Allama Iqbal Ki Farsi Shayari, Payam e Mashriq
علامہ اقبال کی فارسی شاعری، پیامِ مشرق

علامہ اقبال کی شاعری محض الفاظ کی مرصع کاری نہیں بلکہ ایک فکری سفر ہے، ایک ایسا سفر جو انسان کے باطن کی تہہ در تہہ پرتوں کو چھوتا ہے اور اسے اپنے وجود کے مقصد سے روشناس کراتا ہے۔ ان کا مجموعہ "پیامِ مشرق" اسی فکری ارتقاء کی ایک اہم کڑی ہے، جو 1923 میں شائع ہوا۔ یہ کتاب بظاہر گوئٹے کے "دیوانِ مغربی" کے جواب میں لکھی گئی، مگر حقیقت میں یہ مشرق کے قلب کی وہ صدا ہے جو مغرب کے شور میں کہیں گم ہو چکی تھی۔ اقبال نے نہ صرف اس صدا کو پھر سے ابھارا، بلکہ اسے ایسا وقار، ایسا جمال اور ایسی فکری گہرائی عطا کی کہ یہ محض شاعری نہ رہی بلکہ ایک پیام بن گئی۔ پیامِ مشرق۔
مشرق و مغرب کی تہذیبی کشمکش کو اقبال نے محض ایک سیاسی یا جغرافیائی مسئلہ نہیں سمجھا بلکہ اسے انسان کی روح اور مادہ کی جنگ کے طور پر دیکھا۔ مغرب نے جہاں سائنس، ٹیکنالوجی اور مادی ترقی کی معراج حاصل کی، وہاں وہ روحانیت، عشق اور دل کی دنیا سے دور ہوتا گیا۔ اس کے برعکس مشرق، جو صدیوں سے دل و روح کی گہرائیوں کا شناسا رہا ہے، مادیت کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔ اقبال کو دکھ اسی بات کا تھا کہ مغرب نے حکمت کو عقل کی قید میں جکڑ لیا اور مشرق نے اپنی اصل کھو دی۔ "پیامِ مشرق" اسی کھوئی ہوئی شناخت کی بازیافت کی کوشش ہے، ایک ایسا آئینہ جس میں مشرق خود کو پہچان سکے اور مغرب اپنی روح کی پیاس کا احساس کر سکے۔
اقبال نے اس کتاب میں مشرق و مغرب کو دشمن یا حریف نہیں سمجھا بلکہ انہیں ایک مکالمے کے دو کردار کے طور پر پیش کیا۔ ان کے درمیان مقابلہ نہیں بلکہ تبادلہ ہونا چاہیے۔ اقبال کی نظر میں مشرق کی روحانیت اور مغرب کی عقل اگر ہم آہنگ ہو جائیں تو انسانیت ایک نئے مقام پر فائز ہو سکتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مغرب نے چراغِ عقل روشن کیا، لیکن دل کی تاریکی باقی رہی، مشرق کے پاس دل کی روشنی ہے، لیکن عقل کی لو مدھم ہو چکی ہے۔ اگر دونوں اپنی کمزوریاں پہچان لیں اور ایک دوسرے سے سیکھیں تو ایک نئی تہذیب جنم لے سکتی ہے جو نہ صرف زمین پر بلکہ انسان کے باطن میں بھی انقلاب برپا کر سکتی ہے۔
"پیامِ مشرق" میں عشق کو وہ مرتبہ حاصل ہے جو شاید ہی کسی اور فلسفیانہ نظم میں ملتا ہو۔ اقبال کے نزدیک عشق محض ایک جذبہ نہیں بلکہ ایک قوت ہے، ایک ایسی آگ جو روح کو جلا کر خالص کرتی ہے۔ وہ عشق کو حکمت پر فوقیت دیتے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک عشق وہ راہ ہے جو انسان کو اس کے اصل مقام تک پہنچاتی ہے۔ حکمت اگر عشق کے بغیر ہو تو وہ چالاکی بن جاتی ہے اور چالاکی وہ زہر ہے جو قوموں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اقبال چاہتے ہیں کہ مغرب عشق کا مفہوم سمجھے، وہ جذبہ جو قربانی سکھاتا ہے، جو خدا سے ملاتا ہے، جو انسان کو اپنے وجود کی گہرائی میں لے جا کر اس کے اندر چھپے ہوئے رازوں سے روشناس کراتا ہے۔
اخلاقیات بھی "پیامِ مشرق" کا ایک بنیادی پہلو ہیں۔ اقبال نے اخلاقیات کو محض سماجی اصولوں کا مجموعہ نہیں سمجھا بلکہ اسے انسانی روح کا زیور کہا۔ ان کے نزدیک سچ، صبر، وفا، حیا اور عدل وہ ستون ہیں جن پر ایک صالح معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ مغرب کی اخلاقی گراوٹ پر ان کی تنقید بڑی سادہ اور گہری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر مادیت سب کچھ ہے، اگر طاقت ہی حق ہے، اگر دولت ہی معیارِ انسانیت ہے، تو پھر انسان اور درندے میں کیا فرق رہا؟ اقبال مشرق کو بھی جھنجھوڑتے ہیں کہ وہ اپنے ان اخلاقی اصولوں کو یاد کرے جو اس کی پہچان تھے، جو اس کی روحانی بلندی کا راز تھے۔
"پیامِ مشرق" میں ایک ایسی دنیا کا خواب ہے جہاں انسان صرف جسم نہیں بلکہ روح بھی ہو، جہاں ترقی صرف مادی نہ ہو بلکہ روحانی بھی ہو، جہاں عقل ہو لیکن عشق کی رہنمائی میں، جہاں طاقت ہو لیکن عدل کے ساتھ اور جہاں علم ہو مگر عاجزی کے ساتھ۔ یہ پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔ اقبال کی نگاہ کسی قوم یا نسل تک محدود نہیں، وہ عالمگیر انسانیت کے شاعر ہیں۔ ان کا درد، ان کی تڑپ اور ان کی امیدیں سب انسانوں کے لیے ہیں، چاہے وہ مشرق میں ہوں یا مغرب میں۔
اقبال جانتے تھے کہ محض شاعری سے انقلاب نہیں آتا، لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ خیالات کی دنیا میں جو انقلاب برپا ہو، وہ بالآخر عمل کی دنیا کو بھی بدل دیتا ہے۔ "پیامِ مشرق" اسی فکری انقلاب کی بنیاد ہے۔ یہ کتاب ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کہاں جا رہے ہیں اور ہمارے اندر کیا چھپا ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں ہمارے چہرے کی حقیقت دکھاتا ہے، نہ صرف فرد کے طور پر بلکہ ایک قوم، ایک تہذیب، ایک انسانیت کے طور پر۔
اقبال کی زبان میں جو شائستگی ہے، جو وقار ہے، جو لطافت ہے، وہ بھی "پیامِ مشرق" کا حسن ہے۔ نہ وہ مغرب پر چلاتے ہیں، نہ مشرق پر روتے ہیں، بس حکمت سے، عشق سے اور محبت سے بات کرتے ہیں۔ ان کی زبان بظاہر مشکل لگ سکتی ہے مگر جب دل اس کے مفہوم کو چھو لیتا ہے تو سب کچھ روشن ہو جاتا ہے۔ یہ کتاب صرف پڑھی نہیں جاتی بلکہ محسوس کی جاتی ہے، اس کا ہر شعر دل میں اترتا ہے اور قاری کو ایک نیا انسان بنانے لگتا ہے۔
یورپ نے "دیوانِ مغربی" کے ذریعے مشرق کو اپنے دل کی آواز سنائی اور اقبال نے "پیامِ مشرق" کے ذریعے اسے جواب دیا، مگر یہ جواب طنزیہ یا مدافعانہ نہیں بلکہ مکالماتی ہے۔ یہ مکالمہ تہذیبوں کے درمیان ہے، دلوں کے درمیان ہے، دو سوچنے والے انسانوں کے درمیان ہے۔ اقبال گوئٹے کا احترام کرتے ہیں، اس کے فکری ارتقاء کو سراہتے ہیں اور اسی احترام کے ساتھ اپنی بات کہتے ہیں۔ یہی اقبال کا عظیم ظرف ہے، کہ وہ اختلاف کے باوجود دل کی زبان میں بات کرتے ہیں، وہ زبان جو صرف سچے دلوں کو سمجھ آتی ہے۔
اگر آج ہم اقبال کے "پیامِ مشرق" کو پڑھیں، اس میں ڈوبیں اور اس سے روشنی لیں تو شاید ہم اپنے دور کے اندھیروں سے نکل سکیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم صرف ترقی کے زینے نہیں چڑھ رہے بلکہ کہیں اپنے باطن کو کھو رہے ہیں۔ اقبال ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اصل ترقی وہ ہے جو انسان کے دل کو منور کرے، جو اسے اس کے رب سے جوڑے، جو اسے مخلوقِ خدا کے لیے نافع بنائے۔
مغرب اگر آج بھی طاقت، علم اور سہولتوں کی علامت ہے، تو مشرق کے پاس وہ دل ہے جس میں انسانیت کی سچی تڑپ چھپی ہے۔ اقبال چاہتے ہیں کہ یہ دونوں امتزاج ہوں، تاکہ ایک ایسی دنیا بن سکے جہاں انسان صرف سر نہ ہو، بلکہ دل بھی ہو، جہاں ترقی صرف رفتار کا نام نہ ہو بلکہ منزل کی پہچان بھی ہو اور جہاں زندگی صرف گزرنے کا عمل نہ ہو بلکہ ایک با مقصد سفر ہو۔
"پیامِ مشرق" ایک دعوت ہے، ایک پکار ہے، ایک دستک ہے ضمیر کے دروازے پر۔ یہ ہمیں جگاتی ہے، چونکاتی ہے اور بیدار کرتی ہے۔ یہ کتاب محض ماضی کا نوحہ نہیں، بلکہ مستقبل کا خواب بھی ہے۔ وہ خواب جو اقبال نے صرف اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا بلکہ دل کی آنکھ سے دیکھا اور ہمیں بھی یہی سکھایا کہ اگر دیکھنا ہے، تو دل کی آنکھ سے دیکھو، کیونکہ حقیقت صرف نظر سے نہیں بلکہ بصیرت سے آشکار ہوتی ہے۔
لہٰذا اگر آپ نے کبھی اپنی ذات کو کھوجنا چاہا ہو، اگر کبھی یہ جاننے کی کوشش کی ہو کہ مشرق کیا ہے، مغرب کیا ہے، عشق کیا ہے، حکمت کیا ہے، اخلاق کیا ہے، تو "پیامِ مشرق" ضرور پڑھیے۔ یہ محض کتاب نہیں، یہ ایک روحانی سفر ہے، ایک فکری انقلاب ہے، ایک ابدی صدائے حق ہے جو زمان و مکان سے بالاتر ہو کر آپ کو پکار رہی ہے۔ سن سکیں تو سن لیجیے، سمجھ سکیں تو سمجھ لیجیے، ورنہ وقت کے تیز دھار دریا میں انسانیت کی یہ آخری صدا بھی کہیں کھو جائے گی۔

