Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Bharat Par Tariff Bahadurana Iqdam

Bharat Par Tariff Bahadurana Iqdam

بھارت پر ٹیرف بہادرانہ اقدام

یہ دنیا عجیب تماشہ گاہ ہے۔ یہاں طاقت اور وقار کے معیار ہمیشہ سے اصولوں پر نہیں بلکہ مفادات پر طے ہوتے آئے ہیں۔ ایک وقت تھا جب یورپ اور خصوصاً برطانیہ ہندوستان کو محض ایک کٹھ پتلی کی طرح دیکھتا تھا۔ گورا سامراج اپنے نوآبادیاتی غرور میں اس خطے کے عوام کو کمتر، جاہل اور محکوم سمجھتا تھا۔ برصغیر کا ذکر کرتے ہوئے ان کے چہروں پر ایک عجب طنزیہ مسکراہٹ آتی تھی، جیسے یہ خطہ ان کے لیے صرف خام مال کا گودام اور سستی افرادی قوت کا کھیت ہو۔ لیکن آج وہ وقت آچکا ہے کہ انہی گوروں کی زبان سے بھارت کے خلاف اٹھنے والے قدم کو "بہادری" کہا جا رہا ہے اور وہ بھی بورس جانسن جیسے سابق برطانوی وزیراعظم کی زبان سے، جو کبھی خود کو دنیا کے طاقتور ترین رہنماؤں میں شمار کرواتے تھے۔

یہ منظرنامہ محض سفارتی جملے بازی نہیں، بلکہ اس پوری عالمی سیاست کے دوہرے معیار کا عکاس ہے۔ جب بھارت کمزور تھا، غلام تھا، اس کے پاس اپنی پالیسی بنانے کا حق نہیں تھا، تب دنیا کے بڑے طاقتور ممالک اس کے ساتھ من مانی کرتے تھے، اس کے وسائل لوٹتے تھے اور اس کی آواز کو دباتے تھے۔ لیکن آج جب بھارت نے اپنی معاشی اور سفارتی لابنگ کی طاقت سے دنیا کے بڑے بڑے پلیٹ فارمز پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہے، تو وہی یورپ اور امریکہ اس سے ٹکرانے سے پہلے ہزار بار سوچتے ہیں۔ یورپ کے رہنما بھارت کے خلاف کسی مضبوط موقف کو "بہادری" کا درجہ دے رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بھارت کے پاس آج وہ سفارتی ہتھیار ہیں جو محض بندوق اور ٹینک سے زیادہ خطرناک ہیں، یعنی بیانیے کو اپنے حق میں موڑنے کی صلاحیت۔

یہاں منافقت کا سب سے بڑا مظاہرہ یورپ اور امریکہ نے خود کیا ہے۔ یہ وہی امریکہ ہے جو اپنے آپ کو جمہوریت اور انسانی حقوق کا علمبردار کہتا نہیں تھکتا، لیکن جب بات بھارت کے اندر مسلمانوں، سکھوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کی آتی ہے تو یا تو خاموش رہتا ہے یا پھر ایسے الفاظ میں ردعمل دیتا ہے کہ گویا کسی معمولی مسئلے پر بات کر رہا ہو۔ یہی امریکہ جب کسی کمزور ملک میں کوئی چھوٹا سا واقعہ دیکھتا ہے، تو اس پر پابندیوں کی دھمکیاں دیتا ہے، فوجی کارروائی تک کا عندیہ دیتا ہے اور میڈیا کو اس قدر بھر دیتا ہے کہ پورا بیانیہ دنیا بھر میں پھیل جائے۔ لیکن بھارت کے معاملے میں سب کچھ دبا دیا جاتا ہے، سب کچھ مٹا دیا جاتا ہے اور اگر کبھی کچھ کہا بھی جائے تو بڑی احتیاط اور نرم لہجے میں، تاکہ کہیں بھارت کی ناراضی مول نہ لی جائے۔

یورپ کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں۔ وہ بظاہر اصولوں اور انسانی وقار کی بات کرتا ہے، لیکن اس کی خارجہ پالیسی کا اصل محور معاشی مفاد اور سیاسی لابنگ ہے۔ بھارت اس وقت یورپ کے لیے ایک بڑی مارکیٹ ہے، ٹیکنالوجی اور آؤٹ سورسنگ کا مرکز ہے اور عالمی تجارت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی رہنما بھارت کے خلاف کھل کر بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ بورس جانسن کا یہ بیان اس حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ آج بھارت پر کسی قسم کا تجارتی یا سفارتی دباؤ ڈالنا، یورپی سیاست دانوں کے لیے گویا شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ وہ اس کو "بہادری" اس لیے کہتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ بھارت نہ صرف جواب دے گا بلکہ عالمی سطح پر اپنی پروپیگنڈا مشینری سے ایسا تاثر قائم کرے گا کہ گویا اس کے خلاف اٹھنے والا ہر قدم غلط، متعصبانہ اور غیر منصفانہ تھا۔

یہ سب کچھ بھارت کے کردار کو کسی مثبت تناظر میں پیش نہیں کرتا، بلکہ اس کی مکاری اور سفارتی چالاکی کو مزید نمایاں کرتا ہے۔ بھارت نے دنیا کے سامنے ایک جعلی وقار کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ اندر سے وہ وہی پرانا تنگ نظر، انتہا پسند اور اقلیت دشمن معاشرہ ہے جو صدیوں سے نفرت اور تقسیم کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں تو یہ تعصب اور شدت پسندی مزید بڑھ گئی ہے، لیکن دنیا کو دکھایا جاتا ہے کہ بھارت ایک ترقی یافتہ، جمہوری اور مہذب ملک ہے۔ یہی جعلی تصویر اس کی سب سے بڑی کامیابی ہے، کیونکہ دنیا کے بڑے میڈیا ہاؤسز، لابنگ فرموں اور سفارتی چینلز پر اس کا قبضہ اور اثر و رسوخ اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ کوئی بھی ملک یا ادارہ اس کے خلاف کھل کر بات نہیں کر پاتا۔

امریکہ اور یورپ کا کردار یہاں مزید شرمناک ہو جاتا ہے۔ یہ وہی ممالک ہیں جو افغانستان، عراق، لیبیا اور شام جیسے ممالک میں انسانی حقوق کے نام پر جنگیں لڑتے ہیں، حکومتیں گراتے ہیں اور لاکھوں بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔ لیکن بھارت میں گجرات سے لے کر منی پور تک، کشمیر سے لے کر دہلی کے فسادات تک، جہاں بھی انسانیت کی دھجیاں اڑائی گئیں، وہاں یہ سب خاموش تماشائی بنے رہے۔ کبھی کبھار کوئی ہلکی پھلکی پریس ریلیز جاری کر دی، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ اس منافقت کی وجہ محض یہی ہے کہ بھارت ان کے لیے معاشی اور سیاسی لحاظ سے ایک "اہم پارٹنر" ہے اور وہ اپنے مفادات کے لیے ہر اصول کو قربان کرنے کو تیار ہیں۔

یورپ کے رہنما جانتے ہیں کہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے جہاں اربوں ڈالر کا اسلحہ بیچا جا سکتا ہے، جہاں سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں، جہاں سستی مزدوری اور تکنیکی سہولیات مل سکتی ہیں۔ اسی لیے اگر بھارت کسی کمزور پڑوسی پر ظلم کرے، اپنی سرحدوں سے باہر مداخلت کرے یا اپنے ہی شہریوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرے، تو بھی یورپ کی زبان بند رہتی ہے۔ یہی حال امریکہ کا ہے جو بھارت کے ساتھ اپنے دفاعی معاہدوں، ٹیکنالوجی شیئرنگ اور انٹیلیجنس کوآپریشن کو انسانی حقوق سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت کا یہ جعلی وقار محض ایک بڑا دھوکہ ہے اور اس دھوکے کو قائم رکھنے میں سب سے زیادہ کردار مغربی طاقتوں کا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ بھارت نہ تو حقیقی معنوں میں ایک جمہوری ملک ہے اور نہ ہی ایک باکردار قوم، لیکن چونکہ وہ ان کے مفادات کو پورا کرتا ہے، اس لیے اس کی تمام برائیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ عالمی سیاست کا سب سے گھناؤنا پہلو ہے کہ اصول اور اخلاقیات محض کمزور ممالک کے لیے ہیں، طاقتور یا فائدہ پہنچانے والے ممالک کے لیے نہیں۔

بورس جانسن کا یہ بیان اس منافقت پر ایک خاموش اعتراف ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آج کا بھارت سفارتی چالاکی میں اتنا آگے بڑھ چکا ہے کہ یورپ جیسے خطے کے لیے بھی اس کے خلاف ایک قدم اٹھانا ایک جرات مندانہ عمل سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ جرات کسی اصول کے تحت نہیں بلکہ ایک طاقتور لابی کے خلاف جانے کے خوف کے باعث جرات کہلائی جا رہی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ جب تک عالمی سیاست کا یہ دوہرا معیار ختم نہیں ہوتا، دنیا میں انصاف اور انسانی وقار کے حقیقی معنی کبھی قائم نہیں ہو سکیں گے۔ بھارت جیسے ملک اپنی مکاری سے اپنا جعلی وقار بچاتے رہیں گے اور یورپ و امریکہ جیسے ممالک اپنی منافقت کے بوجھ تلے دبے رہیں گے، مگر اپنے مفادات کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ طاقت اور مفاد کے کھیل میں اخلاقیات اور انصاف ہمیشہ ہار جاتے ہیں۔ بھارت نے اپنے لیے ایک ایسا چہرہ تراش لیا ہے جو دنیا کے سامنے خوشنما نظر آتا ہے، لیکن اس کے پیچھے ظلم، منافقت، جھوٹ اور مکار سیاست کا ایک خوفناک چہرہ چھپا ہوا ہے اور بدقسمتی سے دنیا کے بڑے طاقتور ممالک اس چہرے کو بے نقاب کرنے کے بجائے اس پر مزید رنگ و روغن چڑھانے میں مدد دے رہے ہیں۔ یہی اس دور کی سب سے بڑی سچائی اور سب سے بڑا المیہ ہے۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan