Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Adabi Sifarat Kari, Saqafati Rawabit Ki Rooh Aur Awaleen Safeer

Adabi Sifarat Kari, Saqafati Rawabit Ki Rooh Aur Awaleen Safeer

ادبی سفارت کاری، ثقافتی روابط کی روح اور اولین سفیر

دنیا کی تہذیبوں کو اگر کبھی کسی ایک دھاگے میں پرونا ممکن ہوا ہے تو وہ دھاگا ادب ہی ہے۔ سیاست، معیشت اور طاقت کے تیز بہاؤ کے بیچ ادب وہ پرسکون ندی ہے جو قوموں کے دلوں کو جوڑتی ہے۔ یہی وہ ندی ہے جو فاصلے گھٹاتی ہے، غلط فہمیاں دُور کرتی ہے اور انسان کے اندر چھپی ہوئی انسانیت کو بیدار کرتی ہے۔ اسی پس منظر میں بیجنگ میں حال ہی میں منعقد ہونے والا "چین-روس لٹریچر سیلون" ایک علامت بن کر اُبھرا، اس بات کی کہ ادب آج بھی قوموں کے درمیان سب سے مضبوط، سب سے لطیف اور سب سے مؤثر سفارت کاری کا ذریعہ ہے۔

روس اور چین کے درمیان ثقافتی تعلقات کی تاریخ صدیوں پر پھیلی ہے۔ مگر آج، جب دنیا کی سیاست سرد جنگ کے نئے سایوں میں لپٹی ہوئی محسوس ہوتی ہے، یہ ادبی رابطے پہلے سے کہیں زیادہ معنی خیز ہیں۔ پروفیسر لیو وین فی، جو روسی زبان و ادب کے ممتاز ماہر ہیں، نے اسی تقریب میں اپنی گفتگو میں وہ نکتہ بیان کیا جو ہر صاحبِ ذوق دل میں اتر جاتا ہے: "چین اور روس کے مابین ریاستی تعلقات میں اگر کوئی سب سے پائیدار، سب سے دل آویز رشتہ ہے تو وہ لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والا ثقافتی رشتہ ہے اور اس ثقافتی رشتے کا سب سے اعلیٰ مظہر ادب ہے"۔

یہ بات محض ایک فکری نعرہ نہیں، بلکہ تاریخ کا گواہ ہے۔ دنیا کی بڑی تہذیبوں میں وہی قومیں نمایاں رہیں جنہوں نے اپنے ادب کو زندہ رکھا۔ چین کی شاعری، نثر اور فلسفہ اس کے سنہری ادوار کی پہچان بنے۔ تانگ دور کی شاعری، سونگ دور کی نغمگی، یوان و منگ دور کے ڈرامے اور چنگ دور کے افسانے، یہ سب اس قوم کی روح کے آئینے ہیں۔ ان ہی تحریروں نے نہ صرف چینی معاشرے کی روح کو منور کیا بلکہ دنیا کے فکری افق پر بھی روشنی پھیلائی۔ آج کا چین بھی اپنی جدید ادبی لہروں کے ذریعے زمانے کے دھڑکتے ہوئے دل کی آواز بن چکا ہے۔

اسی طرح روس کی شناخت بھی اس کے ادب سے ہی بنی۔ شاید دنیا میں کوئی دوسری قوم ایسی نہیں جس کے ادیبوں نے عالمی فکروادب پر اتنا گہرا نقش چھوڑا ہو۔ پشکن، لرمنتوف، دوستوئیفسکی، ٹالسٹائی، چیخوف، یہ صرف نام نہیں، انسانی ضمیر کے ترجمان ہیں۔ ان کے قلم نے انسان کے دکھ، اس کی گمراہی، اس کی تلاشِ حق اور اس کی امید کو اس طرح بیان کیا کہ صدیوں کے فاصلے مٹ گئے۔ روس نے اپنی طاقت توپوں سے نہیں، قلم سے منوائی۔ یہی وجہ ہے کہ ایوگینی یفتوشینکو نے کہا تھا: "روس میں شاعر صرف شاعر نہیں ہوتا"۔

چین اور روس کا ادبی تعلق محض جدید دور کا مظہر نہیں بلکہ اس کی جڑیں اٹھارہویں صدی تک پھیلی ہیں۔ 1759 میں جب چینی ڈراما "یتیمِ ژاؤ" کا ترجمہ روسی زبان میں ہوا تو یہ ایک علامتی لمحہ تھا۔ دو عظیم ادبی دنیاؤں کا پہلا مصافحہ۔ اس کے بعد ادبی تبادلوں کی ایک سنہری روایت نے جنم لیا۔ 1903 میں پشکن کا ناول دی کیپٹن ڈاٹر چینی زبان میں شائع ہوا اور یہ وہ لمحہ تھا جب روسی ادب نے باضابطہ طور پر چینی قاری کے دل میں جگہ بنائی۔

رفتہ رفتہ یہ محبت ایک فکری رشتے میں ڈھل گئی۔ روس میں چین کے قدیم کلاسیکی ناولوں، سفید بندر کی کہانی، سرخ عمارت کا خواب، پانی کا کنارہ اور تین ریاستیں، کے تراجم کیے گئے۔ وہاں کے ادبی قارئین نے لی بائی، دو فو، لو شُن اور پُو سونگ لِنگ کو اپنے دل میں بسایا۔ دوسری طرف چین میں روسی ادب کی مقبولیت بے مثال رہی۔ لاکھوں کی تعداد میں ترجمے ہوئے، کروڑوں کی تعداد میں کتابیں شائع ہوئیں اور یوں ایک نسل نہیں بلکہ کئی نسلیں"روسی ادب کے عشق" میں پروان چڑھیں۔

پروفیسر لیو کے الفاظ میں"چینی عوام کے دل میں روس کے ساتھ جو محبت ہے، اس کی اصل جڑ روسی ادب سے وابستہ ہے"۔ یہ محبت محض علمی نہیں، جذباتی بھی ہے۔ وہ کردار، راسکولنیکوف، انا کارینینا، ایوان ایلیچ، چینی قاری کے لیے اجنبی نہیں رہے، بلکہ انسانی روح کے رفیق بن گئے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اب یہ محبت دو طرفہ رخ اختیار کر چکی ہے۔ روسی ماہرینِ لسانیات اور مترجمین نے حالیہ برسوں میں چینی ادب، خاص طور پر جدید تحریروں کی طرف بے پناہ توجہ دی ہے۔ اب روسی بک اسٹورز میں مو یان، یو ہوا اور تئی نِنگ کے ناول نمایاں جگہ پر رکھے جاتے ہیں۔ کچھ دکانوں میں"چینی ادب" کے نام سے مخصوص حصے قائم ہیں۔ حیرت انگیز طور پر 2024 میں روس میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب کوئی مغربی ناول نہیں بلکہ ایک چینی ویب ناول ہیون آفیشل بلیسنگ تھی۔ اگرچہ یہ روایتی معنوں میں"ادبِ عالیہ" نہیں، لیکن اس کی مقبولیت اس بات کی گواہی ہے کہ نئی نسل کے روسی قارئین کے دل چینی کہانیوں کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔

یہی تو ادب کی اصل طاقت ہے۔ سیاست سرحدیں کھینچتی ہے، مگر ادب انہیں مٹا دیتا ہے۔ وہ لوگوں کے درمیان وہی نرمی، وہی احترام، وہی قربت پیدا کرتا ہے جو کسی سفارت کار کے لیے شاید برسوں میں بھی ممکن نہ ہو۔ اسی لیے پروفیسر لیو نے "ادبی سفارت کاری" (Literary Diplomacy) کی اصطلاح استعمال کی۔ ان کے مطابق آج یہ تصور محض امکان نہیں رہا بلکہ حقیقت بن چکا ہے۔

2014 میں جب انہوں نے بیجنگ اور ماسکو کے ادبی جریدوں اکتوبر کو باہمی اشتراک کی تجویز دی تو اس کے نتیجے میں"چین۔ روس اکتوبر لٹریری فورم" قائم ہوا۔ 2016 میں دونوں ملکوں نے مل کر ایک فہرست تیار کی، چین میں سب سے زیادہ اثر ڈالنے والے دس روسی ادب پارے اور روس میں سب سے زیادہ مقبول دس چینی کتابیں۔ یہ صرف ایک ادبی مشق نہیں تھی، بلکہ دو قوموں کے باہمی احترام اور فکری رشتہ داری کی دستاویز تھی۔

آج جب دنیا میں نفرت اور تعصب کی دیواریں اونچی ہوتی جا رہی ہیں، ادب وہ نرم دستک ہے جو ان دیواروں کے پیچھے چھپے دلوں تک پہنچتی ہے۔ وہ سکھاتا ہے کہ انسان کہیں بھی ہو، اس کے دکھ، خواب، کمزوریاں اور امیدیں ایک سی ہیں۔ روسی ناول کا کردار اگر ضمیر کی کشمکش میں مبتلا ہے تو چینی افسانے کا ہیرو بھی اپنی روح کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ دونوں ایک ہی سوال اٹھاتے ہیں: انسان آخر کس لیے جیتا ہے؟

یہی سوال ادب کو زندہ رکھتا ہے۔ یہی سوال قوموں کو قریب لاتا ہے اور یہی سوال اس بات کا ثبوت ہے کہ ادب صرف الفاظ نہیں، بلکہ انسانیت کی سانس ہے۔

چین اور روس کے درمیان ادبی دوستی دراصل دو روحوں کی ہم آہنگی ہے۔ ایک مشرق کی تہذیب جو ہزاروں سال پرانی ہے، دوسری شمال کی سرزمین جو برف میں لپٹی ہوئی بھی گرم دل رکھتی ہے۔ دونوں نے دکھ جھیلے، انقلابات دیکھے، مگر اپنے قلم کی حرارت کو کبھی مدھم نہیں ہونے دیا۔ آج ان کے درمیان جو "ادبی سفارت کاری" پنپ رہی ہے، وہ آنے والے زمانے کی بنیاد بن سکتی ہے۔ ایسی بنیاد جس پر عالمی امن، احترام اور باہمی فہم و ادراک کی عمارت کھڑی ہو۔

ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ قوموں کے درمیان اصل تعلق صرف تجارتی معاہدوں یا فوجی اتحادوں سے قائم نہیں رہتا۔ وہ ان تخلیقی رشتوں سے جڑا رہتا ہے جو انسان کے اندر کی دنیا کو چھوتے ہیں۔ ادب، موسیقی، مصوری اور فنونِ لطیفہ وہ ستون ہیں جن پر تہذیبوں کی عمارت کھڑی ہے اور ان ستونوں میں ادب کا مقام سب سے بلند ہے۔

آج جب دنیا کی سیاست شور مچا رہی ہے، ادیب اب بھی خاموشی سے وہ سب کچھ کہہ رہا ہے جو دل کہنا چاہتا ہے اور یہی خاموشی انسان کے اندر انقلاب برپا کرتی ہے۔

چین اور روس کے ادبی رشتے کی کہانی دراصل انسان کے رشتے کی کہانی ہے۔ دل سے دل تک، خیال سے خیال تک اور خواب سے خواب تک۔ اگر کبھی کوئی پل واقعی قوموں کو جوڑنے میں کامیاب ہوا ہے تو وہ یہ ادبی پل ہے۔ یہی پل تہذیبوں کے بیچ محبت اور فہم کی روشنی پھیلاتا ہے۔

پروفیسر لیو کے الفاظ میں یہی امید جھلکتی ہے: "میں دل سے چاہتا ہوں کہ ہماری ادبی سفارت کاری آگے بڑھے اور دونوں اقوام کے درمیان مزید گہرے اور ثمر آور روابط پیدا کرے"۔

یہ دعا دراصل ہم سب کی دعا ہے۔ کیونکہ اگر دنیا کو واقعی کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ توپوں کی نہیں، کتابوں کی ہے۔ معاہدوں کی نہیں، کہانیوں کی ہے اور اقتدار کی نہیں، احساس کی ہے۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali