Aye Sanu Mai Nuran Ne Sikhaya
اے سانوں مائی نُوراں نے سکھایا

کبھی کبھی زندگی میں کچھ ایسے کردار آ جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر، سن کر یا ان کے پاس چند لمحے گزار کر انسان کا اندر بدل جاتا ہے۔ وہ کردار کسی کتاب کے صفحے سے نکل کر روح میں بس جاتے ہیں۔ اشفاق احمد کے افسانوں اور ڈراموں میں ایسے کردار بہت ہیں۔ زاویہ کے استاد، من چلے کا سودا کے درویش اور ان کے درمیان کہیں بھٹی پر دانے بھونتی وہ "مائی نُوراں"، جس کے پاس فلسفے کی کتاب نہیں تھی، مگر زندگی کا سچ اس کے ہاتھوں کی خوشبو میں رچا بسا تھا۔
مائی نُوراں کوئی معمولی عورت نہیں تھی۔ وہ کسی یونیورسٹی کی پروفیسر نہیں، کسی خانقاہ کی مجاور نہیں، نہ ہی کسی کتاب میں درج کوئی نامی گرامی صوفیہ۔ مگر اشفاق احمد جیسے صاحبِ نظر نے جب اسے دیکھا تو کہا کہ اگر سقراط عورت ہوتا تو شاید اس کا نام "مائی نُوراں" ہوتا۔ وہ بھٹی پر بیٹھ کر دانے بھونتی تھی، مگر دراصل انسان بھونتی تھی۔ ان کے اندر کے "خام دانے" کو تپش دیتی تھی تاکہ وہ کچھ بن سکیں۔
اشفاق احمد کے گاؤں روپڑ میں جب بھی کوئی مسافر آ نکلتا، مائی نُوراں اس کا خیر مقدم ایسے کرتی جیسے دنیا کا کوئی امیر ترین انسان اپنے سب سے پیارے مہمان کا کرتا ہے۔ وہ اپنی کالی، جھریوں بھری ہتھیلیوں سے مٹھی بھر دانے نکالتی اور مسکرا کر کہتی، "لے پُت، ایہہ نُوراں دے دانے اے، قسمت والے نوں ملدے نیں" اور وہ دانے صرف بھنے ہوئے چنے نہیں ہوتے تھے، وہ دراصل مائی نُوراں کے تجربے، محبت، فراست اور بے غرضی کے دانے ہوتے تھے جو وہ ہر آنے والے کو دان کرتی تھی۔
یہ وہ عورت تھی جس نے دنیا کو بغیر کتاب پڑھے سمجھ لیا تھا۔ اس کی زبان سادہ تھی، مگر اس کے لفظوں میں علم کی وہ گہرائی تھی جو بڑے بڑے عالموں کے ہاں کم نظر آتی ہے۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ وہ اکثر کہا کرتی تھی، "پُت، لوک بڑے عقل مند بنن دی کوشش کردے نیں، پر سُکھی اوہو ہُندا جے، جیہڑا نُور اندر پالے"۔
اور واقعی، مائی نُوراں نے اپنے اندر نُور پال رکھا تھا۔ اسی لیے تو اس کے چہرے کی سیاہی میں روشنی تھی۔ اس کے ہاتھوں کی سختی میں محبت تھی۔ اس کے لہجے کی سادگی میں دانش تھی۔
دنیا والے جب چمک دمک کے پیچھے بھاگتے ہیں تو بھٹی کی آگ میں جلتی مائی نُوراں یاد آتی ہے۔ وہ کہتی تھی، "پُت، دنیا دے لوک سُکھ تلاش کردے نیں دوجیاں کول، پر سُکھ تاں اوہ ویلے ملدا جے جدوں تُسی اپنے دل نوں صاف کر لو"۔
یہ بات کسی کتابی فقرے کی طرح نہیں لگتی۔ یہ تو زندگی کے پکے تیل میں تلی ہوئی بات ہے، جو صرف وہی کہہ سکتا ہے جس نے دکھ جھیلے ہوں اور ان دکھوں سے علم کا شربت نچوڑ لیا ہو۔
مائی نُوراں کا فلسفہ سادہ تھا، "کجھ وی برا نئیں، بس سمجھ نئیں آندی"۔
کتنی بڑی بات ہے یہ! انسان جو کچھ بھی برا سمجھتا ہے، وہ دراصل اُس کے ادراک کی کمی ہوتی ہے۔ مائی نُوراں کا یہ جملہ تو گویا پورے تصوف کا نچوڑ ہے۔ وہ کہتی تھی، "پُت، جے تواڈے ول آون والا دکھ، رب دا امتحان اے، تے تُسی صبر کر لو۔ ایہہ دکھ وی اک دن مٹھا لگے گا"۔
اس کے چہرے پر جب کوئی طنز کرتا، "ایہہ دیکھیے فلسفی عورت، نہ علم نہ ڈگری، پر گلّاں دنیا والیاں!"، تو وہ صرف ہنس دیتی اور کہتی، "پُت، جیہڑا لوکاں نوں خوش دیکھ کے خوش ہووے، اوہنوں رب دا علم آہی جاندا اے"۔
اور یہی اس کی اصل تعلیم تھی۔ خوشی بانٹنا، روشنی بانٹنا، انسان کو انسان سے جوڑنا۔
مائی نُوراں کا وجود ہمیں یاد دلاتا ہے کہ علم ہمیشہ کتابوں میں نہیں ہوتا، بعض اوقات وہ بھٹی کے دھوئیں میں، یا کسی مزدور کے پسینے میں چھپا ہوتا ہے۔ اشفاق احمد نے اسی لیے کہا تھا کہ اگر تمہیں خدا کو دیکھنا ہو تو بڑے بڑے درباروں پر نہ جاؤ، کسی بھٹی والے کے پاس بیٹھ جاؤ، کسی رکشے والے سے بات کر لو، کسی نان بائی سے پوچھ لو کہ زندگی کیا ہے۔ تمہیں رب کی جھلک مل جائے گی اور یہ سبق مائی نُوراں نے ہمیں سکھایا تھا۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں، مائی نُوراں کی زندگی دراصل پاکستان کی دیہی عورت کی ایک علامت تھی۔ جس کے پاس دولت نہیں، مگر دل میں سخاوت ہے۔ جو خود بھوکی ہے مگر مہمان کے لیے دانے بھونتی ہے۔ جو اپنی بھٹی کی آگ میں دنیا کی سرد مہری کو جلا دیتی ہے اور یہی عورت اس ملک کی اصل طاقت ہے۔
اشفاق احمد نے مائی نُوراں کو محض کردار نہیں بنایا، بلکہ ایک آئینہ بنایا جس میں ہم اپنی روح کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔
آج جب دنیا کے ہر دروازے پر علم کے بورڈ لٹکے ہیں، ہر ہاتھ میں موبائل ہے، ہر ذہن معلومات سے بھرا ہوا ہے، مگر دل خالی ہیں۔ ایسے میں مائی نُوراں کا فلسفہ پھر سے زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی تھی، "پُت، علم اوہ نئیں جیہڑا زُبان تے بولے، علم اوہ جیہڑا دِل نوں نِرماں کرے"۔
کیا عجب بصیرت تھی اس عورت کو! شاید وہ جانتی تھی کہ آنے والے زمانوں میں انسان معلومات تو جمع کر لے گا مگر سکون کھو دے گا اور وہ سکون تبھی لوٹے گا جب انسان پھر سے بھٹی پر بیٹھے گا، اپنے اندر کے دانے بھون کر اُنہیں سچائی کی خوشبو دے گا۔
مائی نُوراں کی سادگی دراصل تصوف کی عین شکل تھی۔ اس نے دنیا کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ وہ جو بانٹتے ہیں اور وہ جو مانگتے ہیں اور خود ہمیشہ بانٹنے والوں میں رہی۔
وہ کہا کرتی تھی، "پُت، جے رب نے تینوں دو وقت دی روٹی دیتی اے، تے ایہہ نئیں سوچنا کہ خوش قسمت توں ایں، سوچ ایہہ کہ اوہ بندہ کِنّا بھوکھا ہووے گا جیہڑا ایہہ وی نئیں لبھ سکدا۔ تے جدوں تُسی ایہہ سوچ لو، تے تواڈا ایمان مکمل ہو جاوے گا"۔
یہ جملے کائنات کے کسی بڑے مدرسے کی تعلیم سے کم نہیں۔ اس کے فلسفے میں علم بھی تھا، عشق بھی اور عمل بھی۔ وہ ہر آنے والے کو ایک سبق دے کر رخصت کرتی۔ کبھی دعا کی صورت میں، کبھی ہنسی کی صورت میں، کبھی بھنے ہوئے دانوں کی خوشبو میں۔
اگر آج اشفاق احمد زندہ ہوتے تو شاید کہتے، "ہم مائی نُوراں کھو بیٹھے ہیں"۔
واقعی، آج کے زمانے میں مائی نُوراں جیسی روحیں کم ہوگئی ہیں۔ ہم سب بھٹی پر بیٹھنے والے نہیں، بھٹی جلانے والے بن گئے ہیں۔ ہم دانے بھوننے کی بجائے دل جلانے لگے ہیں۔ ہم سوال تو کرتے ہیں مگر جواب کے لیے خاموش نہیں بیٹھتے اور شاید یہی ہماری سب سے بڑی محرومی ہے۔ ہم نے اپنی "مائی نُوراں" کھو دی ہے۔
مائی نُوراں ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی کی اصل دولت تعلق ہے، خلوص ہے، خدمت ہے اور مسکراہٹ ہے۔ وہ کہتی تھی، "پُت، لوک جہاز اڑان دے شوقین نیں، میں تاں دعا اڑان دی شوقین آں۔ دعا جیہڑی اوپر جا کے رب کول جاوے تے واپس کرم بن کے آوے"۔
کتنی خوبصورت سوچ ہے۔ شاید یہی وہ سوچ ہے جو آج کے انسان کو پھر انسان بنا سکتی ہے۔
اشفاق احمد نے جب اسے امر کیا تو دراصل اس عورت کے ہاتھوں سے اٹھتا ہوا دھواں انسانی ضمیر میں اتر گیا۔ مائی نُوراں بھٹی پر دانے بھونتی تھی، مگر اس کے الفاظ آج بھی دلوں کو بھون رہے ہیں۔ تپش دے رہے ہیں، نرمی دے رہے ہیں اور زندگی کا اصل ذائقہ سمجھا رہے ہیں۔
آخر میں بس اتنا کہنا ہے:
اے سانوں مائی نُوراں نے سکھایا۔
کہ بھٹی کی آگ میں بھی روشنی ہو سکتی ہے۔
کہ سیاہ چہرے میں بھی نور چھپا ہوتا ہے۔
کہ دانے بانٹنے والے، دنیا کے سب سے امیر لوگ ہوتے ہیں۔

