Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Cheeni Dramai Adab

Cheeni Dramai Adab

چینی ڈرامائی ادب

ادب کی دنیا میں اگر کوئی صنف ایسی ہے جو زندگی کو اس کے مکمل رنگ، روشنی، درد، خوشی، کشمکش اور حسن کے ساتھ پیش کرتی ہے، تو وہ ڈرامہ ہے۔ ڈرامہ محض اسٹیج پر بولے جانے والے چند جملے نہیں ہوتے، بلکہ وہ انسانی روح کی داخلی کشمکش کا منظرنامہ ہے۔ وہ آئینہ ہے جس میں انسان اپنے باطن کو دیکھتا ہے، اپنے زخموں کو پہچانتا ہے اور اپنے خوابوں کی تشریح کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چینی ڈرامائی ادب، جس کی سب سے بڑی نمائندہ شکل "چینی اوپیرا" ہے، محض تفریح نہیں، بلکہ ایک تہذیبی خزانہ، فکری ورثہ اور روحانی تجربہ ہے۔

چینی مفکر اور مصنف چن یونگ چوان نے درست کہا تھا کہ ڈرامہ نہ صرف ادب ہے بلکہ ادب کی سب سے اعلیٰ، گہری اور مشکل ترین صورت ہے۔ یہ صنف دوسرے تمام ادبی رُوپوں، افسانہ، شاعری، نثر، کی خوبیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور ان سب سے آگے بڑھ کر زندگی کے سب سے پیچیدہ سوالات کا سامنا کرتی ہے۔ ایک اچھا ڈرامہ نگار محض کہانی لکھنے والا نہیں ہوتا، وہ معمار ہوتا ہے، جو کرداروں کے ذریعے ایک ایسا مکالمہ تخلیق کرتا ہے جو صدیوں بعد بھی انسان کے دل میں گونجتا رہتا ہے۔

چینی ڈرامہ، مغربی ڈرامے سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ مغربی روایت میں تصادم (Conflict) مرکزی کردار ادا کرتا ہے، یعنی انسان کا انسان سے، یا انسان کا اپنے مقدر اور سماج سے ٹکراؤ۔ مگر چینی اوپیرا میں تصادم کے بجائے "آہنگ" اور "ہم آہنگی" کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ چینی فنون لطیفہ میں زندگی کو ایک مسلسل رقص سمجھا گیا ہے، جس میں ہر دکھ، ہر جدوجہد، ہر محبت، ایک نظم کی طرح رواں دواں ہے۔ وہاں مقصد یہ نہیں کہ کوئی جیتے اور کوئی ہارے، بلکہ یہ ہے کہ سب کے درمیان ایک باطنی توازن پیدا ہو۔ یہی توازن روح کی سکونت کا ذریعہ ہے۔

چینی ڈرامہ اپنی لَے، اپنی موسیقی، اپنے رنگوں اور اپنے اشاروں میں شاعری کی طرح نازک اور نثر کی طرح سادہ ہے۔ ہر لفظ تراشا ہوا، ہر مکالمہ ایک گیت کی مانند اور ہر منظر ایک علامت۔ یہ ڈرامہ نگار سے نہ صرف زبردست فنی مہارت مانگتا ہے بلکہ ایک وسیع تخلیقی وژن، فلسفیانہ گہرائی اور انسانی جذبات کی باریکیوں کو سمجھنے کی صلاحیت بھی۔ وہ نہ صرف ایک اچھا کہانی کار ہونا چاہیے بلکہ شاعر کی سی لطافت، نثر نگار کی سی نرمی اور مفکر کی سی بصیرت بھی رکھتا ہو۔

چینی ڈرامائی ادب کی روح کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کے اثرات کو دیکھنا ہوگا، وہ اثرات جو چینی ناولوں، شاعری، موسیقی اور مصوری میں صدیوں سے جاری و ساری ہیں۔ دنیا کے مشہور ترین ناولوں میں سے ایک Dream of the Red Chamber (سرخ کوٹھی کا خواب)، جسے کاؤ شیوچن نے لکھا، دراصل چینی اوپیرا کے بغیر جنم ہی نہ لیتا۔ کاؤ شیوچن خود چینی اوپیرا کے عاشق تھے۔ ان کا ناول 103 مرتبہ اوپیرا کا ذکر کرتا ہے، کبھی براہِ راست اداکاری کے طور پر، کبھی علامتی اشاروں میں۔

