Bharat Ka Hyper Nationalism
بھارت کا ہائیپر نیشنل ازم

دنیا کو دیکھتے ہوئے کئی بار دل میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ بھارت کیا کر رہا ہے، کس طرف بڑھ رہا ہے اور اپنے ہی لوگوں کو کیا پیغام دے رہا ہے؟ ایک ایسا ملک جسے قدرت نے بے شمار رنگوں سے نوازا ہے، جہاں زبانوں، تہذیبوں اور کلچر کی ایک دنیا بستی ہے، وہاں آج ایک تنگ نظری اور ہائیپر نیشنل ازم کی آندھی نے سب کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ یہ منظر نہ صرف بھارت کے اپنے اچھے اور نیک دل لوگوں کے لیے تکلیف دہ ہے بلکہ دنیا بھر میں ان لاکھوں لوگوں کے لیے بھی مایوسی کا باعث ہے جو بھارت کو ایک روشن اور ترقی یافتہ مثال کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔
وزیراعظم نریندر مودی ایک بڑے ملک کے سربراہ ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ بڑے لوگوں کی پہچان ان کی بڑی سوچ اور کشادہ دلی سے ہوتی ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ جس طرح کے فیصلے اور طرزِعمل حالیہ برسوں میں سامنے آئے ہیں، وہ بھارت کو اس کی اصل عظمت سے دور لے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے سیاست کے نام پر ایک ایسا کھیل کھیلا جا رہا ہے جس میں ملک کی اپنی خوشبو اور کشش کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ وہی بھارت جو کبھی اپنی نرم قوت (soft power) کے ذریعے دنیا کو متاثر کرتا تھا، جس کے موسیقی، فلم، ادب اور کرکٹ کے چرچے تھے، اب ایک سخت اور بدمزاج ملک کے طور پر پہچانا جا رہا ہے۔ یہ کسی کے لیے بھی خوشی کا باعث نہیں ہو سکتا۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ بھارت کے پاس دنیا کو دینے کے لیے کتنا کچھ تھا۔ تہذیب، فلسفہ، مہاتما گاندھی کا عدم تشدد، رابندر ناتھ ٹیگور کی شاعری، امبیڈکرکے افکار، نیلم بوہری کرشنن کی ریسرچ اور کھیل کے میدان میں سنیل گواسکر، کپل دیو، سارو گنگولی اور سچن ٹنڈولکر کی عظمت۔ یہ سب کچھ دنیا کو مسحور کرنے کے لیے کافی تھا۔ مگر افسوس کہ آج یہ سب پیچھے چھپ گیا ہے اور سامنے آ گئی ہے ایک ایسی زبان جو نفرت اور تقسیم پر مبنی ہے۔ دنیا کا تاثر بدل چکا ہے۔ وہ بھارت جسے کبھی امن، دوستی اور ترقی کے خوابوں کے ساتھ جوڑا جاتا تھا، آج دنیا کے کئی حلقوں میں ایک غنڈا اور بدمعاش ملک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ صرف بیرونی دنیا کا معاملہ نہیں، بھارت کے اپنے اندر بھی لاکھوں لوگ اس تبدیلی پر دل گرفتہ ہیں۔
یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اس سب کے پیچھے ایک محدود سوچ کارفرما ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چھوٹے گھرانے سے اٹھنے والے رہنما بڑی سوچ کے امتحان میں اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔ وہ کشادہ دل اور کشادہ سوچ سے محروم ہوتے ہیں۔ نریندر مودی چونکہ ایک عام گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے وہ اپنے اندر وہ کشادہ ظرفی پیدا نہ کر سکے جو ایک بڑے آدمی اور بڑے ملک کے وزیراعظم کو زیب دیتی ہے۔ یہ سوچ بھلے ہی سخت لگے، لیکن اس میں ایک سوال ضرور چھپا ہے: کہ قیادت کا معیار وسائل یا پس منظر نہیں، بلکہ وسعتِ فکر اور عظمتِ کردار ہوتا ہے؟ اگر ایک لیڈر بڑی کرسی پر بیٹھ کر بھی چھوٹا ہی سوچے تو اس کا نقصان صرف اس شخص تک محدود نہیں رہتا، بلکہ پوری قوم اور نسلوں تک پہنچتا ہے۔
یہاں اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس سوچ کی وجہ سے ایک خطرناک پیغام دیا جا رہا ہے کہ گویا عام طبقے کے لوگ کبھی بڑے پن کا مظاہرہ نہیں کر سکتے۔ یہ بہت بڑا نقصان ہے، کیونکہ بھارت جیسے ملک میں لاکھوں کروڑوں عام لوگ اپنی محنت اور صلاحیت سے اوپر اٹھنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ اگر قیادت یہ تاثر دے کہ اقتدار میں آ کر بھی سوچ محدود اور غریب رہتی ہے، تو اس سے وہ خواب ہی ٹوٹ جائیں گے جو عوام کے دلوں میں پل رہے ہیں۔
ایک اور پہلو جو بہت تکلیف دہ ہے وہ کھیلوں کی سیاست زدگی ہے۔ کھیل ہمیشہ دوستی، امن اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہیں۔ کرکٹ تو برصغیر کے لیے ایک جنون کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ نوجوانوں کی محبت ہے، ایک جذبہ ہے، ایک خواب ہے۔ لیکن جب کھیل کے میدان کو سیاست کے میدان میں بدلا جا رہا ہے تو یہ خواب بھی بکھر رہے ہیں۔ بھارت کے اپنے نوجوان کھلاڑی مجبور ہیں کہ وہ سیاست کی زبان بولیں، چاہے وہ نہ چاہتے ہوں۔ وہ کھیلنا چاہتے ہیں، دل جیتنا چاہتے ہیں، اپنی محنت سے دنیا میں پہچانے جانا چاہتے ہیں۔ لیکن ان کے راستے میں سیاست کا دباؤ رکھا جا رہا ہے۔ یہ نہ صرف کھیل کے حسن کو تباہ کر رہا ہے بلکہ بھارت کی اپنی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ دنیا کھیل سے محبت کرتی ہے، لیکن وہ کھیل جس میں سپرٹ ہو، خلوص ہو اور غیر سیاسی جوش و جذبہ ہو۔ اگر کھیل سیاست کا آلہ کار بن جائے تو اس کی معصومیت مر جاتی ہے۔
بھارت کے اچھے اور سمجھدار لوگ یہ سب دیکھ رہے ہیں اور اس پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ان کے دل میں درد ہے کہ ان کا اپنا ملک ایک ایسے راستے پر بڑھ رہا ہے جہاں عزت کی جگہ تذلیل ہے اور دوستی کی جگہ نفرت۔ وہ یہ نہیں چاہتے۔ وہ بھارت کو خوبصورت دیکھنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھارت کو عزت اور احترام سے دیکھے، نہ کہ نفرت اور اجتناب سے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ بدلا جا سکتا ہے؟ جی ہاں، ہر حال میں بدلا جا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ قیادت اپنے رویے پر نظر ثانی کرے اور اپنے ملک کے لیے ایک بڑی سوچ اپنائے۔ مودی صاحب کو چاہیے کہ وہ یہ سمجھیں کہ بھارت کا اصل حسن اس کی وسعت میں ہے، اس کے تنوع میں ہے، اس کی برداشت، کھلے دل اور والہانہ پن میں ہے۔ اگر اس حسن کو مسخ کیا گیا تو آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گی۔
بھارت کے اچھے لوگ، آپ سے یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ دنیا کی امیدیں اب بھی آپ سے وابستہ ہیں۔ آپ کے ملک کے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ نفرت کو پیچھے دھکیل کر محبت کو آگے لا سکتا ہے۔ آپ کے ملک کے پاس وہی گاندھی ہے جس نے دنیا کو بتایا تھا کہ سب سے بڑی طاقت ہتھیار میں نہیں بلکہ عدم تشدد میں ہے۔ آپ کے پاس وہی روایت ہے جس میں مہمان نوازی، کشادہ دلی اور وسیع النظر سوچ شامل ہے۔ یہی وہ اقدار ہیں جو بھارت کو بڑا بنا سکتی ہیں، نہ کہ ہائیپر نیشنل ازم کی تنگ سوچ۔
ہم سب چاہتے ہیں کہ بھارت کے نوجوان ایک بار پھر کھیل کے میدانوں میں اپنی اصل شناخت کے ساتھ اتریں، کہ کرکٹ ہو یا ہاکی، یا پھر کوئی اور کھیل، دنیا کو یہ دکھا سکیں کہ وہ سیاست سے نہیں بلکہ خالص کھیل سے محبت کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھارتی ادب اور فلسفہ ایک بار پھر دنیا کے دل جیتے، کہ وہی نرم قوت بھارت کی پہچان بنے جس نے کبھی سب کو حیران کیا تھا۔
یہ دنیا سب کی مشترکہ ہے۔ یہاں کوئی بھی ملک تنہا ترقی نہیں کر سکتا۔ اگر بھارت واقعی ایک بڑی طاقت بننا چاہتا ہے تو اسے اپنے ہمسایوں سے لے کر اپنے اندر کے مختلف طبقات تک سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ہائیپر نیشنل ازم وقتی جوش ضرور پیدا کرتا ہے، لیکن یہ دیرپا ترقی اور عزت نہیں لا سکتا۔ عزت ہمیشہ انصاف، کشادہ دلی اور بڑی سوچ سے ملتی ہے۔
آج دنیا بھارت کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ یہ منظر بدلنے کی ضرورت ہے اور یہ تبدیلی بھارت کے اپنے ہی لوگوں کے ذریعے آئے گی، وہی اچھے لوگ جو آج دل گرفتہ ہیں لیکن اب بھی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کی آواز مضبوط ہونی چاہیے۔ وہ اپنے ملک کو یاد دلائیں کہ اصل عظمت تقسیم میں نہیں بلکہ اتحاد میں ہے، نفرت میں نہیں بلکہ محبت میں ہے، تنگ نظری میں نہیں بلکہ کشادہ ظرفی میں ہے۔
مودی صاحب، آپ ایک بڑے ملک کے وزیراعظم ہیں۔ آپ کے پاس یہ موقع ہے کہ آپ اپنے ملک کو دنیا میں ایک مثبت اور روشن مثال کے طور پر پیش کریں۔ چھوٹی سوچ چھوڑ دیجیے، بڑی سوچ اپنائیے۔ تاریخ میں وہی لیڈر بڑے کہلائے ہیں جنہوں نے اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر اپنی قوم اور انسانیت کے لیے سوچا۔ ابھی وقت ہے، ابھی موقع ہے۔ بھارت کو ایک بار پھر خوبصورت اور دلکش بنایا جا سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ فیصلہ بڑا ہو، سوچ بڑی ہو اور راستہ درست ہو۔

