Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Cheeni Jadeediat Ka Falsafa: Dunya Ko Taqseem Nahi, Jorne Ka Azm

Cheeni Jadeediat Ka Falsafa: Dunya Ko Taqseem Nahi, Jorne Ka Azm

چینی جدیدیت کا فلسفہ: دنیا کو تقسیم نہیں، جوڑنے کا عزم

دنیا کو سمجھنے کے بے شمار دروازے ہیں مگر چین کو سمجھنے کا واحد دروازہ چینی جدیدیت ہے۔ یہ وہ دروازہ ہے جو کھلتا ہے تو اندر ایک ایسی دنیا دکھائی دیتی ہے جہاں ترقی اور امن ایک ہی راستے پر چلتے نظر آتے ہیں۔ پیپلز ڈیلی آن لائن کے زیرِ اہتمام تیار کیے گئے پروگرام "انڈرسٹینڈ چائنا" میں یہی دروازہ وا کیا گیا۔ اس پروگرام میں چینی اور غیر ملکی ماہرین نے مل کر اس بات پر روشنی ڈالی کہ آج کے عالمی تناظر میں چینی جدیدیت کی اصل حقیقت کیا ہے اور یہ دنیا کے لیے کیوں ایک نئی امید بن کر سامنے آ رہی ہے۔ گفتگو میں شامل تھے: ہی وین پِنگ، چائنیز اکیڈمی آف سوشل سائنسز کی اسکالر اور ایواندرو مینیزز ڈی کاروالیو، برازیل کے جیٹولیو ورگاس فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والے ماہر قانون اور سربراہ برائے برازیل–چین اسٹڈیز سینٹر۔ دونوں ماہرین نے نہ صرف چینی ترقیاتی ماڈل پر گفتگو کی بلکہ مغرب کی طرف سے پھیلائے جانے والے شکوک، پروپیگنڈے اور بیانیوں کا علمی جائزہ بھی پیش کیا۔

پروگرام کی گفتگو کا مرکزی نقطہ "چینی جدیدیت، امن کی جدیدیت ہے" تھا۔ ہی وین پِنگ نے واضح کیا کہ چین نے ہمیشہ پرامن ترقی کے اصول کو اپنی بنیاد بنایا ہے۔ اسی سوچ سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو جیسے بڑے اقدامات جنم لیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں امن تب ہی ممکن ہے جب ترقی سب کی ہو اور چین گزشتہ دہائی میں دنیا کے سب سے بڑے ترقیاتی شراکت دار کے طور پر ابھرا ہے۔ ان اقدامات نے افریقہ، ایشیا، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ میں لاکھوں ملازمتیں پیدا کی ہیں۔ چین نہ تو دوسرے ملکوں کے وسائل لوٹتا ہے، نہ ان پر کوئی نظام تھوپتا ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ ہر ملک اپنی ثقافت، اپنی ترجیحات اور اپنی معاشی ضرورتوں کے مطابق ترقی کا راستہ خود چُنے۔ چین صرف راستہ ہموار کرتا ہے، چلنے کا طریقہ نہیں بتاتا۔

گفتگو کا ایک اہم حصہ مغربی دنیا کے اس بیانیے پر تھا جسے عموماً "چائنہ تھریٹ" کہا جاتا ہے۔ ڈی کاروالیو نے کہا کہ مغرب کی طرف سے چین کے امن پسند ترقیاتی ماڈل کو بدنام کرنے کی کوششیں کئی دہائیوں پر محیط ہیں۔ مغرب نے اپنی توسیع اور ترقی کی بنیاد نوآبادیاتی لوٹ مار پر رکھی تھی، اس لیے وہ یہ تصور ہی نہیں کر سکتے کہ کوئی ملک دوسروں کا استحصال کیے بغیر بھی ترقی کر سکتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ مغرب کے کئی سیاسی حلقے آج بھی "ژھی لو وے ما" یعنی "ہرن کو گھوڑا کہنا" جیسی سیاست کرتے ہیں یعنی حقیقت کو بدل کر پیش کرنا اور اپنی پسند کی تعبیر لوگوں پر مسلط کرنا۔ اگر کوئی افریقی رہنما چین کی سرمایہ کاری یا تعاون کی تعریف کر دے تو مغرب فوراً اسے "چین کا خریدا ہوا" قرار دے دیتا ہے۔ ڈی کاروالیو کے مطابق یہ سوچ اس خوف کی علامت ہے کہ چین کا ماڈل اگر دنیا میں مقبول ہوگیا تو مغربی بیانیے کی بنیادیں ہل جائیں گی۔

افریقہ کی مثال اس گفتگو کا نمایاں حصہ تھی۔ ہی وین پنگ نے بتایا کہ چین افریقہ میں سینکڑوں منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ سڑکیں، ریلوے لائنیں، بندرگاہیں، پاور پلانٹس اور اسپتال۔ یہ سب چین کی مدد سے بن رہے ہیں۔ ان سے لاکھوں نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں اور مقامی لوگ پہلی بار اپنی زمینوں، دریاؤں اور شہروں کو ترقی کی شکل میں بدلتے دیکھ رہے ہیں۔ مغرب اس ترقی کو بھی شک کی نظر سے دیکھتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین افریقہ میں شراکت دار بن کر آیا ہے، آقا بن کر نہیں۔ وہ مقامی آبادی کو ساتھ لے کر چلتا ہے، ان کی زبان، ثقافت اور طرزِ زندگی کا احترام کرتا ہے۔ یہی وہ فرق ہے جو چینی جدیدیت کو مغربی جدیدیت سے الگ کرتا ہے۔

ڈی کاروالیو نے ایک اور اہم نکتہ اٹھایا: مغرب کا عالمی ازم ہمیشہ یکسانیت، یکجہتی اور پابندیوں پر مشتمل رہا ہے۔ اس کے برعکس چین نے "انسانیت کے مشترکہ مقدر" کا تصور پیش کیا۔ ایک ایسا دنیاوی ماڈل جس میں اختلافات کے باوجود ہم آہنگی ممکن ہے۔ چین نہیں چاہتا کہ سب ایک جیسے ہو جائیں، بلکہ چاہتا ہے کہ سب اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ترقی کریں۔ یہی وجہ ہے کہ چین عالمی تنازعات میں "ثالث" بنتا ہے، "فریق" نہیں۔ وہ جنگوں سے نہیں، ترقی اور تجارت سے دنیا کو جوڑنے پر یقین رکھتا ہے۔

چین کی جدیدیت کا سب سے منفرد پہلو یہ ہے کہ یہ نہ جارحیت پر مبنی ہے، نہ طاقت کے استعمال پر، نہ نظریات کے تصادم پر۔ اس کی بنیاد باہمی احترام، تعاون، امن اور مشترکہ ترقی ہے۔ اس کے برعکس مغرب نے طاقت اور بالادستی کے ذریعے دنیا کو چلانے کی کوشش کی۔ جس کا نتیجہ کبھی جنگوں میں نکلا، کبھی معاشی پابندیوں میں، کبھی سیاسی عدم استحکام میں۔ چین اس ماڈل کو بدلنے آیا ہے۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ اگر ایک ملک اپنے لوگوں کی فلاح کو ترجیح دے، شفاف پالیسی اپنائے، دنیا سے ٹکرانے کے بجائے تعلقات بنائے، تو ترقی خودبخود ممکن ہو جاتی ہے۔

چینی جدیدیت ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ دنیا ایک دوسرے کی دشمن نہیں بلکہ ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک خطہ ترقی کرے تو اس کے اثرات دوسرے خطوں تک بھی پہنچتے ہیں۔ چین اسی باہمی ربط کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی ترقی کسی کی تباہی پر مبنی نہیں، اس کی طاقت کسی کی کمزوری سے نہیں جڑی۔ چین دنیا کو ایک ایسے مستقبل کی طرف لے جانا چاہتا ہے جس میں سب کی ترقی شامل ہو، سب کا امن مشترکہ ہو اور سب کی خوشحالی ایک دوسرے سے جڑی ہو۔

یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے بہت سے ملکوں کی نظریں بیجنگ پر ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر چین نے یہ راستہ کیسے بنایا۔ جواب سادہ ہے: امن کے ذریعے ترقی اور ترقی کے ذریعے امن۔ چین نے جنگوں، تنازعات اور لوٹ مار سے انکار کرکے ایک نیا باب لکھا ہے۔ یہ باب صرف چین کا نہیں، پوری انسانیت کا مشترکہ باب ہے اور شاید آنے والے وقتوں میں دنیا اسی راستے کو جدید دنیا کا اصل ماڈل قرار دے۔ ایک ایسا ماڈل جو نہ صرف طاقتور ہے بلکہ پائیدار بھی ہے اور نہ صرف مقامی بلکہ عالمی بھی۔

چینی جدیدیت کا یہی فلسفہ ہے: دنیا کو تقسیم نہیں، جوڑنے کا عزم۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari