Aman Ki Kiran Aur Hamari Soch
امن کی کرن اور ہماری سوچ

دنیا کے حالات آج جس موڑ پر کھڑے ہیں وہاں ایک طرف مایوسی کے اندھیرے ہیں تو دوسری طرف امید کی روشنی بھی جھلملاتی نظر آتی ہے۔ انسان جب کسی بڑی تبدیلی کے دہانے پر کھڑا ہوتا ہے تو اس کے سامنے ہمیشہ دو راستے ہوتے ہیں: ایک شکایت اور مایوسی کا اور دوسرا شکر اور امید کا۔ سوال یہ ہے کہ ہم بطور امت، بطور انسانیت اور بطور ایک ذمے دار معاشرہ کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں؟ ہم صرف ایک منفی پہلو کو پکڑ کر ماتم کرتے ہیں یا بیس میں سے ایک مثبت پہلو کو بنیاد بنا کر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور باقی انیس کو بھی اپنی دعا اور جدوجہد سے مثبت بنانے کی کوشش کرتے ہیں؟
حالیہ دنوں میں امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو 20 نکاتی خاکہ پیش کیا ہے، اس پر دنیا بھر میں بحث جاری ہے۔ اس خاکے میں کئی شقیں ایسی ہیں جو اگرچہ مکمل اور حتمی نہیں لیکن امن کی ایک جھلک دکھاتی ہیں۔ خاص طور پر غزہ میں قیام امن کی بات ایک ایسی کرن ہے جو برسوں کے اندھیروں میں امید جگاتی ہے۔ بلاشبہ اس خاکے کی شق نمبر 9 میں ایک ایسی بات بھی درج ہے جس پر تنقید کی جا رہی ہے کہ گویا غزہ پر حکومت خود فلسطینی عوام کے بجائے اسرائیلی وزیرِاعظم کے ہاتھ میں ہو۔ یہ نقطہ یقیناً ناقابلِ قبول اور تشویش ناک ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم صرف اسی ایک پہلو کو پکڑ کر سارے ڈھانچے کو مسترد کر دیں یا ان باقی مثبت نکات کو دیکھیں جو آنے والے وقت میں ہمارے لیے خیر اور بھلائی کا دروازہ کھول سکتے ہیں؟
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اکثر مایوسی کے عینک سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ہم بیس میں سے ایک منفی پہلو نکال کر باقی انیس کو بھول جاتے ہیں۔ یہ رویہ ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی معاملے میں ایک چھوٹی سی خیر بھی عطا فرما دے تو وہ خیر ہی ہمارے لیے بنیاد اور نقطہ آغاز بن سکتی ہے۔ اصل امتحان یہی ہے کہ ہم شکریہ ادا کریں، مثبت پہلو پر نگاہ رکھیں اور اللہ کی رحمت سے توقع کریں کہ باقی منفی پہلو بھی مثبت میں بدل جائیں گے۔
ہمیں جاپان کی مثال یاد رکھنی چاہیے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان مکمل طور پر تباہ ہوگیا تھا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی انسانیت کے لیے قیامت سے کم نہ تھی۔ جاپان ہارا ہوا ملک تھا، اس کے پاس طاقت، دولت، معیشت، سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ فاتح قوم نے اس پر اپنی مرضی کی ہر شرط مسلط کر دی۔ لیکن جاپانی قوم نے مایوسی کے بجائے حکمت کو اپنایا۔ انہوں نے ساری شرطیں قبول کر لیں، بس ایک گزارش کی کہ ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم اپنے بچوں کو اپنی زبان میں تعلیم دے سکیں۔ یہ چھوٹی سی خیر، یہ چھوٹا سا مثبت نکتہ ان کے لیے بنیاد بن گیا اور آج دیکھ لیجیے کہ جاپان دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ اس کے پاس ٹیکنالوجی ہے، وسائل ہیں، عزت ہے اور وقار ہے۔ یہ سب کچھ اس قوم کو ملا کیونکہ اس نے مایوسی کے بجائے شکر اور مثبت سوچ کو اپنا شعار بنایا۔
ہمارے لیے یہ لمحہِ فکریہ ہے۔ آج فلسطین، غزہ اور امتِ مسلمہ جن حالات سے گزر رہی ہے، وہ سب کے سامنے ہیں۔ خون، آگ، ظلم، بربادی اور لاشیں۔۔ لیکن ان اندھیروں میں اگر کہیں امن کی ایک کرن نظر آتی ہے تو ہمیں اسے تھامنا چاہیے۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ کم از کم بات امن کی ہو رہی ہے، چاہے وہ ابتدائی اور ادھوری ہو، لیکن کم از کم امن کا ذکر تو ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے، ایک موقع ہے، ایک آغاز ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم دعا، محنت، اتحاد اور حکمت سے اس چھوٹی سی کرن کو سورج کی روشنی میں بدلیں۔
دنیا کا نظام اسی طرح چلتا ہے۔ کوئی بڑی تبدیلی ایک دن میں نہیں آتی۔ امن ایک دن میں قائم نہیں ہوتا، خوش حالی ایک دن میں نہیں آتی، ترقی ایک دن میں نہیں ہوتی۔ سب کچھ تدریج سے ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے مثبت قدم بڑے راستے کھولتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ہم ان مثبت قدموں کو پہچانیں، انہیں قبول کریں، ان پر شکر ادا کریں اور ان کو بنیاد بنا کر مزید جدوجہد کریں۔
ہم اگر صرف شکایت اور مایوسی میں ڈوبے رہیں گے تو نہ صرف اپنے حوصلے پست کریں گے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی حوصلہ نہیں دے پائیں گے۔ ہمیں انہیں یہ سبق دینا ہے کہ بیس میں ایک بھی مثبت بات ہو تو وہ بھی اللہ کی رحمت ہے۔ اسی ایک پر شکر کرو، اسی کو تھامو، باقی انیس بھی اللہ کے کرم سے تمہارے حق میں ہو جائیں گے۔ ہمیں انہیں یہ بتانا ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنا سب سے بڑی نعمت ہے۔ اگر امن آجائے تو رزق بھی ملے گا، گھر بھی ملیں گے، سکون بھی ملے گا، عزت بھی ملے گی۔ امن کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں منفی پہلوؤں کو پہچاننا چاہیے لیکن ان میں گم نہیں ہو جانا چاہیے۔ ہمیں اپنی نظریں اس ایک مثبت پہلو پر رکھنی ہیں اور باقی کو بھی مثبت بنانے کی کوشش کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں اور دوں گا۔ یہی قانون ہے۔ یہی اصول ہے۔ یہی راستہ ہے۔
تصور کیجیے، اگر غزہ میں امن قائم ہو جائے تو کتنی زندگیاں بچیں گی، کتنے بچے سکول جائیں گے، کتنی مائیں اپنے بیٹوں کو واپس گلے لگائیں گی، کتنے باپ اپنے گھروں میں سکون پائیں گے۔ یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ہم امن کو بنیاد بنائیں اور مایوسی کو چھوڑیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر یہ ایک مثبت نکتہ مضبوط ہوتا ہے تو اس کے گرد باقی انیس بھی بدل جائیں گے۔ لوگ اپنے گھروں میں واپس آئیں گے، تعلیم عام ہوگی، روزگار بڑھے گا، صحت کی سہولتیں آئیں گی، عزت اور وقار بحال ہوگا۔ یہی وہ منزل ہے جس کے لیے ہمیں دعا بھی کرنی ہے اور محنت بھی۔
ہمیں اپنی قوم، اپنی امت اور اپنی نسلوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ امید ہے۔ امید کو مت چھوڑو۔ اللہ کی رحمت کو کبھی کم مت سمجھو۔ بیس میں ایک بھی مثبت پہلو ہو تو وہ اللہ کی عطا ہے۔ شکر ادا کرو، دعا کرو، محنت کرو۔ وہ ایک انیس بھی بن جائے گا اور جب بیس میں بیس مثبت ہو جائیں گے تو دنیا امن، خوش حالی اور سکون کا گہوارہ بن جائے گی۔

