Baba Misri Khuloos Aur Khuddari Ka Mazhar
بابا مصری خلوص اور خودداری کا مظہر

بابا مصری ہمارے گاؤں کی مٹی کا وہ انمول خزانہ تھے جو وقت کے ساتھ ماند نہیں پڑا بلکہ اور نکھرتا گیا۔ وہ مٹی کی خوشبو سے لپٹے، دھوپ میں تپے، بارش میں بھیگے، پسینے میں گندھے ہوئے وہ کسان تھے جن کی زندگی کا ہر لمحہ محنت، سادگی، خلوص اور خودداری کا مظہر تھا۔ ان کے چہرے کی جھریاں دراصل ان کے تجربوں کی لکیریں تھیں۔ وہ لکیریں جن میں زمانے کی سختیاں بھی تھیں اور انسانیت کی خوشبو بھی۔
بابا مصری، اگرچہ اپنی بیگم دادی بھاگاں، کے سخت جاں حریف تھے۔ دونوں کی چپقلش کبھی کھل کر طنز میں بدل جاتی، کبھی ایک دوسرے کے لیے محبت کے پردے میں چھپی رہتی۔ مگر یہ عداوت بھی عجب مٹھاس رکھتی تھی۔ دادی بھاگاں جب کبھی کسی بات پر بابا مصری کو کوستیں تو بابا مسکرا دیتے، گویا دونوں کی مخالفت بھی محبت کے دائرے سے باہر نہ جاتی۔ مگر گاؤں کے باقی لوگوں کے لیے بابا مصری سراپا مہر و محبت تھے۔ ان کے دروازے پر آنے والا کوئی بھی شخص خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔
ان کی مہمان نوازی مشہور تھی۔ لوگ مہینوں کے لیے آ کر ان کے ڈیرے میں ٹھہرتے، کھاتے پیتے، آرام کرتے۔ وہ نہ کبھی تھکتے، نہ کبھی کسی کے جانے کا ذکر چھیڑتے۔ بلکہ جب کوئی مہمان رخصت کی اجازت لیتا تو بابا مصری کے چہرے پر اداسی چھا جاتی۔ ان کی آنکھیں بھیگ جاتیں اور وہ محبت بھرے لہجے میں کہتے، "اوئے، ابھی تو آئے تھے۔ جانے کی کیا جلدی ہے؟ ابھی کچھ دن اور رہ، میں تو تیرے بغیر اداس ہو جاؤں گا"۔ ان کا یہ جملہ گاؤں بھر میں مشہور تھا۔ شاید اسی لیے ان کے گھر کا چولہا کبھی ٹھنڈا نہیں ہوا اور ان کے آنگن کی رونق کبھی مدھم نہیں پڑی۔
بابا مصری سخت جان بھی تھے۔ ان کے پاس اتنے کھیت تھے کہ دھوپ کے سائے بھی ان پر تھک کر بیٹھ جاتے۔ وہ بیج بوتے، فصل کاٹتے، گاہتے، بھوسہ باندھتے اور بوریوں میں اناج بھر کر رکھ دیتے۔ ان کے کھیتوں میں زمین کی سانس محسوس ہوتی تھی۔ دانے ان کے لمس سے چمک اٹھتے۔ ان کے ہاتھوں میں ایک عجب برکت تھی۔ وہ کام سے کبھی اکتاتے نہیں تھے۔ صبح سویرے جب سورج ابھی کنوئیں سے پانی پینے آتا تھا، بابا مصری کھیتوں میں ہل چلا رہے ہوتے۔ ان کی بانسری نما سیٹی فضا میں گونجتی اور پرندے ان کے سنگ بولنے لگتے۔
ان کے پاس جانوروں کا ایک بڑا ریوڑ تھا۔ بھیڑیں، بکریاں، گائیں، بیل، کھوتیاں۔ ان سب کو وہ اپنے بچوں کی طرح پالتے۔ ان کے نام رکھتے، ان سے باتیں کرتے۔ دادی بھاگاں لسی بناتی، مکھن نکالتی، دہی جماتی۔ گاؤں کے لوگ کہتے، "بابا مصری کے گھر کی لسی میں شفا ہے، مکھن میں برکت ہے"۔ کبھی کبھار وہ چند جانور بیچ دیتے اور جو رقم ہاتھ آتی، اس سے وہ کپڑے، جوتے، یا نمک مرچ خرید لاتے۔ باقی سب کچھ ان کی زمین خود پیدا کر دیتی تھی۔
بابا مصری کا ایک وصف اور بھی بےمثال تھا۔ وہ اپنے کام سے محبت کرتے تھے۔ ان کے لیے محنت عبادت تھی۔ انہیں کبھی کسی کام سے کوفت نہ ہوتی۔ وہ دانے بوریوں میں ڈال رہے ہوں یا بھوسا باندھ رہے ہوں، ان کے لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی۔ وہ کہتے، "کام رب کا حکم ہے، جو خوشی سے کرے، اس کی زندگی عبادت بن جاتی ہے"۔
ہم جیسے بچوں کے لیے البتہ کبھی کبھی وہ ڈراؤنی کہانی کا کردار بن جاتے۔ ہم شرارتاً یا تتلی پکڑنے ان کی فصلوں میں گھس جاتے، گندم کے بال توڑ کر ہوا میں اڑاتے، یا کبھی جانوروں کو چھڑا دیتے۔ پھر بابا مصری کے قہر کا طوفان آتا۔ وہ بڑی کھونڈی کے ساتھ پیچھے بھاگتے اور چلاتے، مگر جب ہم ڈر کر بھاگتے اور کہیں جا چھپتے، تو وہ کچھ دیر بعد خود ہی ہنسنے لگتے۔ شام کو کسی بہانے سے ہمیں بلا لیتے اور دہی، لسی یا مکئی کی روٹی دے کر کہتے، "اچھا، آئندہ خیال رکھنا، ٹھیک ہے؟" ان کی ڈانٹ میں بھی تربیت تھی، محبت تھی، زندگی کا سبق چھپا تھا۔
پھر وقت نے اپنی رفتار دکھائی۔ وہی بابا مصری جو کبھی دن رات کھیتوں میں رواں رہتے تھے، انہیں پڑھانے نے آ لیا۔ نظر جاتی رہی، بواسیر لگ گئی۔ جسم نے ساتھ چھوڑنا شروع کیا۔ بواسیر کی اذیت ناک بیماری نے ان کا جینا دوبھر کر دیا۔ بینائی دھندلا گئی۔ مگر عزم کا چراغ روشن رہا۔ وہ کھوتی پر سوار ہو کر، لمبی ڈانگ ہاتھ میں لے کر اب بھی ریوڑ چرانے نکل جاتے۔ ان کے قریب سے گزرنے والے گاؤں کے لڑکے انہیں دیکھ کر رک جاتے، سلام کرتے اور وہ دھیرے سے مسکرا کر کہتے، "پُتر، جتنا جسم ساتھ دے، اتنا کام ضرور کر۔ جتنی سانس باقی ہے، اسے بیکار نہ جانے دے"۔ ان کی باتوں میں وقت کا رس تھا۔ وہ باتیں نصیحت نہیں، تجربے کی خوشبو تھیں۔
ان کی آخری زندگی گو بیمار تھی مگر باوقار تھی۔ وہ کسی پر بوجھ نہیں بنے۔ ان کے وجود سے خودداری ٹپکتی تھی۔ حتیٰ کہ جب آنکھوں کی روشنی ماند پڑ گئی، وہ چھڑی کے سہارے گودام تک پہنچ جاتے اور گندم کے دانوں پر ہاتھ پھیر کر مسکرا دیتے۔ جیسے کہہ رہے ہوں، "میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ اب یہ زمین تمھاری ہے"۔
بابا مصری کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اصل انسان وہ ہے جو کام کو بوجھ نہیں بلکہ برکت سمجھے۔ جو مہمان کے چہرے پر خدا کی جھلک دیکھے۔ جو زمین سے رزق نکال کر نہ صرف پیٹ بھرتا ہو بلکہ دل بھی مطمئن رکھتا ہو۔ ان کے چہرے پر مٹی، دھوپ اور پسینے کا میل نہیں، ایک روشن تقدیر کا عکس تھا۔
آج ان کا نام صرف ایک یاد کے طور پر باقی نہیں، بلکہ ایک روایت کے طور پر زندہ ہے۔ سادہ، جینے والے، دینے والے انسانوں کی روایت۔ ان کے قہقہے، ان کی ڈانٹ، ان کی مہمان نوازی، ان کے ریوڑ کی آوازیں، سب آج بھی گاؤں کے آسمان میں گونجتی ہیں۔
بابا مصری اب شاید کسی اور دنیا کے کھیتوں میں ہل چلا رہے ہوں گے۔ شاید وہاں کی مٹی کو بھی وہی درس دے رہے ہوں کہ "کام عبادت ہے، مہمان خدا کا دوست اور زمین ماں ہے۔ جو اسے پیار کرے، وہ کبھی خالی نہیں رہتا"۔
ان کا نام مٹھی بھر مٹی میں نہیں، انسانیت کی تاریخ میں ثبت ہو چکا ہے۔ ایک ایسے آدمی کی کہانی کے طور پر جس نے جینا سکھایا اور مٹی کو مقدس بنا دیا۔

