Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Cheen Fehmi: Cheen Ki Jadeediat Aur Abadi Ka Samundar

Cheen Fehmi: Cheen Ki Jadeediat Aur Abadi Ka Samundar

چین فہمی: چین کی جدیدیت اور آبادی کا سمندر

دنیا حیران ہے کہ آخر چین نے اتنی بڑی آبادی کے باوجود جدیدیت کی راہ کیسے ہموار کی۔ لیکن اس حیرت کا جواب خود چین کے اندر موجود ہے۔ ایک ایسا ماڈل جس کی بنیاد دوراندیشی، منصوبہ بندی اور انسان پر مرکوز ترقی ہے۔ پیپلز ڈیلی آن لائن کے زیرِ اہتمام پروگرام "چین کو سمجھنا" میں اسی حقیقت کو کھول کر بیان کیا گیا۔ اس قسط میں رین من یونیورسٹی آف چائنا کے ڈین ڈو پینگ اور معروف ہسپانوی صحافی ہیویئر گارسیا نے اس سوال کا سراغ لگایا کہ چین اپنی وسیع آبادی کو چیلنج کے بجائے طاقت میں کیسے بدل رہا ہے۔ ان دونوں ماہرین نے چینی جدیدیت کے ان پہلوؤں کا جائزہ لیا جو دنیا کے لیے بھی سبق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خاص طور پر یہ کہ ایک ارب سے زائد افراد کا ملک کیسے ایک منظم، مستحکم اور بلند معیار کی ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ڈو پینگ نے گفتگو کی ابتدا ایک اہم حقیقت سے کی، چین کی آبادی بظاہر کم شرحِ پیدائش کے باوجود اب بھی بہت بڑی ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں ہر سال نو ملین سے زائد بچے پیدا ہوئے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ چین کی آبادی کا حجم بدستور بہت بڑا ہے۔ ان کے مطابق ریاست کی موجودہ حکمتِ عملی دو بنیادوں پر کھڑی ہے، آبادی سے متعلق پالیسیوں کی اصلاح اور ایسی معاشرتی فضا کی تشکیل جو خاندان اور بچے کی پیدائش کے حق میں سازگار ہو۔ چین یہ بات سمجھتا ہے کہ آبادی کسی ملک کی کامیابی کا بوجھ نہیں بلکہ اثاثہ ہے، بشرطِ کہ اس اثاثے کو بہتر انداز میں منظم کیا جائے۔ اسی سوچ کے تحت چین ایک ایسا سماج بنانے کی کوشش کر رہا ہے جہاں والدین کو بچے پیدا کرنے اور ان کی پرورش کے لیے سازگار اور مددگار ماحول ملے۔

ہیویئر گارسیا نے اس گفتگو میں اہم نکتہ اٹھایا کہ چین نہ صرف معاشی ترقی کی رفتار کو بلند کر رہا ہے بلکہ اعلیٰ معیار کی افرادی قوت تیار کرنے پر بھی توجہ دے رہا ہے۔ ان کے مطابق ترقی صرف عمارتیں، سڑکیں اور انفراسٹرکچر نہیں بلکہ وہ انسان ہیں جو اس ترقی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ڈو پینگ نے بھی یہی بات کی کہ "ڈیموگرافک ڈیوڈنڈ" یعنی آبادی کے اضافے سے پیدا ہونے والا فائدہ صرف اُس وقت تک مؤثر رہتا ہے جب محنت کش آبادی کا تناسب زیادہ ہو، لیکن جدید دور کا اصل سرمایہ ہنر مند انسان ہے۔ چین اسی لیے تعداد سے زیادہ معیار پر توجہ دے رہا ہے۔ ملک اب آبادی کے فائدے سے آگے بڑھ کر صلاحیتوں کے فائدے یعنی ٹیلنٹ ڈیوڈنڈ کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے لاکھوں طلبہ کو جدید تعلیم، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ، میڈیسن اور سائنسی شعبوں کی طرف متوجہ کیا ہے۔ یہ وہ سرمایہ ہے جو چین کے اگلے پچاس سال کی ترقی کی بنیاد بنے گا۔

چین کی آبادی صرف نوجوانوں تک محدود نہیں۔ بڑھتی ہوئی عمر کی آبادی بھی ایک حقیقت ہے۔ گارسیا نے اس نقطے کو اجاگر کیا کہ چین کو جلد ہی ایک سینئر کیئر سوسائٹی یعنی بزرگ آبادی کی نگہداشت پر مبنی معاشرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈو پینگ نے بتایا کہ اسی چیلنج کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے چین نے ستمبر 2024 میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں تدریجی تاخیر کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے تاکہ لوگ اس تبدیلی کے ساتھ آہستہ آہستہ مطابقت پیدا کر سکیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ اگلے 20 سے 30 سال کے دوران ریٹائرمنٹ نظام ایسے مقام تک پہنچ جائے جو نہ صرف ملک کے لیے فائدہ مند ہو بلکہ عام شہری بھی اسے مثبت انداز میں قبول کریں۔ چین سمجھتا ہے کہ بڑھتی ہوئی عمر کی آبادی ایک ذمہ داری ہے، مگر اگر اس ذمہ داری کو منظم کیا جائے تو یہ بوجھ نہیں بنتی بلکہ معیشت میں مستقل تجربے کا اضافہ کرتی ہے۔

چین کی جدیدیت دراصل منصوبہ بندی، نظم و ضبط، اجتماعی سوچ اور انسانی ترقی کا امتزاج ہے۔ مغربی دنیا نے آبادی کو ہمیشہ ایک مسئلہ سمجھا جبکہ چین نے اسے ایک قوت بنایا۔ چین جانتا ہے کہ مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی صرف خوراک، رہائش، روزگار اور صحت کے مسائل پیدا نہیں کرتی بلکہ نئی صلاحیتیں، نئے خیالات، نئی قوتِ کار اور نئی معاشی سرگرمیاں بھی جنم دیتی ہے۔ چین کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ اس نے اپنی آبادی کو ایک بوجھ سمجھنے کے بجائے اسے اپنے ترقیاتی ماڈل کا ستون بنا دیا۔ ایک طرف شرحِ پیدائش کو بہتر بنانے کی کوشش، دوسری طرف تعلیم، صحت اور مہارت کی بہتری، یہ دونوں پہلو مل کر اس ملک کو مستقبل میں بھی مضبوط رکھتے ہیں۔

آخر میں، یہ سوال ایک بار پھر ابھرتا ہے کہ چین نے یہ سب کیسے کیا؟ جواب سادہ بھی ہے اور پیچیدہ بھی، چین نے طویل المدتی منصوبہ بندی کو عادت بنایا، معاشرتی نظم کو اپنا اصول اور انسانی سرمایہ کو اپنی طاقت۔ چین کی جدیدیت صرف بلند عمارتوں، تیز رفتار ٹرینوں اور بڑی کمپنیوں کا نام نہیں۔ یہ ایک ایسا فریم ورک ہے جو بچے سے بزرگ تک ہر فرد کو ترقی کے سفر میں شریک کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین دنیا کو حیران بھی کرتا ہے اور متاثر بھی۔ شاید یہی وہ راستہ ہے جسے ہم "چینی طرز کی جدیدیت" کہتے ہیں۔ ایک ایسا راستہ جس پر چلنے والے ملک نہ صرف ترقی کرتے ہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ترقی کا پائیدار راستہ دے جاتے ہیں۔

چین کا ماڈل دنیا کے لیے یہی پیغام رکھتا ہے، آبادی اگر منظم ہو تو طاقت بنتی ہے، بوجھ نہیں۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz