Amrita Sher Gil Ke Brush Ki Sargoshiyan
امرتا شیر گِل کے برش کی سرگوشیاں

امرتا شیر گِل برصغیر کی تاریخ میں ایک بے مثال نام ہے۔ وہ فنکارہ جس نے محض 28 برس کی مختصر زندگی میں وہ کارنامہ سرانجام دیا جس تک دوسرے پوری عمر میں بھی نہیں پہنچ پاتے۔ اس کی تخلیقات، اس کی شخصیت، اس کا دکھ، اس کی بغاوت، اس کی نسائیت، اس کی جمالیات، سب کچھ اس قدر گہرا، شدید اور سچا تھا کہ آج بھی اس کے بنائے ہوئے چہرے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم پرانی دنیا کی روحوں سے بات کر رہے ہوں۔ اس کی تصویروں میں جو اداسی ہے وہ عام اداسی نہیں، وہ ایک ایسے ذہن کی خاموش چیخ ہے جس نے اپنے اندر دو تہذیبوں کو یکجا پایا۔ ایک ہندوستان کی دھرتی، ایک یورپ کی نفاست۔ مگر دونوں میں سے وہ کسی ایک کی نہ بن سکی۔ شاید یہی عدمِ تعلق اسے اس قدر عظیم فنکارہ بنا گیا۔ امرتا کی زندگی ایک ایسے ناول کی طرح ہے جس کا ہر صفحہ کسی نئے کرب، کسی نئی روشنی، کسی نئے انکشاف سے بھرپور ہے۔
امرتا 1913 میں بودھن میں پیدا ہوئی۔ والد سردار امراؤ سنگھ، ایک فلسفی مزاج سکھ زمیندار اور والدہ ماریّا انتونیٹ، ہنگری کی ایک پرفارمر اور گلوکارہ، یوں امرتا کے وجود میں مشرق و مغرب کی وہ پوری کشمکش سمٹ آئی جس نے اس کی پوری زندگی کے رنگ متعین کیے۔ بچپن پیرس کی روشنیوں اور ڈسپلن میں گزرا مگر دل کہیں نہ کہیں ہندوستان کی دھرتی سے جڑا رہا۔ جب وہ واپس ہندوستان آئی تو یہاں کی غربت، محرومی، کسمپرسی اور چہرے پر لکھا ہوا دکھ اس کے دل میں یوں اتر گیا جیسے کوئی پرانا زخم دوبارہ کھل گیا ہو اور یہی وہ مقام ہے جہاں امرتا کا فن ایک دھار پکڑتا ہے۔ اس کے برش نے ہندوستان کے دیہات کو پہلی بار اس طرح پیش کیا جیسے کوئی ماں اپنے بچوں کے آنسو پونچھتی ہے۔ امرتا نے پینٹنگ میں صرف خوبصورتی نہیں دکھائی بلکہ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے خوبصورتی کو غم، غربت اور انسانی تکلیف کے ساتھ جوڑ دیا۔ اسی لیے اس کی ہر تصویر کے پیچھے ایک کہانی ہے، ایک سوال ہے اور ایک ایسی خاموش تکلیف ہے جو دل میں اتر کر بیٹھ جاتی ہے۔
امرتا کا فنی سفر اس قدر بےخوف تھا کہ اس نے کسی روایت، کسی اصول اور کسی پابندی کو تسلیم نہیں کیا۔ اس نے عورت کو محض ایک خوبصورت شے کی طرح نہیں دکھایا بلکہ ایک جیتا جاگتا وجود بنایا۔ زندگی سے بھرپور، دکھ سے بھاری، خواہشوں سے بوجھل اور حقیقت سے گہرا۔ اس کے "وومن آن دی چارپائی"، "برائیڈز ٹائیلٹ" اور "ہِل وومن" آج بھی اس حقیقت کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ امرتا نے عورت کی روح میں جھانک کر اسے رنگوں میں ڈھالا۔ وہ عورتوں کے چہروں پر وفاداری کی بجائے تھکن دکھاتی تھی، محبت کی بجائے انتظار دکھاتی تھی، نزاکت کی بجائے حقیقت دکھاتی تھی۔ یہی وہ سچ تھا جس نے امرتا کو بغاوت کی علامت بنا دیا۔ اس نے سکھایا کہ فنکار کا اصل کام وہ دکھ دکھانا ہے جس سے دنیا نظریں چرا لیتی ہے۔ وہ فن کی اس معصومیت پر یقین نہیں رکھتی تھی جو صرف خوشی دکھائے۔ اس کے نزدیک فن وہی ہے جو چبھتا ہو، سوال اٹھاتا ہو، جگاتا ہو اور انسان کے اندر چھپے ہوئے تضادات کو بے نقاب کرتا ہو۔
امرتا کی زندگی کا دوسرا پہلو اس کی ذاتی بےچینی تھی۔ وہ ایک ایسی روح تھی جو کبھی قرار میں نہیں رہی۔ اس نے محبت تلاش کی مگر مکمل نہ مل سکی۔ اس نے قبولیت چاہی مگر پوری طرح نصیب نہ ہوئی۔ اس نے دنیا دیکھی، شہرت دیکھی، چاہت دیکھی مگر آخر میں اپنے کمرے میں تنہا مر گئی۔ صرف اٹھائیس برس کی عمر میں۔ اس کی موت آج تک ایک معمہ ہے۔ کچھ اسے بیماری کہتے ہیں، کچھ زہریلی ادویات، کچھ اس کی ازدواجی زندگی کا دباؤ، مگر حقیقت یہ ہے کہ اتنا شدید فن رکھنے والے لوگ شاید خود ہی اپنے وزن تلے دب جاتے ہیں۔ امرتا کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ عظمت کی قیمت بہت بھاری ہوتی ہے۔ یہ قیمت اکثر ذہنی تنہائی، داخلی جنگ اور مسلسل جستجو میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ امرتا بھی یہی قیمت ادا کرتے کرتے تھک گئی تھی۔ مگر وہ تخلیقی بھڑک جو اس کے اندر جلتی تھی، وہ آج بھی بجھی نہیں۔ اس کے مرنے کے بعد دنیا کو اندازہ ہوا کہ وہ کیا تھی۔ ایک ایسا جوہر جس کا کوئی بدل نہیں، ایک ایسا فن جو کسی اور کو عطا نہیں ہوا۔
امرتا شیر گِل آج بھی زندہ ہے۔ اس کی تصویروں میں، اس کی خاموشیوں میں، اس کی لائنوں میں، اس کی اداس آنکھوں میں، اس کے برش کی سرگوشیوں میں۔ وہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ فن صرف رنگ ملانے کا نام نہیں بلکہ زندگی کے دکھ اور سچائی کو کینوس پر اتارنے کا نام ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ سچا فنکار کبھی آسان راستوں کا مسافر نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ درد کے رستے پر چلتا ہے۔ امرتا اس درد کی ملکہ تھی۔ اس نے اپنا دکھ دنیا کو دے دیا اور اسی دکھ نے اسے ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ آج اس کا نام نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کی عظیم ترین مصوراؤں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی تصاویر عجائب گھروں میں نہیں، دلوں میں محفوظ ہیں۔ وہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ کبھی کبھی مختصر زندگی بھی اتنی گہری اور وسیع ہوتی ہے کہ صدیوں تک اثر چھوڑ جاتی ہے۔
امرتا شیر گِل کی تخلیق، اس کی شخصیت، اس کا دکھ اور اس کا جنون، یہ سب مل کر اسے تاریخ کی ایک واحد مثال بناتے ہیں۔ وہ صرف ایک مصورہ نہیں تھی، وہ ایک تحریک تھی، ایک سوال تھی، ایک احتجاج تھی، ایک آئینہ تھی جس میں ہندوستان نے پہلی بار اپنی اصل شکل دیکھی۔ وہ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ زندگی چاہے کتنی بھی مختصر کیوں نہ ہو، اگر اس میں تخلیق کی آگ جلتی رہے تو انسان ہمیشہ کے لیے زندہ رہ جاتا ہے۔ امرتا نے ہمیں رنگوں سے یہ سبق دیا کہ سچائی جتنی تلخ ہو، اتنی ہی طاقتور بھی ہوتی ہے۔ اس نے دنیا کو بتایا کہ فنکار مر جاتے ہیں، لیکن ان کا فن نہیں مرتا اور واقعی امرتا شیر گِل آج بھی زندہ ہے، ہر اس دل میں جس میں جمالیات کا احساس ہے، ہر اس آنکھ میں جس میں دکھ دیکھنے کی ہمت ہے اور ہر اس ذہن میں جس میں سوال اٹھتے ہیں۔ وہ آج بھی ہمیں سبق دیتی ہے کہ زندگی کے رنگ صرف چمکدار نہیں ہوتے، بعض رنگ اداسی سے بھی بنتے ہیں اور وہی رنگ سب سے زیادہ دیرپا ہوتے ہیں۔