ایک منظر میں جب جیا باؤیو اور لن ڈائی یو مشہور چینی عشقیہ کہانی Romance of the Western Chamber پڑھ رہے ہوتے ہیں تو باؤیو کہتا ہے: "یہ کتاب ایسی ہے کہ پڑھنے لگو تو کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا"۔ لن ڈائی یو اسے ایک ہی نشست میں ختم کر دیتی ہے اور اس کے جملوں کے حسن میں کھو جاتی ہے۔ پھر وہ ایک آنگن سے گزرتی ہے جہاں Peony Pavilion کا گیت گونج رہا ہے:

"ایسے حسین موسم میں، کس کے باغ میں خوشی بسی ہے؟"

وہ رک کر کہتی ہے: "واہ! ڈرامے میں بھی ایسی تحریر؟"

یہ محض کرداروں کے مکالمے نہیں، بلکہ مصنف کے دل کی آواز ہے۔ کاؤ شیوچن کے نزدیک ڈرامہ ایک زندہ تحریر تھا، جہاں نغمہ اور مکالمہ مل کر انسانی احساسات کو نئی زندگی دیتے ہیں۔ انہی احساسات نے ان کے ناول کو امر کر دیا۔

چینی ڈرامے نے نہ صرف ناول نگاری کو متاثر کیا بلکہ کئی بڑے ادبی تجربات کو جنم دیا۔ The Peony Pavilion جیسا شاہکار، جس میں عشق کی ازلی قوت کو اس طرح بیان کیا گیا:

"محبت خود بخود جنم لیتی ہے، گہری اور ناقابلِ مزاحمت۔ زندہ مر سکتا ہے، مردہ جی سکتا ہے"۔

یہ محض عشقیہ جملہ نہیں بلکہ انسانی روح کی آزادی کا اعلان تھا۔ وہ اعلان جس نے صدیوں کے جاگیردارانہ اخلاقیات کو چیلنج کیا اور کہا کہ احساسات پر کوئی زنجیر نہیں ڈالی جا سکتی۔

ادب اور ڈرامہ ایک دوسرے کے دشمن نہیں بلکہ ہمزاد ہیں۔ دنیا بھر میں ادب کو بارہا اسٹیج پر ڈھالا گیا۔ کبھی شیکسپیئر کے ہاتھوں، کبھی چینی اوپیرا کے فنکاروں کے ذریعے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ ادب ڈرامے کو سہارا دیتا ہے، مگر دراصل ڈرامہ ادب کو نئی زندگی دیتا ہے۔ ایک ناول جب اسٹیج پر اترتا ہے تو وہ صرف پڑھا نہیں جاتا، وہ "جیا" جاتا ہے۔ اس کے کردار گوشت پوست میں ڈھل کر سانس لینے لگتے ہیں اور سامع یا ناظر اس کہانی کا حصہ بن جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ چینی دانشور کہتے ہیں: "ڈرامہ ادب کی ماں ہے اور اقتباس اس کا تحفہ"۔ جب ایک ڈرامہ کسی ادبی تخلیق کو اپنا قالب بناتا ہے تو وہ اس میں روح پھونک دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے چار عظیم ناول Dream of the Red Chamber، Journey to the West، Romance of the Three Kingdoms اور Water Margin، صدیوں سے زندہ ہیں، کیونکہ انہیں بار بار اسٹیج پر زندہ کیا گیا۔ یہ بار بار کی بازیافت دراصل ادب کی تجدید ہے۔

ڈرامائی ادب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ محدود وقت اور محدود جگہ میں لامحدود معنی پیدا کرتا ہے۔ چند لمحوں کے مکالمے میں صدیوں کی کہانی سمٹ آتی ہے، چند جملوں میں پوری تہذیب کی روح بول اٹھتی ہے۔ یہ وہ قوت ہے جو کسی اور فن میں نہیں۔ ایک اچھا ڈرامہ انسان کو اس کی گہرائی میں لے جاتا ہے، اسے خود سے روبرو کر دیتا ہے۔

لیکن جب ڈرامہ اپنی ادبی روح کھو دیتا ہے تو وہ صرف تماشہ رہ جاتا ہے۔ چمک، روشنی، گیت اور رقص کے باوجود اگر مکالمے میں جان نہ ہو تو وہ روح کی تسکین نہیں دے سکتا۔ اسٹیج کی مضبوطی مکالمے کی گہرائی سے آتی ہے، نہ کہ روشنیوں کے شور سے۔ ایک مضبوط اسکرپٹ وہ بنیاد ہے جس پر پورا تھیٹر کھڑا ہوتا ہے۔ اگر بنیاد کھوکھلی ہو تو عمارت جتنی بھی شاندار ہو، ایک جھٹکے میں گر جاتی ہے۔

یہاں میں ہمارے پیارے بھائی آفتاب اقبال صاحب کا ذکر کروں گا جو ہمیشہ سے یہ بات کرتے آئے ہیں کہ اصل بات مضبوط اسکرپٹ ہے۔ باقی سب کچھ بعد میں آتا ہے۔ آفتاب صاحب کا اس سلسلے میں کنٹریبیوشن ناقابل تردید ہے۔ ان کے لکھے اسکرپٹ خبرناک، خبر ہار، خبرزار وغیرہ آج کلاسک بن چکے ہیں۔ ان پروگراموں نے ہماری پیاری زبان پنجابی کو آج ہر صوبے کے لوگوں کی عام حتٰی کہ ٹیلی وژن مباحث کا بھی حصہ بنا دیا ہے۔

بلکہ حیران کن بات یہ ہے آج ہماری خواتین بھی ٹیلی وژن پر پنجابی کا تڑکا لگا کر اچھا محسوس کرتی ہیں۔ اس سے پہلے میں نے کسی پڑھی لکھی خاتون کو سر عام پنجابی بولتے نہیں سنا تھا کہ پنجابی کو جہالت کا سمبل سمجھا جاتا تھا۔ آج نہ صرف پنجاب کی خواتین بلکہ ہمارے دوسرے تمام پیارے صوبوں کی خواتین بھی ٹیلی وژن ٹاک شوز میں پنجابی کا باقاعدہ سہارا لیتی نظر آتی ہیں۔ اس کا تمام تر کریڈٹ آفتاب اقبال صاحب کو جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دوران وہ خود تھوڑے بھٹک گئے اور ایک ایسے شخص کے مرید بن گئے جس کے پاس کسی کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ایسا شخص جس نے ہمارے پیارے معاشرے میں نفرت کی دیواریں قائم کیں اور احساسات کے پُل تباہ کیے۔ امید ہے آفتاب اقبال صاحب بقول اشفاق احمد صاحب کسی دن جب انہیں فرصت ملی دیوار سے ڈھو لگا کر اس پر غور ضرور فرمائیں گے۔

ڈرامہ نگار دراصل روح کا معمار ہے۔ وہ لفظوں سے دیواریں نہیں بناتا، بلکہ احساسات سے پل تعمیر کرتا ہے۔ انسان اور انسان کے درمیان، وقت اور ابدیت کے درمیان، حقیقت اور خواب کے درمیان۔ وہ اپنے کرداروں کے ذریعے وہ سب کچھ کہتا ہے جو معاشرہ چپ رہ کر نہیں کہہ پاتا۔

چینی ڈرامائی ادب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ فن کا مقصد محض تفریح نہیں، تزکیۂ نفس بھی ہے۔ فن وہ روشنی ہے جو انسان کے اندر کے اندھیروں کو چیرتی ہے۔ ایک اچھا ڈرامہ ہمیں خود سے ملاتا ہے، ہمیں وہ دکھاتا ہے جو ہم نے اپنے اندر دبا رکھا ہوتا ہے، خوف، خواہش، محبت، گناہ اور نجات۔

آج جب دنیا مشینوں، منڈیوں اور منافعوں کے شور میں ڈوبی ہوئی ہے، ایسے وقت میں ڈرامائی ادب ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل دولت انسان کی "احساس کی صلاحیت" ہے۔ اگر یہ صلاحیت ماند پڑ جائے تو ہم جیتے جاگتے انسان نہیں، صرف متحرک سایے رہ جاتے ہیں۔

چینی ڈرامہ اسی احساس کو زندہ رکھتا ہے۔ وہ ہمیں کہتا ہے کہ لفظوں کو جینے دو، خاموشی کو سنو اور ہر مکالمے کے پیچھے چھپی صدیوں کی دانش کو پہچانو۔ یہی وہ درس ہے جو روح کو جھنجھوڑ دیتا ہے اور اندر کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیتا ہے۔

ادب، اگر روح سے جڑا نہ ہو تو محض الفاظ رہ جاتا ہے اور ڈرامہ، اگر ادب سے کٹا ہو تو محض تماشا۔ لیکن جب یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جائیں تو وہ انسانیت کی کہانی لکھتے ہیں۔ وہ کہانی جو ہر دل میں بستی ہے، ہر آنکھ میں آنسو بن کر جھلکتی ہے اور ہر خواب میں امید بن کر چمکتی ہے۔

یہی چینی ڈرامائی ادب کی اصل میراث ہے، ایک ایسا فن جو وقت کی حدوں سے آزاد ہو کر انسان کے باطن میں داخل ہوتا ہے، اسے آئینہ دکھاتا ہے اور کہتا ہے:

"اپنے اندر کے مکالمے کو سنو، وہی تمہاری اصل کہانی ہے"۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam