Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Allah Mian, Khof Se Muhabbat Tak Ka Safar

Allah Mian, Khof Se Muhabbat Tak Ka Safar

اللہ میاں، خوف سے محبت تک کا سفر

"ایک بات اور پوچھوں؟" ایلی نے کہا۔

"ضرور پوچھیے، جو جی چاہے پوچھیے"۔

"اللہ میاں کیسے ہیں؟"

"بہت پیارے ہیں، بہت ہی پیارے"۔

"وہ تو بہت سخت ہیں"۔

حاجی صاحب مسکرا دیے، "سخت ہوتے تو کیا ہم سب اس قدر بگڑے ہوئے ہوتے؟"

یہ چند جملے کسی عام گفتگو کے نہیں، بلکہ ایک ایسے مکالمے کے ہیں جو روح کے پردے ہٹا دیتا ہے۔ ایلی کی حیرت دراصل ہر اس انسان کی حیرت ہے جو اللہ کو صرف سزا دینے والا سمجھتا ہے۔ حاجی صاحب کی مسکراہٹ گویا اعلان کرتی ہے کہ اگر اللہ سخت ہوتا، تو ہم میں سے کوئی سلامت نہ رہتا۔ ہماری لغزشوں، کوتاہیوں، گناہوں اور بھولوں کے باوجود ہم زندہ ہیں، رزق پا رہے ہیں اور توبہ کا دروازہ آج بھی کھلا ہے۔ تو یہ اس کی سختی نہیں، اس کی نرمی ہے، اس کی محبت ہے۔

صدیوں سے ہم نے اپنے ذہنوں میں ایک ایسا تصور قائم کر لیا ہے جس میں اللہ صرف قہر و غضب کی علامت بن گیا ہے۔ بچپن سے ہمیں بتایا گیا کہ "جھوٹ بولا تو اللہ ناراض ہو جائے گا"، "نماز چھوڑی تو جہنم میں جاؤ گے"، "ماں باپ کی نافرمانی کی تو عذاب ملے گا"۔ مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ "سچ بولو، اللہ خوش ہوگا"، "نماز پڑھو، اللہ مسکرائے گا"، "ماں باپ کی خدمت کرو، اللہ تم پر مہربان ہوگا"۔ ہم نے اللہ کو خوف کے آئینے میں دیکھا، محبت کے آئینے میں نہیں۔ دین جس کا سراپا لطف و کرم تھا، وہ دھمکیوں اور عذابوں کا مجموعہ بن گیا اور یوں ہم اس خدا سے ڈرنے لگے جس نے خود فرمایا تھا: "میرے بندوں کو بتاؤ کہ میں بہت بخشنے والا اور مہربان ہوں"۔

اللہ تو وہ ہستی ہے جو ماں سے ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے، ماں، جو راتوں کو جاگتی ہے، جو بچے کے آنسو سے تڑپ اٹھتی ہے، جو بھوکی رہ کر اسے کھلاتی ہے، اگر وہ محبت کی انتہا ہے، تو اللہ کی محبت اس سے بھی ستر گنا زیادہ ہے۔ مگر ہم نے اسے سزا دینے والا سمجھا، حالانکہ وہ تو پکارنے والا ہے۔ وہ بندے کے گناہوں سے نہیں، اس کی واپسی سے خوش ہوتا ہے۔ وہ دل کے ایک سچے آنسو پر ناراضی کو رحمت میں بدل دیتا ہے۔ اگر وہ سخت ہوتا، تو ایک لمحہ بھی ہمیں مہلت نہ دیتا، لیکن وہ تو ہر روز کہتا ہے: "میرے بندے! آ جا، میں تیرے لیے تیار بیٹھا ہوں"۔

ہم نے اللہ سے رشتہ خوف کا بنا لیا، حالانکہ اس نے خود فرمایا: "میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں"۔ اگر ہم اسے سخت سمجھیں گے، وہ ہمیں ویسا ہی محسوس ہوگا اور اگر ہم اسے مہربان سمجھیں گے، تو وہ ہمارے دل کے قریب اتر آئے گا۔ اللہ کے ہاں بندے کی غلطی بڑی نہیں، بندے کا پلٹ آنا بڑا ہے۔ وہ ایک آنسو کے بدلے میں عمر بھر کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ بندہ اس سے محبت کرے، اس سے مانوس ہو، اس سے بات کرے۔ لیکن ہم نے اسے آسمانوں پر قید کر دیا، حالانکہ وہ تو کہتا ہے: "میں تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں"۔

جب انسان ٹوٹ کر دعا کرتا ہے تو یہ صرف الفاظ نہیں ہوتے، یہ اس کے رب کے لمس کی خواہش ہوتی ہے۔ جب دل میں خیال آتا ہے کہ "اللہ میرے ساتھ ہے"، تو ایک عجب سکون اترتا ہے۔ یہ سکون خوف سے نہیں آتا، محبت سے آتا ہے۔ وہ محبت جو آنسوؤں کو عبادت بنا دیتی ہے، جو خاموشی کو دعا میں بدل دیتی ہے، جو دل کے اندر روشنی بھرتی ہے۔ اللہ ہمارا نگران نہیں، ہمارا دوست ہے۔ وہ گناہ دیکھ کر مایوس نہیں ہوتا، بلکہ مسکرا کر کہتا ہے: "اب لوٹ آؤ، میں تمہیں معاف کر دوں گا"۔

جمعہ کا دن اللہ کے بلاوے کا دن ہے۔ یہ وہ دن ہے جب آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں، جب دلوں کی قفلیں ٹوٹتی ہیں، جب اللہ اپنے بندوں سے خود کہتا ہے: "آؤ، میں تمہیں قریب کر لوں"۔ تو کیوں نہ آج ہم اپنے رب سے وہی پرانا رشتہ جوڑ لیں جو خوف نے توڑ دیا تھا؟ کیوں نہ آج ہم اس سے کہہ دیں: "اللہ میاں، ہم نے آپ کو غلط سمجھا۔ آپ تو بہت پیارے ہیں"۔ پھر دیکھنا، دل کیسے روشن ہوتا ہے، خوف کیسے محبت میں بدلتا ہے اور زندگی کیسے ایک نئی روشنی میں نہا جاتی ہے۔ اللہ میاں واقعی بہت پیارے ہیں۔ بس ہمیں انھیں پہچاننے کی دیر ہے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari