Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. America Se Taluqat, Koile Se Khelne Ke Mutradif

America Se Taluqat, Koile Se Khelne Ke Mutradif

امریکہ سے تعلقات، کوئلے سے کھیلنے کے مترادف

دنیا کی سیاست میں کچھ حقیقتیں ایسی ہیں جو وقت کے دھارے میں بار بار اپنے آپ کو دہراتی ہیں۔ طاقت کے نشے میں جھومتی ہوئی سلطنتیں اپنی کمزور حلیف ریاستوں کو ہمیشہ اسی نگاہ سے دیکھتی ہیں جیسے شکاری اپنے شکار کو دیکھتا ہے۔ وہ تعلقات کے نام پر مسکراہٹیں بکھیرتی ہیں، ہاتھ بڑھاتی ہیں، دوستی کے گیت گاتی ہیں، لیکن ان سب کے پیچھے اصل مقصد صرف اور صرف اپنے مفاد کا تحفظ ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بھی ایک ایسا دور آیا جب ہمارے ایک حکمران نے بڑے سادہ مگر نہایت گہرے الفاظ میں یہ حقیقت آشکار کی کہ امریکہ سے تعلقات رکھنا کوئلے سے کھیلنے کے مترادف ہے اور کوئلے سے کھیلنے والے کا مقدر سوائے سیاہی کے کچھ نہیں ہوتا۔ اس ایک جملے میں دہائیوں کا تجربہ، قوموں کے عروج و زوال کی کہانی اور بین الاقوامی تعلقات کی تلخ حقیقت سمٹ آئی ہے۔

پاکستان جب دنیا کے نقشے پر ابھرا تو اسے اپنے وجود کے پہلے دن ہی مشکلات کے پہاڑ کا سامنا تھا۔ ایک طرف اقتصادی وسائل کی کمی تھی، دوسری طرف دشمن کی سازشیں۔ ایسے میں عالمی طاقتوں کی طرف دیکھنا ایک فطری امر تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان طاقتوں نے پاکستان کو کس نظر سے دیکھا؟ کیا وہ پاکستان کو ایک آزاد ریاست سمجھتے تھے جس کی اپنی خودداری اور وقار ہے، یا پھر اسے ایک مہرہ تصور کرتے تھے جسے کسی وقت بھی اپنی چالوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ وقت نے بارہا ثابت کیا کہ امریکہ جیسے ملکوں کے نزدیک کمزور قوموں کی حیثیت صرف اتنی ہوتی ہے کہ وہ ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے کام آئیں اور جب ان کی ضرورت پوری ہو جائے تو انہیں فراموش کر دیا جائے۔

افغانستان کی جنگ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ روس کے خلاف امریکہ کو ایک ایسی سرزمین درکار تھی جہاں وہ اپنے مقصد کی تکمیل کر سکے اور پاکستان اس کے لیے بہترین چوائس تھا۔ پاکستان نے اپنی سرزمین، اپنے ادارے، اپنے نوجوان سب کچھ اس آگ میں جھونک دیا۔ امریکہ نے بھرپور تعاون کے وعدے کیے، وسائل بہائے اور دنیا کو یہ تاثر دیا کہ وہ پاکستان کا سب سے بڑا دوست ہے۔ لیکن جیسے ہی روس کی شکست مکمل ہوئی، امریکہ نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔ وہی پاکستان جس نے اپنی معیشت تباہ کر لی، جس نے لاکھوں مہاجرین کا بوجھ اٹھایا، جس نے دہشت گردی کی لہر کو برداشت کیا، اچانک اس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں، امداد روک دی گئی اور پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا جانے لگا۔ یہ وہی موقع تھا جب یہ جملہ اپنی پوری معنویت کے ساتھ حقیقت کا آئینہ دار بنا کہ امریکہ سے تعلقات کوئلے سے کھیلنے کے مترادف ہیں۔

اس تمثیل کی گہرائی پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئلے سے کھیلنے والے کے ہاتھ کبھی صاف نہیں رہ سکتے۔ چاہے وہ احتیاط کے ہزار پہلو اختیار کرے، چاہے وہ خود کو بچانے کی کوشش کرے، آخرکار اس کے ہاتھ اور چہرہ ضرور کالے ہوں گے۔ اسی طرح امریکہ سے تعلقات رکھنے والا ملک کتنا ہی محتاط کیوں نہ ہو، آخرکار اس کی خودمختاری مجروح ہوتی ہے، اس کی معیشت دباؤ میں آتی ہے، اس کی پالیسیوں پر اثر پڑتا ہے اور اس کی عزت و وقار دنیا کے سامنے مجروح ہو جاتی ہے۔ طاقتور ہمیشہ طاقتور رہتا ہے اور کمزور ہمیشہ کمزور۔ یہ وہ اصول ہے جو بین الاقوامی سیاست میں صدیوں سے چلتا آ رہا ہے۔

پاکستان کے عوام نے بارہا یہ دیکھا کہ جب بھی امریکہ نے کسی چیز کی ضرورت محسوس کی، وہ پاکستان کے دروازے پر آیا، بڑے وعدے کیے، بڑے دعوے کیے اور جیسے ہی مقصد پورا ہوا، پلٹ کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ پاکستان نے ستر ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی، اپنی معیشت کو کھوکھلا کر دیا، مگر امریکہ کی نظر میں پاکستان ہمیشہ کافی نہیں کر رہا، کے طعنے کا مستحق رہا۔ یہ وہ طرزِ عمل ہے جسے ایک حکمران نے نہایت سادہ الفاظ میں بیان کر دیا تھا کہ کوئلے سے کھیلنے کا انجام صرف اور صرف سیاہی ہے۔

اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں تو یہ حقیقت اور بھی نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی کسی قوم کے ساتھ حقیقی دوستی نہیں کی۔ وہ ہمیشہ وقتی مفاد کو سامنے رکھ کر تعلقات قائم کرتا ہے۔ ویتنام ہو یا عراق، ایران ہو یا افغانستان، ہر جگہ اس نے اپنے مقاصد پورے کرنے کے بعد پیچھے ہٹنے میں دیر نہیں لگائی۔ دوستوں کو تنہا چھوڑ دینا، وعدوں سے پھر جانا اور اپنے ہی سابقہ اتحادیوں کو دشمن کے خانے میں ڈال دینا، یہ سب امریکہ کی پالیسی کا حصہ رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے ایک حکمران کا یہ کہنا کہ امریکہ سے تعلقات رکھنا کوئلے سے کھیلنے کے مترادف ہے، نہ صرف اپنی قوم کے لیے وارننگ تھی بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک سبق تھا۔

اس حقیقت کا ادراک ہمیں آج کے حالات میں بھی ہونا چاہیے۔ دنیا بدل گئی ہے، طاقت کے مراکز تبدیل ہو رہے ہیں، لیکن امریکہ کی پالیسی کی بنیاد وہی ہے۔ وہ آج بھی اپنے مفاد کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو خودداری اور خود انحصاری کے اصولوں پر استوار کرے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی بھی بڑی طاقت کے سائے میں رہ کر کبھی ترقی ممکن نہیں۔ اصل ترقی اسی وقت ہوگی جب ہم اپنی قوم کے وسائل کو خود استعمال کرنا سیکھیں گے، اپنی پالیسیاں خود بنائیں گے اور دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے دوسروں کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات قائم کریں گے۔

قوموں کی عزت و وقار اسی وقت محفوظ رہتی ہے جب وہ دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کریں۔ امریکہ ہو یا کوئی اور ملک، اگر ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں تو دنیا ہماری عزت کرے گی۔ لیکن اگر ہم ہمیشہ دوسروں کی امداد اور ان کے فیصلوں کے محتاج رہیں گے تو ہمیں وہی نصیب ہوگا جو کوئلے سے کھیلنے والے کا ہوتا ہے۔ اس کے ہاتھ اور چہرے کی سیاہی کبھی مٹتی نہیں، چاہے وہ کتنا ہی دھو لے۔

یہ جملہ محض ایک شخص کی زبان سے نکلا ہوا فقرہ نہیں تھا، یہ ایک پوری قوم کے تجربے کی صدا تھی، ایک سبق تھا، ایک وارننگ تھی۔ آج ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھا ہے یا اب بھی ہم اسی سیاہی کو اپنی قسمت کا حصہ بنائے بیٹھے ہیں۔ اگر ہم نے اپنی راہوں کو درست نہ کیا تو آنے والے وقت میں بھی ہمارا حال یہی ہوگا کہ ہم دوسروں کے کھیل کا مہرہ بنے رہیں گے اور اپنی شناخت کھوتے رہیں گے۔

امریکہ سے تعلقات کوئلے سے کھیلنے کے مترادف ہیں اور اس تمثیل میں ہماری تاریخ کا نچوڑ چھپا ہوا ہے۔ قوموں کو چاہیے کہ وہ دوسروں کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے کے بجائے اپنی آنکھ سے حقیقت کا جائزہ لیں۔ خودداری، خود انحصاری اور اپنی سرزمین پر اعتماد ہی وہ راستہ ہے جو کسی قوم کو عزت و وقار کے ساتھ زندہ رکھتا ہے۔ اگر ہم نے یہ راستہ اختیار کر لیا تو نہ ہاتھ کالے ہوں گے نہ چہرہ، بلکہ ایک نئی روشنی اور نیا وقار ہماری پہچان ہوگا۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan