Airman Se Scholar Tak, Zahid Yaqoob Amir Ki Dastan e Azmat
ائرمین سے اسکالر تک، زاہد یعقوب عامر کی داستانِ عظمت

زندگی کے سفر میں کچھ لوگ ایسے ملتے ہیں جو خود اپنی ذات میں انجمن ہوتے ہیں۔ ان کا وجود نہ صرف اپنے قریبی حلقے کے لیے باعثِ فخر ہوتا ہے بلکہ پورے معاشرے کے لیے مشعلِ راہ بن جاتا ہے۔ ان کے سفرِ حیات میں محنت کی خوشبو، قربانی کا رنگ، علم کا نور اور محبت کی گرمی یکجا مل کر ایک ایسا شاہکار تخلیق کرتے ہیں جو نسلوں کو حوصلہ بخشتا ہے۔ ایسے ہی ایک روشن چراغ کا نام ہے سکواڈرن لیڈر (ریٹائرڈ) زاہد یعقوب عامر، جنہوں نے ائرمین کی حیثیت سے آغاز کیا اور آج مصنف، استاد، رہنما اور ایک زندہ حوالہ بن کر ہمارے درمیان موجود ہیں۔
زاہد صاحب اپنی کہانی سناتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم بھی ان یادوں کے قافلے کے ہم سفر ہیں۔ وہ دن، جب ایئر مین میس کی خوشبو بھری صبحوں میں پراٹھوں کی بھاپ سے دوستی ہوتی، جب محمد بن قاسم میس کی یخ بستہ راتوں میں دوستوں کے قہقہے گونجتے، جب انسٹرکٹرز کے رعب دار لہجے کے ساتھ ان کی شفقت بھی تربیت کا حصہ بنتی، وہ سب مناظر آنکھوں کے سامنے جیتے جاگتے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ سب منظر محض یادیں نہیں، یہ بنیادیں ہیں جن پر ایک کردار تعمیر ہوا۔ یہی بنیادیں تھیں جنہوں نے زاہد یعقوب عامر کو وہ ہمت، استقلال اور حوصلہ بخشا جس کے سہارے وہ آگے بڑھتے گئے اور کامیابیوں کی نئی منزلیں فتح کرتے گئے۔
وقت نے پلٹا کھایا تو وہ ایک فائٹر سکواڈرن میں آرمامنٹ ٹیکنیشن کی ذمہ داری نبھاتے دکھائی دیے۔ یہ وہ دور تھا جب ہر دن، ہر لمحہ ہنر، علم اور مہارت کے امتحان کا وقت ہوتا ہے۔ مگر زاہد صاحب کا شوق مطالعہ اور لگن انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی رہی۔ کورآل کی جیب میں کتاب رکھنا اور فرصت کے لمحوں میں کسی درخت کے نیچے بیٹھ کر مطالعہ کرنا ان کی عادت تھی۔ یہی عادت آگے چل کر ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو بنی۔
اور پھر وہ وقت آیا جب ان کی تحریر نے انہیں دوسروں سے الگ مقام عطا کیا۔ انہوں نے کیپٹن کرنل شیر خان شہید نشان حیدر اور لالک جان شہید نشان حیدر پر کتب لکھیں۔ یہ کتب صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں تھیں بلکہ شہداء کے لہو کی خوشبو، ان کی قربانیوں کی روشنی اور ان کے عزم کی حرارت سے معمور تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کتابوں کو نہ صرف ادبی وقعت ملی بلکہ ان کے لکھنے والے کو بھی عزت، وقار اور شناخت نصیب ہوئی۔
زاہد یعقوب عامر کی زندگی کا ایک اور موڑ وہ تھا جب وہ ایجوکیشن انسٹرکٹر بنے اور اسی پی ٹی ٹی ایس میں واپس پہنچے جہاں ان کی تربیت کا آغاز ہوا تھا۔ اس لمحے کی کیفیات کا اندازہ شاید وہی لگا سکتا ہے جس نے اپنی بنیادوں کو اتنے قریب سے محسوس کیا ہو۔ وہاں انہیں اپنا ہی عکس ان بچوں کے چہروں میں دکھائی دیتا جنہیں وہ پڑھاتے تھے۔ ان کے لیکچرز کے بعد ٹرینی طلبہ کا یہ کہنا کہ وہ ہمیشہ اسی ادارے میں رہنا چاہتے ہیں، زاہد صاحب کی شخصیت کے اثر کی واضح دلیل ہے۔ استاد وہی ہوتا ہے جو اپنے شاگردوں کے دل میں نہ صرف علم کی شمع روشن کرے بلکہ ان کے خوابوں کو بھی جلا بخش دے۔
وقت کے دھارے میں ایک اور سنگ میل تب آیا جب وہ اسسٹنٹ وارنٹ آفیسر سے کمیشن حاصل کر گئے۔ اس کامیابی پر ہر شعبہ، ہر فرد خوشی سے جھوم اٹھا۔ وہ جب کلیرنس کے کاغذوں پر دستخط کروانے جاتے تو لوگ انہیں چائے کے بغیر جانے نہ دیتے۔ محبت اور عزت کا یہ عالم شاید ہی کسی کو نصیب ہو۔ یہ محبت ان کے کردار کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، جو آج بھی ان کے ساتھ ہے۔
انیس سال تک بطور ایجوکیشن آفیسر خدمات انجام دینے کے بعد انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لی۔ مگر یہ ریٹائرمنٹ کسی اختتام کا اعلان نہیں تھی بلکہ ایک نئے سفر کی ابتدا تھی۔ میٹرک سے پی ایچ ڈی تک کا سفر طے کرنے والے زاہد یعقوب عامر آج تین کتابوں کے مصنف ہیں، سینکڑوں مضامین لکھ چکے ہیں، ہزاروں شاگرد ان سے محبت کرتے ہیں۔ وہ جس عہدے پر بھی رہے، چاہے یونٹ ایجوٹینٹ ہوں یا استاد، انہوں نے ہر انسان کے ساتھ عزت اور برابری کا سلوک روا رکھا۔ ان کے گھر میں مالی، سویپر یا بیٹ مین کے لیے کبھی الگ برتن نہ رکھے گئے۔ ان کے نزدیک سب انسان یکساں عزت کے مستحق ہیں۔
یونیفارم سے محبت کا یہ عالم کہ اکتیس سال تک کبھی بغیر وضو کے نہیں پہنا۔ ان کے سروس ربن ہی ان کے لیے اصل میڈل تھے، جو انہوں نے کبھی نہیں اتارے۔ ہر کورس میں ٹاپ کرنا، ہر ٹرافی اپنے نام کرنا، یہ سب ان کے محنتی، جفاکش اور باوقار سفر کی نشانیاں ہیں اور اب جبکہ وہ ریٹائر ہو چکے ہیں، تب بھی ان کا خواب زندہ ہے۔ انہیں آکسفورڈ اور نیو یارک یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے پی ایچ ڈی فیلوشپ کی پیشکش ہو چکی ہے۔ یہ منزل بھی ان کے قدم چومنے کو تیار ہے۔
زاہد صاحب کی سب سے بڑی پہچان ان کا فخر ہے کہ وہ "ائرمین" تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ان کی اصل طاقت ہے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے انسٹرکٹرز کو "سر" کہہ کر یاد رکھا اور آج بھی ان کے شاگردوں میں ائیر کموڈور بھی انہیں"سر" کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ وہ رشتہ ہے جو رینک اور عہدوں سے بالاتر ہے۔ یہ وہ محبت ہے جو دلوں میں جڑ پکڑ لیتی ہے اور عمر بھر قائم رہتی ہے۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ ایسے لوگ ہمارے درمیان موجود ہیں جو اپنی ذات کو روشنی کا مینار بناتے ہیں۔ زاہد یعقوب عامر ہمارے لیے صرف ایک دوست نہیں بلکہ ایک انسپائریشن ہیں۔ ایک ایسا حوالہ جسے ذکر کرنا خود حوصلہ بڑھانے کے مترادف ہے۔ جب ہم ان کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یقین ہوتا ہے کہ محنت، علم اور اخلاص کے ساتھ کچھ بھی ناممکن نہیں۔
کراچی میں ان دنوں مقیم یہ مردِ قلندر حافظ آباد کی مٹی سے جڑا ہوا ہے۔ وہ آج بھی اپنے دوستوں، ساتھیوں اور شاگردوں کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہیں۔ ان کے الفاظ میں اخلاص جھلکتا ہے، ان کے لہجے میں محبت بولتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر میں کسی کے کام آ سکوں تو ضرور بتائیے گا۔ یہی جذبہ انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔
ایسے لوگ قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ وہ زندہ مثال ہیں اس بات کی کہ وردی کا تعلق صرف جسم سے نہیں بلکہ روح سے بھی ہوتا ہے۔ وہ عہد جو پہاڑوں سے گھرے کوہاٹ کے پریڈ سکوائر میں پہاڑوں کے درمیان کھڑے ہو کر کیا گیا تھا، آج بھی ان کے دل میں انہی پہاڑوں کی طرح کندہ اور زندہ ہے۔ وہ عہد کہ وطن سے محبت کم نہ ہوگی، ادارے کی عزت پر حرف نہ آئے گا اور شہداء کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہ کیا جائے گا۔ یہی ان کا فخر ہے اور یہی ان کی پہچان۔
ہم سب کی دعائیں اور محبتیں زاہد یعقوب عامر کے ساتھ ہیں۔ اللہ کرے ان کی وسعتِ پرواز مزید بڑھے، ان کے خواب حقیقت کا روپ دھاریں، وہ آکسفورڈ اور نیو یارک میں بھی اسی طرح ٹاپ کریں جیسے ہر میدان میں کرتے آئے ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے، وہ ہمارے لیے روشنی کا مینار ہیں، ایک نیا حوصلہ، ایک نیا حوالہ۔
سلامتی ہو اس مردِ مومن پر، جس نے ائرمین کی خاک سے اسکالر کے آسمان تک کا سفر طے کیا اور ہم سب کے لیے یہ پیغام چھوڑا کہ اگر دل میں لگن ہو، ارادہ مضبوط ہو اور ایمان کامل ہو تو کوئی راستہ بند نہیں رہتا۔ زاہد یعقوب عامر صرف ایک نام نہیں، ایک داستان ہیں۔ ایک ایسی داستان جو آنے والی نسلوں کو بھی راستہ دکھاتی رہے گی۔
زاہد یعقوب عامر صاحب! آپ پر ہمیں فخر ہے اور یہ فخر آج کا نہیں بلکہ برسوں پرانا ہے۔ آپ شاید بھول گئے ہوں، لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2003 میں ائیر ہیڈکوارٹرز اسلام آباد میں ہم اکٹھے تھے۔ وہیں پہلی بار یہ معلوم ہوا کہ آپ نہ صرف پاک فضائیہ کے ایک قابل ائرمین ہیں بلکہ قلم کے بھی ایسے سپاہی ہیں جنہیں اکیڈمی ادبیات پاکستان نے ایوارڈ سے نوازا۔ اس لمحے دل نے محسوس کیا کہ آپ کی شخصیت دو جہانوں کو سمیٹے ہوئے ہے: ایک طرف آسمانوں کی وسعت اور دوسری طرف ادب کی گہرائی۔
آپ کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں اور ان میں وہ خوشبو ہے جو شہداء کے خون سے رچی بسی ہے۔ وہ لفظ نہیں، چراغ ہیں جو پڑھنے والوں کے دل و دماغ کو منور کرتے ہیں۔ کرنل شیر خان سے میری بھی یادیں وابستہ ہیں، کورنگی کریک کی وہ ٹریننگ آج بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ لیکن اللہ نے انہیں وہ پر دیے کہ وہ سب سے آگے نکل گئے اور بہت اونچا مقام پایا۔ آپ نے بھی اپنے حصے کے پروں کو بھرپور انداز میں استعمال کیا اور اپنے پرواز کو وسعت دی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہمارے لیے ہمیشہ سے ایک فخر رہے ہیں۔
زاہد صاحب! میں اکثر محفلوں میں آپ کا حوالہ دیتا ہوں، کیونکہ آپ کی زندگی دوسروں کے لیے ایک درس ہے۔ کم عمری میں بڑے بڑے کارنامے انجام دینا، اپنی محنت اور ہمت سے ہمیشہ آگے بڑھتے رہنا، یہ سب کچھ آپ کو انسپائریشن کا زندہ استعارہ بناتا ہے۔ جب میں لوگوں کو آپ کی مثال دیتا ہوں تو ان کے اندر ایک نئی توانائی، ایک نئی روشنی جنم لیتی ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ آپ کی وسعتِ پرواز کو مزید بڑھائے۔ آپ آکسفورڈ جائیں، نیویارک یونیورسٹی میں قدم رکھیں اور وہاں بھی اسی شان سے نمایاں ہوں جس طرح یہاں ہمیشہ سے نمایاں رہے ہیں۔ یقین جانیں، یہ سب دیکھ کر ہمیں بھی ایک نیا حوصلہ، ایک نئی امید ملے گی۔ آپ ہمارے لیے صرف ایک دوست یا بھائی نہیں بلکہ روشنی کا مینار ہیں۔ آپ سے ہمیں راستہ ملتا ہے، آپ سے ہمیں توانائی ملتی ہے اور آپ سے ہمیں یہ یقین ملتا ہے کہ زندگی میں خواب صرف دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ پورے کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔
اللہ آپ کو خوش رکھے، سلامت رکھے اور ہمیشہ اسی شان کے ساتھ بلند پرواز عطا کرے۔ آپ ہمارے لیے امید ہیں، انسپائریشن ہیں اور فخر ہیں۔

