتھ پکڑنے میں ہے۔ یہ وہی پیغام ہے جو ہر عظیم تہذیب کے دل میں لکھا ہوا تھا، کہ انسان، انسان کے لیے ہو۔

ہماری دنیا کو آج سب سے زیادہ ضرورت اسی احساس کی ہے۔ نہ ہمیں مزید نعرے درکار ہیں، نہ نئی لڑائیاں۔ ہمیں وہ ادب چاہیے جو ہمیں ہمارے اندر کا انسان دکھائے۔ وہ ادب جو دیواریں نہیں، پل بنائے۔ وہ ادب جو ہمیں یہ یاد دلائے کہ ہم سب ایک ہی خاک سے بنے ہیں، ایک ہی خواب کے شریک ہیں۔

کاؤنٹی لٹریچر یہی سکھاتا ہے کہ ادب تب ہی زندہ رہتا ہے جب وہ انسان کے قریب رہتا ہے اور انسان تب ہی انسان رہتا ہے جب وہ دوسرے انسان کے قریب رہتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں ادب اور انسانیت ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔ جہاں الفاظ خون میں بہتے ہیں، جہاں محبت فکر بن جاتی ہے اور فکر محبت میں ڈھل جاتی ہے۔

شاید وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی ترقی کی دوڑ میں ذرا رک کر یہ سوچیں کہ ہم جا کہاں رہے ہیں۔ کیا ہم انسان بننے سے دور تو نہیں ہو گئے؟ کیا ہم نے لفظوں کے تقدس کو مادی کامیابیوں کے نیچے دفن تو نہیں کر دیا؟

ہمیں پھر سے ادب کو انسان کے قریب لانا ہوگا۔ ہمیں پھر سے گرے ہوئے ہاتھ تھامنے ہوں گے۔ ہمیں پھر سے اپنے اندر وہ روشنی جلانی ہوگی جو ایک وقت میں پوری تہذیب کو جگمگاتی تھی۔ کیونکہ اصل جیت وہ نہیں جو دوسروں کو ہرا کر حاصل کی جائے، بلکہ وہ ہے جو سب کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے میں ہے۔ یہی انسانیت کا پیغام ہے۔ یہی ادب کی روح ہے۔ یہی زندگی کا مقصد ہے۔

اور جب یہ مقصد ہم سب کا مشترکہ مقصد بن جائے گا، تب نہ شہر اجنبی رہیں گے نہ دل۔ تب انسانیت کا سورج واقعی پوری آب و تاب سے چمکے گا۔ بالکل ویسے ہی جیسے کاؤنٹی لٹریچر کے آسمان پر، جہاں لفظ مٹی کی طرح سچے ہیں اور انسان، انسان سے جڑا ہوا ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan