Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Anar Ka Ishq Aur Insani Khoon Ka Raz

Anar Ka Ishq Aur Insani Khoon Ka Raz

انار کا عشق اور انسانی خون کا راز

انار کوئی عام پھل نہیں، یہ ایک راز ہے۔ سرخ، پختہ، دانہ دار، چمکتا ہوا، گہری خاموشی سے اپنی جھولی میں پوری فطرت کا علم چھپائے بیٹھا، جیسے کوئی درویش جو دنیا سے ہنستا مسکراتا چھپا ہو، لیکن باطن میں سچائی، طاقت، شفا اور خوبصورتی کا خزانہ لیے بیٹھا ہو۔ انار جب کٹتا ہے تو انسان کو خود پر شک ہونے لگتا ہے کہ وہ واقعی گوشت پوست کا بنا ہے یا کسی جادوئی پھل کے خواب میں جی رہا ہے۔ انار کا دانہ جب چمچ میں آتا ہے تو لگتا ہے جیسے کسی شاہی خزانے کے یاقوت نکل آیا ہو۔ ایک ایسا پھل جو صرف کھایا نہیں جاتا، بلکہ محسوس کیا جاتا ہے اور اگر غور سے چبایا جائے تو لگتا ہے کہ ہر دانے سے کوئی پوشیدہ راز نچڑ کر روح میں اتر رہا ہے۔

انار کے ساتھ انسان کا رشتہ صرف ذائقے کا نہیں، بلکہ فطرت کے توازن کا ہے۔ یہ وہ پھل ہے جس کے ذائقے میں میٹھا اور ترش دونوں پہلو یکجا ہوتے ہیں اور یہی زندگی کی اصل پہچان ہے۔ انسان کے دن بھی کبھی میٹھے، کبھی ترش، کبھی کڑوے اور کبھی بے ذائقہ ہوتے ہیں، مگر اگر اس سب کو ایک توازن میں سمیٹا جائے تو ذائقہ اناری بن جاتا ہے۔ انار ہمیں سکھاتا ہے کہ صرف مٹھاس ہی زندگی نہیں، بلکہ ہر دانے میں تھوڑی سی تیزی، تھوڑا سا کھٹاپن اور ایک ذرا سا سرور بھی ہونا چاہیے تاکہ روح جاگتی رہے، بدن رواں رہے اور دل مسلسل دھڑکتا رہے۔

انار کا عشق پرانا ہے، اتنا پرانا کہ جب مصر کے فرعون اپنی لاشیں دفناتے تھے تو ان کے ساتھ انار رکھے جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ انار کو موت کے بعد والی دنیا میں زندگی کی علامت سمجھتے تھے۔ یونانی دیومالا میں انار کو زرخیزی، محبت اور حسن کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ مسلمانوں کے ہاں انار جنت کا پھل ہے۔ قرآن پاک میں اس کا ذکر ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں انار کے فائدے بیان کیے گئے ہیں اور ہمارے گھریلو نسخوں میں انار کا استعمال کسی طبیب کی زبان سے کم نہیں ہوتا۔ یہ کوئی معمولی چیز تھوڑی ہے! انار کا ہر دانہ اپنے اندر خون کے ہزاروں قطرے لیے ہوتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ انسان کے خون سے اس کا رشتہ اتنا گہرا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اگر روز ایک انار کھایا جائے تو جسم میں خون کی کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سچ کہوں تو انار محض خون ہی نہیں بناتا، وہ خون کو نکھارتا ہے، صاف کرتا ہے، رواں کرتا ہے۔ ایسے جیسے کوئی ماہر درزی پرانے کپڑے کو دھو کر، رنگ کر، استری کرکے نئے کپڑے جیسا کر دے۔ جن کے جسم میں سستی، تھکن، بے چینی اور بے جان سی اداسی بسی ہو، انار ان کے بدن میں خوشی کا ہلکا سا شعلہ جلا دیتا ہے۔ لیکن یہ شعلہ صرف جسمانی نہیں ہوتا، یہ روحانی بھی ہوتا ہے۔ انار کا رس جب حلق سے اترتا ہے تو لگتا ہے جیسے دل میں روشنی کا کوئی قطرہ گرا ہو۔ شاید اسی لیے انار صرف جسم کے لیے نہیں، دل کے لیے بھی ہوتا ہے۔

ہمارے دیہاتوں میں انار کے درخت کے نیچے بیٹھنے کو روحانی تسکین کہا جاتا ہے۔ انار کے پتوں سے دم کیا جاتا ہے۔ انار کا رس بیمار بچوں کو دیا جاتا ہے تاکہ ان میں جان پڑ جائے۔ انار کے دانوں سے چٹنی بنتی ہے، جو صرف زبان کا نہیں، طبیعت کا ذائقہ بدل دیتی ہے۔ کچھ گھروں میں انار کے دانوں کو خشک کرکے چورن بنایا جاتا ہے اور جب وہ چورن کھایا جاتا ہے تو لگتا ہے جیسے جسم کے بند دروازے کھل رہے ہوں، جیسے اندر کا نظام پھر سے رواں ہو رہا ہو۔

لیکن انار کا اصل جادو تب ظاہر ہوتا ہے جب اسے مکمل توجہ سے کھایا جائے۔ ہاتھ میں پکڑا جائے، چھری سے چھیلا جائے، چار حصوں میں بانٹا جائے اور ہر دانے کو الگ الگ نکالا جائے۔ یہ ایک عبادت کی طرح کا عمل ہے۔ انار کھانے والا جلد باز ہو ہی نہیں سکتا۔ جو انار سے عشق کرتا ہے، وہ صبر سیکھتا ہے، ترتیب سیکھتا ہے، خوبصورتی کو قسطوں میں لینے کا فن سیکھتا ہے۔ انار کھانا دراصل ایک نفسیاتی ریاضت بھی ہے، یہ دل کی دھڑکنوں کو قابو میں لاتا ہے، ہاتھوں کو کام میں لگاتا ہے، آنکھوں کو رنگ بخشتا ہے اور زبان کو ذائقے کا تہذیبی شعور عطا کرتا ہے۔

انار ہمیں سکھاتا ہے کہ خوبصورتی ظاہر میں نہیں، باطن میں ہوتی ہے۔ باہر سے دیکھیں تو انار میں کوئی خاص بات نہیں، ایک سخت چھلکا، کسی بھی پھل جیسی عام سی ساخت، لیکن اندر جھانکیں تو حیرت کے دروازے کھلتے ہیں۔ بس یہی سبق ہے زندگی کا بھی۔ ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی انار چھپا ہوتا ہے، بس نظر چاہیے، ذرا سی محبت چاہیے اور وہ اندر کا خزانہ باہر آ جاتا ہے۔ اگر ہم انار کی طرح اپنے اردگرد کے لوگوں کو بھی توجہ سے دیکھیں، محبت سے چھیلیں، تو شاید ہمیں بھی ان کے اندر چھپے حسن کے دانے نظر آ جائیں۔

انار کے ساتھ یادیں بھی جڑی ہوتی ہیں۔ بچپن میں اکثر اماں چھلکا اتار کر ہمیں چمچ سے انار کے دانے کھلاتی تھیں، ہم گڑ گڑاتے کہ پورا انار کھانا ہے اور اماں ایک پیالے میں آدھا ہی ڈال کر کہتیں، "زیادہ کھایا تو حلق بیٹھ جائے گا، گرم ہوتا ہے" اور ہم جل بھن کر باقی کا انار چپکے سے اُٹھا لیتے۔ تب ہمیں نہیں پتا ہوتا تھا کہ انار صرف ایک پھل نہیں، ماں کے ہاتھ کا پیار بھی ہے۔ انار میں وہ لمس ہے جو ماں کے ہاتھ کے بغیر نہیں آتا۔ شاید اسی لیے بڑے ہو کر بھی انار کھاتے ہوئے وہی بچپن کی خوشبو سانسوں میں اترتی ہے اور دل کہتا ہے کہ کوئی ہو جو اپنے ہاتھوں سے دانے نکال کر دے۔

انار کو لے کر شاعری بھی کی گئی، نثر بھی، مصوری بھی۔ مشہور فارسی شاعر حافظ نے انار کو حسنِ یار کی علامت بنایا۔ اردو شاعری میں انار کی سرخی کو ہونٹوں کی تشبیہ دی گئی۔ صوفیا نے انار کو باطنی وحدت کا استعارہ کہا، کہ بے شمار دانے، مگر ایک ہی چھلکے میں جڑے ہوئے، جیسے انسانیت کے رنگ مختلف، مگر ماخذ ایک۔ انار کا درخت جب پھل سے لد جاتا ہے تو لگتا ہے جیسے زمین نے آسمان کی کوئی قیمتی چیز چرا لی ہو اور جب درخت خالی ہوتا ہے، تو اداسی میں ڈوبا ہوا، بوسیدہ، خاموش۔ انسان بھی تو یہی ہے، جب تک دل میں جذبے ہوں، خون گرم ہو، محبت جاگتی ہو، تب تک انار کی طرح شاداب اور جب دل ویران ہو جائے، تو درخت بھی سونا، انسان بھی۔

جدید سائنسی تحقیق بھی انار کی تعریف کرتے نہیں تھکتی۔ دل کے مریضوں کے لیے، ہائی بلڈ پریشر والوں کے لیے، کینسر سے بچاؤ کے لیے، گردے، جگر، آنتیں، دماغ، سب کے لیے انار کو معجزاتی پھل کہا جاتا ہے۔ ایک گلاس انار کا جوس کئی دواؤں سے بہتر ہے۔ ورزش کرنے والے نوجوان، جو جم میں پسینے بہاتے ہیں، ان کے لیے انار قدرتی توانائی ہے۔ بوڑھے، جنہیں کمزوری نے نڈھال کر رکھا ہو، ان کے لیے انار ایک امید ہے۔ عورتیں، جو خون کی کمی، جلد کی خرابی یا اندرونی کمزوری کا شکار ہوں، ان کے لیے انار ایک نسخہ ہے اور بچے، جن کا مدافعتی نظام ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا ہو، ان کے لیے انار ایک ہمدرد باپ کی مانند ہے جو خاموشی سے سہارا دیتا ہے۔

مگر سچ یہ ہے کہ انار صرف جسم کی غذا نہیں، روح کی بھی دوا ہے۔ یہ آپ کے اندر کے خالی پن کو بھرتا ہے۔ دن کی تھکن، زندگی کی اداسی، موسموں کی سستی، محبتوں کی کمی، ان سب کے بیچ جب آپ انار کا پہلا دانہ چباتے ہیں تو جسم کے ساتھ دل بھی جاگ اٹھتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے کسی پرانی محبت کی یاد نے سانسوں کو خوشبو دے دی ہو، جیسے کوئی دھیمی سرگوشی آپ کے کانوں میں آ کر کہتی ہو کہ زندگی اب بھی ذائقہ رکھتی ہے۔

انار ہمیں خاموشی سے وہ کچھ سکھا دیتا ہے جو بڑے بڑے فلسفیوں کی کتابیں نہیں سکھا پاتیں۔ صبر، ترتیب، خوبصورتی، باطن، سچائی، روشنی اور ذائقے کی تہذیب۔ اس کے دانے صرف پھل نہیں، ایک ایک سرخ موتی ہے جو ہمارے خمیر میں پیوست ہے۔ انسان کا خون اور انار کا رس، دونوں ایک جیسے ہیں۔ ایک جسم کو چلاتا ہے، دوسرا روح کو جگاتا ہے۔

اس لیے اگر کبھی زندگی بے ذائقہ لگے، دنیا بے رنگ، محبت بے تاثیر، تو ایک انار چھیل کر بیٹھ جائیں۔ دانے چنیں، چمچ سے کھائیں، رس کو سانسوں میں بسائیں اور پھر خود سے پوچھیں، کیا واقعی زندگی اتنی سادہ، اتنی خوبصورت اور اتنی لذیذ نہیں جتنا یہ انار؟

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed