Adabi Sifaratkari, Pakistan Aur Bharat Ke Darmiyan Muhabbat Ka Pul
ادبی سفارتکاری، پاکستان اور بھارت کے درمیان محبت کا پُل

دنیا میں اگر کوئی طاقت واقعی سرحدوں کو بے معنی کر سکتی ہے تو وہ توپ یا ٹینک نہیں، بلکہ قلم ہے۔ وہ قلم جو نفرت کے مقابلے میں محبت لکھتا ہے، جو جنگ کے شور میں انسانیت کی آواز بن جاتا ہے۔ صدیوں سے قومیں دشمنی کے دائرے میں قید رہیں، لیکن ادب ہمیشہ یہ دائرے توڑنے والا رہا۔ جیسے چین اور روس کے درمیان ادب نے فاصلے گھٹائے، ویسے ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی یہی ادبی سفارت کاری (Literary Diplomacy) نفرت کی دیواریں ڈھا کر محبت کے پل تعمیر کر سکتی ہے۔
یہ دونوں ملک ایک ہی مٹی کے رنگ سے اٹھے، ایک ہی گنگا جمنا تہذیب کے وارث، ایک ہی کہانیوں، ایک ہی لوک گیتوں، ایک ہی غموں اور ایک ہی خوابوں کے شریک۔ مگر سیاست نے ان کے درمیان ایسی دیوار کھڑی کر دی جس کے آر پار اب صرف نفرت کی گونج سنائی دیتی ہے۔ مودی سرکار اور اس کی انتہاپسند بی جے پی نے اس دیوار کو اور اونچا کر دیا، یہاں تک کہ محبت اور فہم کی ہوا بھی اس کے پار جانے سے ڈرنے لگی۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جو دیواریں سیاست نے کھڑی کیں، وہ ادب نے ہمیشہ گرائیں۔
چین اور روس کا حال بھی کبھی مختلف نہ تھا۔ دو عظیم تہذیبیں، دو بڑی طاقتیں، مگر سرد جنگ کے سائے، نظریاتی اختلاف، سرحدی تنازعات، ان سب نے ایک دیوار کھڑی کر دی تھی۔ لیکن ان کے ادیب، مترجم اور قاری اس دیوار کے سامنے ڈٹ گئے۔ انہوں نے کتابوں، کہانیوں، نظموں اور تراجم کے ذریعے دلوں کو جوڑا اور آج وہی دونوں ملک، جو کبھی شک اور سرد مہری کے اسیر تھے، ادب کے ذریعے ثقافتی بھائی چارے کی نئی بنیاد رکھ چکے ہیں۔ یہی راستہ پاکستان اور بھارت کے لیے بھی روشنی کا دروازہ کھول سکتا ہے۔
ہمارے ہاں بھی جب فیض، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی اور قدرت اللہ شہاب جیسے لوگ لکھتے تھے، تو ان کے لفظ صرف ادبی نہ ہوتے تھے، انسانی ہوتے تھے۔ وہ لفظ سرحد پار کے انسان کے دکھ سے بھی اتنا ہی لرزتے تھے جتنا اپنے گھر کے دکھ سے۔ منٹو نے جب "ٹوبہ ٹیک سنگھ" لکھا تو اس نے نہ صرف تقسیم کی خونی دیوار کو عیاں کیا بلکہ بتایا کہ انسان کا دکھ کسی مذہب یا قوم کی قید میں نہیں رہتا۔ فیض نے جب لکھا "بول کہ لب آزاد ہیں تیرے" تو یہ صدا لاہور سے دہلی تک اور دکن سے پشاور تک گونجی۔
ادب کے یہ چراغ آج پھر جلائے جا سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے اچھے لوگ، جو دل میں نفرت نہیں، انسانیت رکھتے ہیں، وہی اس دیوار کے پتھر ڈھیلے کر سکتے ہیں۔ یہ دیوار توپوں سے نہیں گرے گی، مگر کتابوں سے ضرور گرے گی۔ ایک کتاب جو دہلی میں لکھی جائے اور لاہور میں پڑھی جائے، ایک نظم جو ممبئی میں سنائی جائے اور کراچی میں گنگنائی جائے، ایک افسانہ جو اترپردیش کے دل سے اٹھے اور پنجاب کے دل میں اتر جائے۔ یہ سب محبت کے وہ چھوٹے چھوٹے بیج ہیں جو کل خوشبو بن کر پوری فضا کو مہکا سکتے ہیں۔
ہم بھول گئے ہیں کہ ہمارے لوگ کتنے ایک جیسے ہیں۔ ہمارے گاؤں، ہمارے میلوں، ہمارے لوک گیت، ہمارے دکھ، سب مشترک ہیں۔ بھارتی کسان ہو یا پاکستانی مزدور، دونوں کی آنکھوں میں وہی تھکن، وہی امید، وہی محرومی جھلکتی ہے۔ دونوں طرف غریب روٹی کے لیے جیتا ہے اور دونوں طرف طاقتور سیاست دان اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اگر کبھی کوئی طاقت ان غریب دلوں کو جوڑ سکتی ہے، تو وہ ادب ہے۔ ادب وہ زبان بولتا ہے جو سب سمجھتے ہیں، دل کی زبان۔
چین نے اپنے ادب اور تعلیم کے ذریعے اپنے کروڑوں غریب لوگوں کی زندگیاں بدل ڈالیں۔ انہوں نے اپنے دیہات سے لے کر شہروں تک "ادبی بیداری" پیدا کی۔ کتاب کو عزت دی، لکھنے والوں کو عزت دی، سوچنے والوں کو مقام دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج چین نہ صرف معیشت میں دنیا کی طاقت ہے بلکہ فکری طور پر بھی مضبوط قوم ہے۔ پاکستان اور بھارت بھی اگر واقعی اپنے کروڑوں غریب لوگوں کا مقدر بدلنا چاہتے ہیں تو انہیں بندوقوں کے بجائے کتابوں پر سرمایہ لگانا ہوگا۔ اگر ہم ادب کو قومی پالیسی کا حصہ بنا لیں، اگر ادبی میلوں میں سیاسی جلسوں جیسی رونق ہو، اگر شاعری کے مقابلے اتنے مقبول ہوں جتنے کرکٹ میچ، تو یقین مانئے، نفرت کی زمین بانجھ ہو جائے گی اور محبت کا موسم آ جائے گا۔
ادب میں وہ جادو ہے جو بند دروازے کھول دیتا ہے۔ ایک چنگاری جو کہانی کے لفظوں میں چھپی ہو، وہ پورے دل کو روشن کر دیتی ہے۔ بھارت کے اندر بھی ایسے لوگ ہیں جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ ارندھتی رائے، ششی تھرور، پراوین سہانے، پروفیسر اپوروا نند اور گووند نِہالانی جیسے لوگ آج بھی امن اور فہم کی آواز بنے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے لفظوں کے ذریعے بتا رہے ہیں کہ قومیں دیواروں سے نہیں، دلوں سے بنتی ہیں۔ پاکستان میں بھی اشفاق احمد، بانو قدسیہ، عمیرہ احمد، پروین شاکر اور کشور ناہید جیسے لکھنے والے انسانیت کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ اگر یہ سب آوازیں مل جائیں، اگر ان کے لفظ مل کر "ادبی ڈپلومیسی" بن جائیں، تو وہ دن دور نہیں جب یہ دونوں ملک محبت کی نئی تاریخ لکھیں گے۔
ادب کا کمال یہی ہے کہ وہ دشمن کو دشمن نہیں رہنے دیتا۔ وہ اسے انسان بنا دیتا ہے۔ ایک اچھی کہانی پڑھنے کے بعد ہم کرداروں سے نفرت نہیں کر سکتے، چاہے وہ مخالف مذہب یا قوم سے ہوں۔ یہی تو ادب کی طاقت ہے۔ وہ ہمیں دوسروں کے دکھ میں شریک کرتا ہے، دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا سکھاتا ہے۔ جب دہلی کا قاری کراچی کے کسی مصنف کا افسانہ پڑھ کر روئے گا، یا لاہور کا نوجوان بنگلور کے کسی شاعر کی نظم سے متاثر ہوگا، تو نفرت کا کون سا فلسفہ باقی رہ جائے گا؟
مودی اور بی جے پی نے نفرتوں کی جو دیوار کھڑی کی ہے، اسے صرف سیاست نہیں گرا سکتی۔ اسے گرانے کے لیے وہی ہاتھ چاہئیں جو قلم پکڑتے ہیں۔ شاعر، ادیب، مترجم، اساتذہ اور قاری، یہ سب مل کر وہ "ادبی انقلابی" بن سکتے ہیں جو سرحدوں پر نہیں، دلوں میں تبدیلی لاتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اپنی آنے والی نسل کو ایک مختلف داستان دے سکتے ہیں۔ ایسی داستان جس میں بھارت اور پاکستان دشمن نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے آئینے میں اپنی پہچان دیکھنے والے دوست ہوں۔
آج وقت ہے کہ ہم اپنے ادیبوں کو سفیر مانیں۔ وہی لوگ جو لفظوں کے ذریعے دلوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ حکومتیں شاید کبھی امن کی راہ پر نہ چلیں، لیکن لوگ چل سکتے ہیں اور جب لوگ چل پڑیں تو راستے خود بن جاتے ہیں۔ کتابوں کے ذریعے، کہانیوں کے ذریعے، شاعری کے ذریعے، ہم دوبارہ وہ رشتہ بنا سکتے ہیں جو پہلے کبھی تھا۔ جب شاعر کسی ملک کا نہیں ہوتا تھا، صرف محبت کا ہوتا تھا۔
ہمیں وہ دن واپس لانے ہیں۔ ہمیں پھر سے "ادبی سفارت کاری" کے خواب کو حقیقت بنانا ہے۔ یہ صرف علم و ادب کی بات نہیں، بلکہ بقا کی بات ہے۔ کیونکہ نفرت کے اس دور میں اگر کوئی چیز انسان کو انسان رکھ سکتی ہے، تو وہ ادب ہے۔
چین نے دنیا کو دکھایا کہ اگر قومیں تعلیم، ادب اور تخلیق کے راستے پر چلیں تو غربت، نفرت اور کمزوری سب ختم ہو جاتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت بھی اگر اسی روشنی میں چلیں تو کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بدل سکتی ہیں۔ دونوں کے غریب ایک جیسے ہیں، ان کے خواب ایک جیسے ہیں، ان کے آنسو بھی ایک جیسے ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان آنسوؤں کو سیاست کے لیے نہیں، محبت کے لیے استعمال کیا جائے۔
یہ کالم ایک امید کا پیغام ہے، کہ ایک دن ضرور آئے گا جب لاہور اور دہلی کے درمیان نہ خاردار تار ہوگی، نہ نفرتوں کی دیوار۔ صرف لفظوں کی روشنی ہوگی، کہانیوں کی خوشبو ہوگی اور انسانیت کا ہاتھ انسانیت کے ہاتھ میں ہوگا۔ کیونکہ آخرکار، دنیا میں سب کچھ ختم ہو سکتا ہے، مگر ادب باقی رہتا ہے اور جہاں ادب باقی رہتا ہے، وہاں محبت زندہ رہتی ہے۔

