Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. China Ki Naqabil e Rok Pesh Raft Aur Dunya Ka Naya Mor

China Ki Naqabil e Rok Pesh Raft Aur Dunya Ka Naya Mor

چین کی ناقابلِ روک پیش رفت اور دنیا کا نیا موڑ

دنیا کی تاریخ میں ایسے مواقع بارہا آتے ہیں جب ایک قوم اپنی صدیوں کی جدوجہد، قربانیوں اور مسلسل محنت کے بعد ایک نئے مقام پر جا کھڑی ہوتی ہے۔ یہ لمحے نہ صرف اُس قوم کے لیے سنگِ میل ثابت ہوتے ہیں بلکہ پوری دنیا کے توازن کو بدل دیتے ہیں۔ بیجنگ میں دوسری جنگِ عظیم کے اختتام کے اسی برس مکمل ہونے پر منعقد ہونے والی عظیم الشان فوجی پریڈ بھی ایسا ہی لمحہ تھا جس نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ طاقت کا مرکز اب تیزی سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ چین نے اپنے عزم، استقامت اور قومی وحدت کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اس کی پیش رفت ناقابلِ روک ہے اور آنے والا دور ایک نئے عالمی نظام کا دور ہوگا۔

صدر شی جن پنگ نے اپنے خطاب میں کہا کہ "چینی قوم کی نشاۃِ ثانیہ ناقابلِ روک ہے اور انسانیت کی امن و ترقی کی جدوجہد بالآخر کامیاب ہوگی"۔ یہ جملہ محض ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ صدیوں پر محیط ایک تاریخ کا نچوڑ ہے۔ وہ تاریخ جس میں ذلت و غلامی کے سائے بھی ہیں، افیون کی جنگوں کا زہر بھی ہے، جاپانی قبضے کی تکلیف دہ یادیں بھی ہیں اور مغربی طاقتوں کی طویل استحصالی پالیسیاں بھی۔ مگر اسی تاریخ کے اندر ایک مسلسل جدوجہد کی کہانی بھی ہے، ایک ایسی جدوجہد جو عوام کی محنت، قربانی اور اجتماعی شعور سے عبارت ہے۔ آج چین نے دنیا کے سامنے اپنی عسکری طاقت اور ٹیکنالوجی کا وہ مظاہرہ کیا ہے جس نے نہ صرف دوستوں کو حیران کیا بلکہ مخالفین کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اس عظیم الشان پریڈ میں جدید ترین ہتھیار، ہائپر سونک میزائل، ڈرونز اور جدید ٹینک پیش کیے گئے۔ تیان ان مین اسکوائر میں پچاس ہزار سے زائد افراد کی موجودگی میں یہ سب کچھ اس قدر منظم اور باوقار انداز میں ہوا کہ دنیا کی بڑی بڑی فوجی طاقتوں کو بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ چین کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی فوجی پریڈ تھی، لیکن یہ صرف عسکری طاقت کا مظاہرہ نہیں تھا، یہ ایک علامتی پیغام بھی تھا۔ پیغام یہ کہ چین صرف اپنی طاقت نہیں دکھا رہا بلکہ دنیا کو ایک نئے راستے کی طرف بلارہا ہے، وہ راستہ جو امن، تعاون اور باہمی احترام پر مبنی ہے۔

اس موقع پر دنیا کے چھبیس رہنما چین میں موجود تھے جن میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف بھی شامل تھے۔ ان رہنماؤں کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ چین اب صرف ایک ملک نہیں رہا بلکہ ایک عالمی مرکز بن چکا ہے جس کی طرف دنیا کے غیر مغربی ممالک کھنچے چلے آ رہے ہیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کی موجودگی نے اس منظر کو مزید معنی خیز بنا دیا۔ یہ منظر دنیا کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ اب ایک نیا اتحاد جنم لے رہا ہے، ایک ایسا اتحاد جو مغربی بالادستی کے مقابل ایک متبادل پیش کرتا ہے۔

صدر شی جن پنگ نے اپنی تقریر میں کہا کہ دنیا آج ایک نئے انتخاب کے دہانے پر کھڑی ہے: امن یا جنگ، مکالمہ یا محاذ آرائی، تعاون یا تصادم۔ یہ الفاظ دراصل آج کی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ایک طرف امریکہ ہے جو "امریکہ فرسٹ" کی پالیسی کے تحت دنیا کو تجارتی جنگوں، پابندیوں اور طاقت کے زور پر قابو میں رکھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف چین ہے جو امن، باہمی تعاون اور مشترکہ ترقی کا پیغام دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا کس راستے کا انتخاب کرے گی؟ کیا انسانیت ایک بار پھر ماضی کی طرح جنگوں اور تباہیوں کے راستے پر چلے گی یا پھر امن اور ترقی کے نئے دور کا آغاز کرے گی؟

چین کی یہ پریڈ دراصل اس سوال کا ایک جواب تھی۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ پریڈ ایک "اعلانِ خودمختاری" تھی، نہ صرف فوجی میدان میں بلکہ فکری اور نظریاتی سطح پر بھی۔ چین نے دنیا کو بتایا کہ اس کی ترقی مغربی طاقتوں کی مرہونِ منت نہیں بلکہ اس کی اپنی محنت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ یہ پیغام اس دنیا کے لیے بھی تھا جو اکثر ترقی کو صرف مغرب کے ساتھ جوڑ کر دیکھتی ہے۔ چین نے ثابت کر دیا ہے کہ ترقی کا راستہ مختلف بھی ہو سکتا ہے، ایک ایسا راستہ جو نوآبادیاتی طاقتوں کے استحصال پر نہیں بلکہ خود انحصاری، اجتماعی شعور اور محنت پر قائم ہو۔

یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ سب کچھ دنیا کے امن کے لیے ہے یا ایک نئی سرد جنگ کی تیاری؟ صدر شی کے الفاظ اس سوال کا جواب دیتے ہیں: "مشترکہ سلامتی اسی وقت ممکن ہے جب دنیا کی قومیں ایک دوسرے کو برابری سے تسلیم کریں اور باہمی تعاون کو فروغ دیں"۔ ان کے یہ الفاظ اس بات کا ثبوت ہیں کہ چین کا وژن دنیا پر غلبہ پانے کا نہیں بلکہ دنیا کے ساتھ مل کر چلنے کا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ طاقت کے توازن کی اس تبدیلی کو مغرب آسانی سے قبول نہیں کرے گا۔ مغربی دنیا کے لیے یہ ایک چیلنج ہے کہ اب وہ اکیلی طاقت نہیں رہی۔

پاکستان کے تناظر میں اس موقع کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ پاکستان اور چین کی دوستی دنیا بھر میں ایک مثال سمجھی جاتی ہے۔ شہباز شریف کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں چین کو مرکزی حیثیت دیتا ہے۔ اس دوستی کی بنیاد محض معاشی تعاون نہیں بلکہ ایک گہری تاریخی وابستگی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ہو یا سی پیک، یہ سب اس بات کا اعلان ہیں کہ پاکستان اور چین مل کر ترقی کی نئی راہیں تراش رہے ہیں۔ اس پریڈ نے پاکستان کے لیے بھی یہ پیغام دیا کہ مستقبل کی سیاست میں مشرق کا پلڑا بھاری ہوگا اور پاکستان کو اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا۔

دنیا کے منظر نامے پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ امریکہ اور مغربی طاقتیں اب اپنی گرفت کھوتی جا رہی ہیں۔ ان کی سیاست اب زیادہ تر دفاعی نوعیت اختیار کر چکی ہے۔ وہ اپنی پرانی بالادستی کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں، مگر وقت بدل چکا ہے۔ آج کے نوجوان، آج کی اقوام اور آج کی معیشتیں آزادی، خودمختاری اور برابری کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتی ہیں۔ چین نے اس تبدیلی کو نہ صرف پہچانا بلکہ اسے اپنے حق میں استعمال بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی طاقت بننے کے قریب ہے۔

چین کی پریڈ میں جہاں عسکری طاقت کا اظہار تھا وہاں ایک نرم پیغام بھی پوشیدہ تھا۔ یہ پیغام تھا امن، تعاون اور مشترکہ ترقی کا۔ مگر یہ امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک دنیا کی بڑی طاقتیں برابری کے اصول کو تسلیم نہ کریں۔ اگر مغرب نے اپنی پرانی روش نہ بدلی تو دنیا ایک بار پھر محاذ آرائی کی طرف جا سکتی ہے۔ لیکن اگر وہ تعاون کا راستہ اختیار کرتا ہے تو ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے، ایک ایسا دور جہاں دنیا کی مختلف تہذیبیں اور اقوام ساتھ ساتھ ترقی کریں گی۔

چین کی ناقابلِ روک پیش رفت اس بات کی علامت ہے کہ وقت بدل رہا ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی طاقت کسی قوم کو ہمیشہ کے لیے غلام نہیں بنا سکتی۔ علم، محنت، قربانی اور اجتماعی شعور وہ ہتھیار ہیں جو ہر قوم کو اپنی تقدیر بدلنے کا حق دیتے ہیں۔ چین نے یہ حق حاصل کر لیا ہے اور اب وہ دنیا کو دعوت دے رہا ہے کہ آئیں مل کر ایک نیا باب رقم کریں۔ سوال صرف اتنا ہے کہ دنیا اس دعوت کو قبول کرتی ہے یا ایک بار پھر ماضی کے المیے دہراتی ہے۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan