Adeel Akbar, Qaid Karta Hoon Hasratein Dil Mein
عدیل اکبر، قید کرتا ہوں حسرتیں دل میں

قید کرتا ہوں حسرتیں دل میں، پھر انھیں خودکشی سکھاتا ہوں، یہ ایک درد بھرا شعر تھا، جو شاید کسی زخمی روح نے اپنی آخری سانسوں میں لکھا۔ یہ شعر اسلام آباد کے اس قابل، خوبصورت، ذہین اور محنتی پولیس افسر کا ہے جس نے کل اپنی زندگی کا چراغ بجھا دیا۔ عدیل اکبر۔ ایک ایسا نام جو ذہانت، وقار اور فرض شناسی کی علامت تھا۔ وہ سی ایس ایس ٹاپر تھا، ایم-فل کر چکا تھا، حال ہی میں امریکہ کی فل برائٹ اسکالرشپ جیتی تھی اور چند ہی ہفتوں میں پڑھنے کے لیے وہاں روانہ ہونا تھا۔ مگر وہ وہاں نہ گیا۔ وہ وہاں چلا گیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔
اس کی موت نے سب کے دلوں کو چھید ڈالا۔ دفتر میں، یونیفارم میں، دوستوں کے درمیان، ہر جگہ ایک اداسی کی چادر تنی ہے۔ ہر کوئی افسردہ ہے، پریشان ہے، سوچوں میں گم ہے۔ سب کے لبوں پر ایک ہی سوال ہے۔ آخر ایسا کیوں ہوا؟ ایسا کیا ہوا کہ ایک روشن دماغ، ایک نرم دل، ایک تعلیم یافتہ، سلجھا ہوا شخص اپنی زندگی کے اس موڑ پر جا پہنچا جہاں مایوسی نے اسے مکمل طور پر اپنی لپیٹ میں لے لیا؟
یہ سوال صرف عدیل اکبر کے بارے میں نہیں، بلکہ ہم سب کے بارے میں ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں ذہانت جرم بن گئی ہے، کامیابی حسد کا باعث اور خوش اخلاقی کمزوری سمجھ لی جاتی ہے۔ ہم ایسے ماحول میں کام کر رہے ہیں جہاں برتری کو برداشت نہیں کیا جاتا، جہاں کسی کا آگے بڑھ جانا دوسروں کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
یہ ہماری ریاستی مشینری کا، ہمارے دفاتر کا، ہمارے رویوں کا، سب کا المیہ ہے۔ ہم قابلیت کو سلام نہیں کرتے، اسے سزا دیتے ہیں۔ ہم کسی کے روشن ہونے سے ڈرتے ہیں۔ ہم اس کی روشنی بجھانے کے لیے ہر حربہ آزماتے ہیں۔ چھٹی روک دی، ترقی روک دی، کورس سے باہر کر دیا، معمولی باتوں کو بڑھا چڑھا کر اسے رگید دیا۔ ہم یہ سب کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم طاقتور ہیں، لیکن دراصل ہم ظالم ہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جن کے ہاتھوں کسی کی امید مر جاتی ہے، کسی کا اعتماد ٹوٹ جاتا ہے، کسی کا دل بکھر جاتا ہے۔
ذرا سوچیے، ایک شخص جو اپنے خوابوں، اپنی بیٹی، اپنے والدین، اپنی قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا، وہ کس اذیت سے گزرا ہوگا جب اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اب جینا بیکار ہے۔ اس کے دل پر کیا بیتتی ہوگی جب اس نے سوچا کہ کوئی سمجھنے والا نہیں، کوئی سننے والا نہیں، کوئی اس کے درد کا مداوا نہیں اور پھر اس نے وہ آخری قدم اٹھا لیا، وہ قدم جو واپس نہیں آتا۔
میرے بھائیو، میرے بزرگوں، میرے دوستو، اپنے دلوں کو وسیع کرو۔ اپنے دماغوں کو کشادہ کرو۔ جب تم کسی ماتحت کو بے جا ڈانٹتے ہو، اس کی چھٹی روکتے ہو، اس کی ترقی میں رکاوٹ ڈالتے ہو، اس کے آئیڈیاز کو رد کرتے ہو، تو ایک لمحہ ٹھہر کر سوچا کرو، یہ بھی انسان ہے۔ اس کا بھی دل ہے۔ اس کے بھی خواب ہیں۔ اس کے گھر میں بھی کوئی اس کا انتظار کرتا ہے۔ اگر وہ تمہارے رویے سے تنگ آ کر اپنی زندگی ختم کر لے تو تم پر کیا گزرے گی؟ اس کی بیٹی پر، اس کی ماں پر، اس کے دوستوں پر کیا گزرے گی؟
یہ جو "پروفیشنل جیلسی" کے نام پر ایک زہر ہمارے اداروں میں پھیل چکا ہے، یہ دراصل ایک اخلاقی بیماری ہے۔ یہ بیماری جب کسی ادارے میں جڑ پکڑ لیتی ہے تو وہاں میرٹ دم توڑ دیتا ہے، انسانیت مر جاتی ہے اور صرف چاپلوسی باقی رہ جاتی ہے۔ پھر وہ ادارہ محض ایک جسم رہ جاتا ہے جس میں روح نہیں ہوتی۔
