Adabi Sifaratkari, Pakistan Aur Afghanistan Ke Darmian Muhabbat Ka Pul
ادبی سفارتکاری، پاکستان اور افغانستان کے درمیان محبت کا پُل

سرحد کے اُس پار بیٹھے ہوئے انسان کا چہرہ ہمارے چہرے کی طرح ہی ہوا کرتا ہے، وہی آنکھوں کی تھکن، وہی امید کی لکیریں، وہی بچوں کی آوازیں، وہی ماؤں کے سُسکے۔ مگر صدیاں گواہ ہیں کہ سیاست نے اکثر اُن رشتوں کو کھوکھلا کر دیا جو تاریخ، زبان، مذہب اور ثقافت نے بنائے تھے۔ آج پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو جنگ کی کیفیت برقرار ہے، وہ اپنی جڑوں میں پرانی چوٹوں، بیرونی مداخلتوں اور داخلی خلفشار کا نتیجہ ہے۔ اس کے باوجود میرا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ یہی رشتہ ادبی قوت سے دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔ ادب، کہانیاں، شاعری اور تراجم وہ ہتھیار ہیں جو خانہ جنگی اور نفرت کی دیواروں کو مسمار کرکے محبت اور بھائی چارے کے ستون کھڑے کر سکتے ہیں۔
ادب محض الفاظ کا کھیل نہیں، یہ دلوں کا علاج ہے۔ جب کوئی افغان شاعر اپنے دیس کی یاد میں جوشِ درد میں نظم لکھتا ہے، جب پاکستانی افسانہ نگار گاؤں کی زندگی کا منظر کشی کرتا ہے، تو وہ ان اعمال کا رشتہ جوہر کے طور پر بندھ جاتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ جنگ کا خاتمہ صرف توپوں کے رکنے سے نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب ہے دلوں میں جو نفرتیں بسی ہوئی ہیں، اُن کا ٹھیک ہونا، اُس نفرت کو محبت میں تبدیل کرنا اور اس تباہ شدہ رشتہ کو پھر سے جوڑنا۔ ادبی سفارت کاری (Literary Diplomacy) یہی ممکن بناتی ہے: کتابیں، مشترکہ ادبی میلوں، مشترکہ تراجم، ریڈیو پر کہانیوں کی نشریات اور اسکول کے بچوں کے لیے مشترکہ ادب کروانے کے پروگرام ایسے چھوٹے مگر موثر اقدامات ہیں جو بڑے سماجی تبدیلی کے بیج بوتے ہیں۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان میں زبان اور ادب کے ایسے مشترکہ چشمے ہیں جو صدیوں پر محیط ہیں۔ پشتو، دری، اردو اور بلوچی الفاظ نے ایک دوسرے میں گھل مل کر انسانی احساسات کا ایک وسیع ذخیرہ پیدا کیا ہے۔ رومی، رحمان بابا، خوشال خان خٹک، امیر خسرو کے اشعار میں وہی روح محفوظ ہے جو لاہور کی محفل میں سُنی جاتی ہے اور کابل کے چائس میں گونجتی ہے۔ یہی مشترکہ ادبی ورثہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری تمیزیں سطحی ہیں اور دل کی سطح میں ہم ایک ہی سمندر کے ساحل ہیں۔ ادب انہی مشترک لہجوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان وٹینوں کو نرم کر دیتا ہے جو محض سیاسی یا جغرافیائی وجوہات سے بنے ہوئے ہیں۔
ادب کا پہلا کارنامہ تو یہ ہے کہ وہ انسانی کہانی کو پیش کرتا ہے۔ وہ کہانی جو دشمن کو دشمن نہیں رہنے دیتی۔ جب ایک افغان خاتون کے دکھ کا افسانہ پاکستانی قاری کے سامنے آتا ہے، جب ایک پاکستانی مزار کا بیان افغان بازار میں پڑھا جاتا ہے، تو قاری کا دل اس کہانی کے کردار کے ساتھ رشتہ بنا لیتا ہے۔ اس رشتے میں نفرت کی مٹی خود بخود کمزور پڑ جاتی ہے۔ اسی رشتے کو مضبوط کرنے کے لیے ہمیں فوری طور پر مشترکہ ادبی پروگرام شروع کرنے ہوں گے: دونوں جانب کے ادیبوں کی ورکشاپس، مشترکہ تراجم کے منصوبے، اسکولوں میں تبادلہ نصاب جس میں دونوں ملکوں کے ادیبوں کی مختصر کہانیاں شامل ہوں اور سرحدی علاقوں میں کتاب میلوں کا انعقاد۔ ایسے اقدامات نہ صرف ثقافتی پل بنائیں گے بلکہ نوجوانوں کے ذہنوں میں امن کی قیمت بھی بٹھائیں گے۔
ادب کا دوسرا بڑا اثَر تعلیمی اور سماجی تبدیلی میں ہوتا ہے۔ جب ادب عام آدمی تک پہنچتا ہے تو وہ سوچ تبدیل ہوتی ہے اور سوچ بدلتی ہے تو معاشرہ بدلتا ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں جہاں بدامنی نے تعلیمی عمل کو متاثر کیا، وہاں موبائل لائبریریاں، ریڈیو کہانیوں کے پروگرام اور مقامی زبانوں میں شائع ہونے والی سستی کتابیں تقسیم کرنا فوری طور پر اثر دکھا سکتے ہیں۔ ایک ننھے بچے کے ہاتھ میں دی گئی کہانی اور اُس کے ذہن میں اُبھری ہوئی ہمدردی، برسوں بعد وہی بچہ جب بزرگ ہوگا تو نفرت کی آگ بھڑکانے کے بجائے مفاہمت کا راستہ دکھائے گا۔ یہی سرمایہ کاری دراصل امن کی سب سے مضبوط بنیاد ہے۔ وہ بنیاد جو بندوق کے شور سے نہیں بلکہ کتاب کے ورق سے پلتی ہے۔
ادبی سفارت کاری کا تیسرا پہلو ذہنی اور تہذیبی ہم آہنگی ہے۔ ثقافتی تبادلے، مشترکہ فلمی اور تھیٹر پراجیکٹس اور دونوں ملکوں کی لوک کہانیوں کا اشتراک لوگوں کو یہ باور کراتا ہے کہ اُن کے درد اور خوشیاں ایک جیسی ہیں۔ مثال کے طور پر پشتو اور پنجابی کے لوک گیتوں کا اشتراک اگر بڑے اسکرینوں اور مقامی محفلوں میں ہو تو اُس سے نہ صرف فنکاروں کا تبادلہ ہوگا بلکہ عوامی سطح پر ایک دوسرے کی ثقافت کا احترام بڑھے گا۔ تاریخی طور پر بھی دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی، علمی اور صوفی روایات کا بھرپور تبادلہ رہا ہے۔ اسی روایت کو دوبارہ زندہ کرنا ہمیں ماضی کی اس مٹھاس تک واپس لے جائے گا۔
ادب کی طاقت کا ایک عملی نمونہ یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے سرحدی شہروں میں مشترکہ ادبی فیسٹیول منعقد کیے جائیں جن میں نوجوان مصنفین، شاعروں، ڈرامہ نگاروں اور ادبی ناقدین کو مدعو کیا جائے۔ ایسے فیسٹیولز میں امن اور مفاہمت کے موضوع پر کتابی نمائشیں، مشترکہ ریڈنگ سیشنز اور مقامی زبانوں میں تراجم کی ورکشاپس شامل ہوں۔ اس کے علاوہ حکومتیں اور غیر سرکاری تنظیمیں مشترکہ فنڈز قائم کریں جو سرحد کے دونوں طرف ادبی منصوبوں کی حمایت کریں۔ بچوں کے لیے کہانیاں، نوجوانوں کے لیے مختصر فلمیں اور خواتین کے ذریعے لائی گئی مقامی داستانیں۔ یہ تمام کام ایک دوسرے کے درد اور خواہشات کو سمجھنے میں مدد کریں گے اور یوں دور رس معاشرتی تبدیلی کے لئے سازگار ماحول پیدا ہوگا۔
ایک اور ضروری اقدام یہ ہے کہ ادبی ڈپلومیسی کو مذہبی اور سماجی رہنماؤں کے ساتھ ملایا جائے۔ دونوں ملکوں میں مذہبی روایات میں امن اور ہمدردی کی ایسی جڑیں ہیں جنہیں ادبی کہانیوں کے ذریعے نمایاں کیا جا سکتا ہے۔ صوفی شاعری کی وہ مثالیں جو انسانیت پر زور دیتی ہیں، انہیں باہمی مکالمے کا محور بنایا جائے تا کہ مذہبی شدت پسندی کا راستہ تنگ ہو اور حکمت و مروت کی آواز بلند ہو۔ اسکولوں میں نصابی کتابوں میں مشترکہ صوفی اور لوک ادب شامل کیا جائے جو بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی ہم آہنگی سکھائے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ کے زخموں سے نمٹنے کے لئے فنونِ لطیفہ کا بڑا کردار ہے۔ داستان گوئی، تھیٹر اور کمیونٹی ریڈیوز زخمی معاشروں میں جذباتی شفا بکھیرتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ایسے مقامی تھیٹر پروگرامز چلائے جائیں جہاں جنگ زدہ لوگوں کی ذاتی کہانیاں ڈرامائی شکل میں پیش ہوں۔ جب ایک فنانسیڈ کمیونٹی تھیٹر میں ایک شہری اپنی تکلیف سناتا ہے اور اُس کے پیغامات دوسری قوم کے لوگوں تک پہنچتے ہیں تو انسانی سطح پر ایک پل بن جاتا ہے جو پالیسی سازوں کی رسائی سے کہیں گہرا ہوتا ہے۔
آخر میں، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ امن صرف کسی ایک طبقے کا کام نہیں، یہ پوری قوموں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ادیب، شاعر، مترجم، استاد، طالب علم اور عام شہری، سب کی شراکت درکار ہے۔ حکومتیں ساز و سامان فراہم کریں، مگر حقیقی تبدیلی عوامی سطح پر ادبی حیات کے ذریعے آئے گی۔ جب عوامی سطح پر ادب کی بنیاد پر ہم آہنگی قائم ہوگی تو سیاسی اختلافات بھی خود بخود کمزور پڑ جائیں گے۔
یہ کالم ایک پکار ہے، کہ پاکستان اور افغانستان کے لوگ اپنے قلموں کو پھر سے سفارت کار بنائیں۔ محبت، ہمدردی اور انسانی کہانیوں کے ذریعے وہ نفرت کی دیواریں جو سالوں میں بنیں، انہیں ایک ایک پتھر سے ہٹا دیں۔ جنگ کی حالت ختم ہو اور دونوں برادر اسلامی ملک ایک دوسرے کے قریب آئیں، یہی ہمارا وژن ہونا چاہیے۔ ہم چاہیں تو وہی کرکے دکھا سکتے ہیں جو چین اور روس نے ادبی روابط کی مدد سے کیا۔ اپنے معاشروں کی سوچ بدل کر، اپنے غریب اور مظلوم لوگوں کی حالت سنوار کر اور باہمی تعاون کے ذریعے ایک نئے امن کا دور قائم کرکے۔
کیونکہ آخرکار جو طاقت سب سے زیادہ پائیدار ہے وہ وہی ہے جو دلوں میں جگہ بنا لے اور جہاں دلوں میں امن ہو، وہاں سرحدیں محض خط بن کر رہ جاتی ہیں۔ ادب وہ وہم نہیں ہے جو صرف کاغذ تک محدود رہے، یہ عمل ہے، تحریک ہے اور زندگی ہے۔ اس زندگی کے ذریعے ہم نہ صرف جنگ کا خاتمہ کر سکتے ہیں بلکہ ایک روشن، باہمی احترام اور بھائی چارے والے مستقبل کی بنیاد بھی رکھ سکتے ہیں۔

