Bikhri Hai Meri Dastan
بکھری ہے میری داستاں

کیا یہ ممکن ہے کہ ہم کسی اور کی لکھی ہوئی کہانی پڑھتے پڑھتے یوں اس کے سحر میں کھو جائیں کہ اس میں بیان کردہ رشتے اور تعلقات ہمارے اپنے دل کی دھڑکنوں کا حصہ بن جائیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ مصنف کا قلم جب اپنے پیاروں کا ذکر کرے تو قاری کے دل میں بھی وہی جذبے جاگ اٹھیں، جو خود مصنف نے محسوس کیے ہوں؟ ادب کی دنیا میں یہ معجزہ شاذ و نادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے، مگر کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے الفاظ میں ایسی تاثیر ودیعت کی جاتی ہے کہ وہ قاری کو نہ صرف اپنا ہمسفر بنا لیتی ہیں بلکہ اس کے احساسات کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ محترم اظہار الحق صاحب انہی خوش نصیب ہستیوں میں سے ایک ہیں۔
ان کی نثر میں جو چاشنی ہے، جو شفافیت ہے، وہ صرف الفاظ کی ترتیب کا کمال نہیں بلکہ یہ اس دل کا عکس ہے جو اپنے رشتوں سے، اپنے تعلقات سے اور اپنے تجربات سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ پہلی بار جب میں نے ان کی کتاب عاشق مست جلالی کو ہاتھ میں لیا اور اس کے اوراق پلٹنے شروع کیے تو مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ کتاب مجھے کہاں تک لے جائے گی۔ لیکن جیسے جیسے صفحات آگے بڑھتے گئے، مجھے یوں لگا جیسے میں کسی اجنبی کی تحریر نہیں بلکہ اپنی ہی زندگی کا کوئی باب پڑھ رہا ہوں۔ ایک ایسا باب جس میں میرے اپنے جذبات، میری اپنی یادیں اور میرے اپنے رشتے کسی اور کی زبان سے بیان ہو رہے ہوں۔
اس پہلی ملاقات کے بعد یہ تعلق ایک عارضی قاری اور مصنف کے درمیان رہنے والا تعلق نہ رہا بلکہ ایک گہرا رشتہ بن گیا۔ پھر جب تلخ نوائی، سمندر جزیرے اور جدائیاں میری نظر سے گزریں تو یہ رشتہ اور مضبوط ہوتا چلا گیا۔ ہر کتاب ایک نئے زاویے سے مجھے جھنجھوڑتی، سوچنے پر مجبور کرتی اور مجھے یہ احساس دلاتی کہ ادب صرف الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ ایک ایسی طاقت ہے جو انسان کے اندر چھپی ہوئی محبتوں، کڑواہٹوں اور یادوں کو جگا دیتی ہے اور اب جب میں بکھری ہے میری داستاں پڑھ رہا ہوں تو یہ تعلق ایک ناقابلِ شکست رشتے میں ڈھل چکا ہے۔ اب یہ صرف مطالعہ نہیں بلکہ ایک روحانی تجربہ ہے، ایک ایسا سفر ہے جس میں قاری اور مصنف کے درمیان فاصلے مٹ جاتے ہیں۔
اظہار الحق صاحب نے اپنے قریبی رشتوں کا ذکر جس محبت سے کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دادا، دادی، نانی، والدہ اور والد۔ یہ سب ہستیاں عام طور پر ہر انسان کی زندگی کا حصہ ہوتی ہیں۔ لیکن انہیں بیان کرنے کا انداز سب کے ہاں یکساں نہیں ہوتا۔ اکثر لوگ یادوں کو صرف بیان کرتے ہیں، مگر وہ یادیں قاری کے دل تک نہیں پہنچ پاتیں۔ لیکن اظہار الحق صاحب جب اپنے دادا کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے جملوں میں وہی شفقت جھلکتی ہے جو ایک بچے نے دادا کے قدموں کے پاس بیٹھ کر محسوس کی ہو۔ جب وہ دادی کو یاد کرتے ہیں تو ان کے الفاظ میں وہی سکون جھلکتا ہے جو دادی کی دعاؤں سے ملتا ہے۔ نانی کا ذکر ان کی تحریر میں یوں آتا ہے جیسے کسی پرانی تصویر کو دیکھ کر دل بھر آئے۔ والدہ اور والد کے تذکرے میں تو ایک ایسی عقیدت، ایک ایسی وارفتگی ہے کہ قاری بھی اپنی آنکھوں کو نم ہونے سے نہیں روک پاتا۔
یہی وہ جادو ہے جو اظہار الحق صاحب کی تحریر کو زندہ جاوید بنا دیتا ہے۔ وہ صرف ایک رشتہ بیان نہیں کرتے، وہ قاری کو اس رشتے کی خوشبو محسوس کراتے ہیں۔ وہ صرف ایک واقعہ نہیں سناتے بلکہ قاری کو اس لمحے کے اندر لے جا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔ قاری جب ان کی کتاب کے صفحات پڑھتا ہے تو وہ محض پڑھنے والا نہیں رہتا بلکہ وہ بھی دادا کی گود میں بیٹھا بچہ بن جاتا ہے، وہ بھی والدہ کی قربانیوں کا شکر گزار بیٹا بن جاتا ہے، وہ بھی والد کے پسینے کی خوشبو کو محسوس کرنے لگتا ہے۔
یہ سوال اکثر ذہن میں آتا ہے کہ آخر وہ کون سا راز ہے جو ایک مصنف کی تحریر کو اتنا پُراثر بنا دیتا ہے؟ کیا یہ محض الفاظ کا جادو ہے یا اس کے پیچھے دل کی سچائی ہے؟ میری رائے میں اظہار الحق صاحب کی تحریر کا اصل حسن یہی ہے کہ وہ بناوٹ سے پاک ہے۔ وہ اپنے رشتوں کو جس طرح یاد کرتے ہیں، اس میں کوئی تصنع نہیں، کوئی دکھاوا نہیں۔ ان کے الفاظ میں وہی سچائی جھلکتی ہے جو صرف خالص محبت سے پیدا ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاری ان کے لکھے ہوئے کو صرف پڑھتا نہیں بلکہ اسے جیتا ہے۔
زندگی میں ایسے مصنف بہت کم ملتے ہیں جو اپنے قاری کو اپنے جذبات کا شریکِ سفر بنا لیں۔ عام طور پر قاری اور مصنف کے درمیان ایک فاصلہ رہتا ہے، ایک پردہ حائل رہتا ہے۔ قاری مصنف کے خیالات کو سمجھتا تو ہے مگر انہیں اپنی ذات کا حصہ نہیں بنا پاتا۔ لیکن اظہار الحق صاحب کے ہاں یہ پردہ اٹھ جاتا ہے۔ ان کی تحریر قاری کو اس طرح گھیر لیتی ہے کہ وہ مصنف کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے لگتا ہے، ان کی خوشی کو اپنی خوشی مان لیتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب ادب محض ایک فن نہیں رہتا بلکہ ایک جذبہ بن جاتا ہے، ایک رشتہ بن جاتا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اظہار الحق صاحب کی تحریروں میں محبت صرف رشتوں تک محدود نہیں رہتی۔ ان کے ہاں وطن کی محبت، معاشرتی اقدار کی محبت اور زبان و ثقافت کی محبت بھی نمایاں ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر جو چیز دل کو چھو لیتی ہے وہ ان کا اپنے خاندان سے تعلق ہے۔ آج کے دور میں جب رشتوں کی قدر کم ہوتی جا رہی ہے، جب لوگ اپنے بڑوں کی باتوں کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں، وہاں ایسی تحریریں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہماری اصل طاقت ہمارے رشتے ہیں، ہمارے بزرگ ہیں، وہ لوگ ہیں جن کی دعاؤں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ جب کوئی قاری اظہار الحق صاحب کو پڑھتا ہے تو وہ صرف ایک فرد کی داستان نہیں پڑھ رہا ہوتا بلکہ وہ اپنے ہی ماضی سے ملاقات کر رہا ہوتا ہے۔ ہر کسی کے پاس دادا، دادی، نانی، والدہ اور والد کی یادیں ہوتی ہیں۔ مگر ان یادوں کو الفاظ میں ڈھالنا سب کے بس کی بات نہیں۔ اظہار الحق صاحب نے یہ مشکل کام نہ صرف کمال ہنر سے کیا ہے بلکہ ان یادوں کو اس طرح محفوظ کر دیا ہے کہ وہ اب صرف ان کی نہیں رہیں، وہ ہر قاری کی مشترکہ متاع بن گئی ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی کتابیں پڑھنے والا ہر شخص اپنے اندر ایک نیا انسان تلاش کرنے لگتا ہے۔ وہ محبت کو پھر سے جاننے لگتا ہے، رشتوں کی قدر کو پھر سے سمجھنے لگتا ہے اور یہی ادب کا سب سے بڑا کمال ہے کہ وہ انسان کو بدل دیتا ہے، اس کی روح کو جلا بخشتا ہے۔
بکھری ہے میری داستاں کے مطالعے نے مجھے ایک بار پھر یہ یقین دلایا کہ محبت محض ایک احساس نہیں بلکہ ایک قوت ہے، ایک ایسی قوت جو انسان کو مضبوط کرتی ہے، جو زخموں کو مندمل کرتی ہے، جو ٹوٹے دلوں کو جوڑ دیتی ہے۔ اظہار الحق صاحب کی تحریروں نے مجھے یہ سکھایا کہ رشتوں کی محبت کو صرف جینا ہی کافی نہیں بلکہ اسے محسوس کرنا، اسے بیان کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ محبت جتنی بانٹی جائے اتنی ہی بڑھتی ہے۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ ادب کا اصل مقصد یہی ہے کہ وہ ہمیں ہمارے اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کرے، ہمیں ہمارے رشتوں کی یاد دلائے، ہمیں ہمارے ماضی کی خوشبو محسوس کرائے اور اس لحاظ سے اظہار الحق صاحب کا شمار ان چند بڑے مصنفین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی تحریروں سے یہ مقصد پورا کیا ہے۔ ان کی داستان محض ان کی نہیں بلکہ ہم سب کی داستان ہے، ایک ایسی داستان جو محبت کے لمس میں ڈوبی ہوئی ہے اور جو ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ رشتے ہی اصل سرمایہ ہیں۔