میں اپنے نوجوان افسروں سے بھی کہنا چاہتا ہوں، زندگی کی مشکلات سے نہ گھبراؤ۔ دنیا کبھی منصف نہیں رہی، لیکن تاریخ ہمیشہ انصاف کرتی ہے۔ جو آج تمہیں نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں، کل تمہارا نام یاد رکھیں گے۔ سخت جان بنو۔ برداشت کرو۔ اپنے اندر حس مزاح پیدا کرو۔ ہنسنا سیکھو، طنز کا جواب مسکراہٹ سے دو۔ تمہاری حس مزاح، تمہارا حوصلہ، تمہارا سکون، یہی تمہاری اصل طاقت ہے۔
اپنے سینئرز کے تجربے سے سیکھو۔ قدرت اللہ شہاب کو پڑھو۔ وہ بیوروکریسی کے دریا کے ایک انتہائی قابل اور سخت جان تیراک تھے۔ ایک بار ان کے باس نے ان کے سر پر پیپر ویٹ دے مارا، لیکن وہ برداشت کرتے رہے۔ ان کے سر پر گومڑ پڑ گیا، مگر وہ ڈٹے رہے، کام کرتے رہے، لکھتے رہے۔ یہ واقعہ بعد از ریٹائرمنٹ بڑے مزاحیہ انداز میں اپنی کتاب میں لکھا۔ باس کی اس حرکت پر خود بھی ہنسے اور دوسروں کو بھی ہنسایا۔ انہوں نے اپنی زندگی کو طنز و مزاح اور حکمت سے بھرا، انتقام سے نہیں۔ یہی فرق ہے۔ کچھ لوگ حالات سے شکست کھا جاتے ہیں، کچھ انہیں مزاح اور مزاحمت سے شکست دیتے ہیں۔
ہمارے اداروں کو ضرورت ہے نرم دل افسران کی، سخت گیر انسانوں کی نہیں۔ وہ افسر جو ماتحت کی بات سنتا ہو، اس کے جذبے کو سمجھتا ہو، اس کی غلطی کو موقع میں بدلتا ہو۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے عدیل اکبر ہیں، جو بول نہیں پاتے، جن کے اندر کے زخم کسی کو نظر نہیں آتے۔ ہمیں ان کی آنکھوں میں دیکھنا اور سیکھنا ہوگا، ان کے چہروں کے پیچھے چھپے درد کو محسوس کرنا ہوگا۔
اور سب سے بڑھ کر، ہمیں امید بانٹنی ہوگی۔ کیونکہ ناامیدی وہ دروازہ ہے جو سب سے پہلے شیطان کھولتا ہے۔ جس لمحے انسان ناامید ہوتا ہے، وہ زندگی کے ہاتھ چھوڑ دیتا ہے۔ مگر وہی لمحہ اگر کسی کی ایک بات، ایک محبت بھرے جملے، ایک دلجوئی سے بھرپور رویے سے بدل جائے، تو شاید ایک جان بچ جائے۔
کیا خبر، اگر کسی دن کسی نے عدیل اکبر سے نرمی سے بات کی ہوتی، اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوتا، اس سے کہا ہوتا "بھائی، سب ٹھیک ہو جائے گا"، تو شاید وہ آج زندہ ہوتا۔
یہ کالم کسی کے خلاف نہیں، بلکہ ہمارے ضمیر کے لیے ہے۔ ہم سب اپنی اپنی جگہ ظالم ہیں، کسی لفظ سے، کسی خاموشی سے، کسی طنز سے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم خود سے سوال کریں: کیا ہم دوسروں کے لیے آسانی کا ذریعہ ہیں یا اذیت کا؟
آئیے، اپنے دلوں کو نرم کریں۔ اپنے ماتحتوں کے لیے، اپنے دوستوں کے لیے، اپنے شاگردوں کے لیے، اپنے ساتھیوں کے لیے۔ ان کی حوصلہ شکنی نہ کریں، ان کے خواب مت توڑیں۔ کیونکہ کسی کا ایک خواب جب ٹوٹتا ہے تو صرف ایک انسان نہیں مرتا، ایک پوری کہانی مر جاتی ہے۔
اللہ عدیل اکبر کی مغفرت فرمائے۔ اسے جنت میں سکون دے۔ اس کی بیٹی اور بیوہ کی حفاظت اور کفالت فرمائے اور ہمیں عقل، احساس اور دل کی وسعت عطا فرمائے کہ ہم کسی اور عدیل اکبر کو اس انجام تک نہ پہنچنے دیں۔
دنیا میں بہت دکھ ہیں، مگر سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دکھ کو محسوس نہیں کرتے۔ اس لیے اگر آپ کے ارد گرد کوئی خاموش ہے، الگ تھلگ ہے، بے چین ہے، تو اس سے بات کیجیے۔ ایک جملہ، ایک لمس، ایک دعا، شاید کسی کی زندگی بچا لے۔
زندگی بہت قیمتی ہے۔ اپنے بچوں، والدین، دوستوں، خوابوں کے لیے جیو اور اگر کبھی دل ٹوٹے، تو یاد رکھو: ہر رات کے بعد ایک صبح ضرور آتی ہے۔
زندگی ختم نہیں ہوئی، ابھی بہت کچھ باقی ہے۔
عدیل اکبر کی یاد بھی اور اس کے جیسے بہت سے دل بھی۔
حساس دل رکھنے والے عدیل اکبر کے چند اشعار:
جو باتیں پی گیا تھا میں
وہ باتیں کھا گئیں مجھ کو
ہم فقیروں کو کبھی راس نہ آیا ورنہ
ہم نے پایا تھا مقدر تو سکندر جیسا
طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے
عکس پر نہ اتراؤ، آئینہ ہمارا ہے
آپ کی غلامی کا، بوجھ ہم نہ ڈھوئیں گے
آبرو سے مرنے کا، فیصلہ ہمارا ہے
کیا ایسے لوگ دُنیا سے ایسے رخصت کیے جاتے ہیں۔ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔

