Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Ab Pakistan Ko Chera To India Mein Ghas Nahi Uge Gi

Ab Pakistan Ko Chera To India Mein Ghas Nahi Uge Gi

اب پاکستان کو چھیڑا تو انڈیا میں گھاس نہیں اُگے گی

یہ جملہ سن کر ایک لمحے کو دل مسکرا اُٹھا۔ لفظوں میں غیرت تھی، جذبہ تھا، مگر تکبر نہیں۔ اس میں ایک ایسی چمک تھی جو صرف اُن لوگوں کے لہجے میں اُترتی ہے جنہیں اپنے وطن سے عشق ہوتا ہے، مگر جو یہ عشق نعرے نہیں، کردار سے ثابت کرتے ہیں۔ یہ جملہ کسی عام شخص کا نہیں تھا۔ یہ اُن صحافیوں میں سے ایک کی زبان سے نکلا جن کے الفاظ میں توازن ہے، جو جذباتی کم اور حقیقت پسند زیادہ ہیں، جو الفاظ سے کھیل نہیں کھیلتے بلکہ اُنہیں احساس کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔

بات صرف ایک جملے کی نہیں۔ یہ ایک احساسِ خودی کا اعلان ہے۔ یہ اُن قوموں کے لیے پیغام ہے جو سمجھتی ہیں کہ پاکستان اب بھی کمزور ہے، کہ یہاں کی مٹی تھکی ہوئی ہے، کہ یہاں کے لوگ بکھر چکے ہیں۔ مگر شاید وہ نہیں جانتے کہ پاکستان کی مٹی کے ذرے ذرے میں اللہ کا ایک وعدہ بسا ہوا ہے۔ وہ وعدہ جو اُس وقت کیا گیا تھا جب یہ ملک لا الٰہ الا اللہ کے نام پر بنا تھا اور جس ملک کی بنیاد کلمۂ توحید پر رکھی جائے، اُسے مٹانے کی خواہش محض دیوانے کا خواب ہی کہلا سکتی ہے۔

"اب پاکستان کو چھیڑا تو انڈیا میں گھاس نہیں اُگے گی"، یہ جملہ دھمکی نہیں، تنبیہ ہے۔ یہ تکبر نہیں، اعلانِ صبر ہے۔ یہ دراصل اُن بے قرار لوگوں کے لیے جواب ہے جو بار بار تاریخ کے سبق بھول جاتے ہیں۔ جنہیں 1965 یاد نہیں، جنہیں کارگل کی برف پوش چوٹیوں سے گونجتی ہوئی تکبیریں یاد نہیں، جنہیں وہ سرحدیں یاد نہیں جہاں دشمن کے ٹینک تو آئے مگر آگے بڑھنے سے پہلے اُن کے ٹریک خود زمین میں دفن ہو گئے۔ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ پاکستان سے ٹکر لینے والا کبھی سکون سے نہیں رہ سکا۔

پاکستان کے لوگوں کی خاموشی کو کمزوری سمجھنے والے نہیں جانتے کہ یہ قوم جب جاگتی ہے تو زلزلے آتے ہیں۔ ہم شاید اختلاف کرتے ہیں، ہم سیاست میں بٹے ہوئے ہیں، ہم کبھی حکومتوں سے خوش نہیں ہوتے، مگر جب وطن کی بات آتی ہے تو ہم سب ایک صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چاہے لاہور کا مزدور ہو یا گلگت کا چرواہا، چاہے کراچی کا طالب علم ہو یا سوات کی ماں۔ سب کے لہجے میں ایک ہی آواز گونجتی ہے: "پاکستان زندہ باد!"

اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کو چھیڑنے کا مطلب صرف ایک ملک کو چھیڑنا نہیں، یہ ایک نظریے کو چھیڑنا ہے۔ یہ ایک ایمان کو للکارنا ہے اور ایمان سے بھری قومیں ہار نہیں مانتیں۔ وہ چاہے کتنی ہی مشکلات سے گزریں، چاہے اُن کے وسائل کم ہوں، مگر اُن کے دل بڑے ہوتے ہیں۔ یہ دل جب کسی مقصد پر جمع ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت اُنہیں روک نہیں سکتی۔

آج بھارت کی قیادت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر اپنی سیاست چمکا سکتی ہے، تو یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ طاقت بندوق سے نہیں، کردار سے بنتی ہے اور کردار کی طاقت صرف اُس قوم کے پاس ہوتی ہے جس نے قربانیاں دی ہوں، جس نے اپنے بیٹوں کو وطن پر نچھاور کیا ہو، جس نے زخم کھائے ہوں مگر پھر بھی اپنے پرچم کو جھکنے نہ دیا ہو۔ پاکستان نے وہ سب کچھ جھیلا ہے جو ایک قوم کو آزمانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ مگر آج بھی یہ ملک کھڑا ہے، مضبوط ہے اور ان شاء اللہ رہے گا۔

کسی بھی ملک کی اصل طاقت اُس کی افواج نہیں ہوتیں، اُس کے عوام ہوتے ہیں اور پاکستان کے عوام میں ایک عجیب سی مٹی کی خوشبو ہے۔ ایسی خوشبو جو مشکل میں اُبھرتی ہے۔ جس طرح بارش کے بعد زمین سے سوندھی مہک اُٹھتی ہے، ویسے ہی جب پاکستان کو آزمائش آتی ہے تو یہ قوم نکھر جاتی ہے۔ سیلاب آئے، زلزلہ آئے، دہشت گردی ہو یا دشمن کی سازش۔ اس قوم نے ہر بار دنیا کو حیران کر دیا ہے۔

انڈیا اگر یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کمزور ہے، لہٰذا وہ چاہے تو دباؤ ڈال سکتا ہے، تو اُسے یاد رکھنا چاہیے کہ قومیں صرف معیشت سے نہیں ٹوٹتیں، حوصلے سے ٹوٹتی ہیں اور پاکستانی کا حوصلہ اُس کے ایمان سے جڑا ہے۔ اس ایمان کو توڑنا ممکن نہیں۔ ہم نے جنگوں میں نقصان اٹھایا، سانحے جھیلے، مگر کبھی ہار نہیں مانی۔ کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہمارا رب وہی ہے جس بدر میں تھوڑوں کو زیادہ پر غالب کر دیا تھا۔

پاکستان کے دشمنوں کو شاید یہ بات سمجھنے میں ابھی وقت لگے گا کہ یہ ملک صرف جغرافیہ نہیں، ایک نظریہ ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں اذان کی صدا دلوں کو بیدار کرتی ہے، جہاں شہید کی مسکراہٹ خوف کو شکست دیتی ہے، جہاں ماں اپنے بیٹے کو رخصت کرتے ہوئے فخر سے کہتی ہے: "بیٹا، وطن کا قرض چکانا"۔

یہی تو وہ روح ہے جو بھارت کو سمجھ نہیں آتی۔ وہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ایک ریاست ہے جو بیرونی امداد پر چلتی ہے، مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ پاکستان ایک عقیدہ ہے جو اللہ کے نام پر قائم ہوا۔ اس ملک کی حفاظت کسی فوج یا حکومت نے نہیں، اُس اللہ نے کرنی ہے جس نے فرمایا: "اور تم اگر شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا"۔

یہ بات بھارت کے لیے پیغام ہے، مگر ہمارے لیے یاد دہانی بھی۔ ہمیں اپنے وطن کی قدر کرنی ہے۔ ہم اپنی صفوں کو مضبوط بنائیں، ہم اپنے اختلافات کو محدود کریں، ہم اپنی تعلیم، اپنی اخلاقیات، اپنی صنعت، اپنی معیشت، سب کو ایمان کے ساتھ جوڑ دیں۔ کیونکہ مضبوط پاکستان صرف نعرے سے نہیں، کردار سے بنتا ہے۔

اور جب ایک دن پاکستان کا ہر شہری اپنی جگہ سے کھڑا ہوگا، اپنے کام میں ایمان داری کے ساتھ، اپنے کردار میں سچائی کے ساتھ، اپنے وعدے میں وفا کے ساتھ، تو دنیا دیکھے گی کہ واقعی پاکستان کو چھیڑنا صرف بھارت کے لیے نہیں، پوری دنیا کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ ملک زندہ رہے گا۔ اس کے پہاڑ، اس کے دریا، اس کے کھیت، اس کی مٹی، سب گواہی دیں گے کہ یہاں ایمان بستا ہے۔ یہاں غیرت سانس لیتی ہے۔ یہاں محبت کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی دشمن انہیں کاٹ نہیں سکتا۔ لہٰذا، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کو کمزور کر سکتا ہے، تو وہ تاریخ، ایمان اور حقیقت، تینوں سے انجان ہے۔

یہ زمین ابھی خالی نہیں ہوئی۔ یہاں ابھی وہ مائیں زندہ ہیں جو اپنے بیٹوں کے کفن خود سیتی ہیں۔ یہاں ابھی وہ بچے ہیں جو فوجی بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔ یہاں ابھی وہ بزرگ ہیں جو نماز میں پاکستان کے لیے دعا کرتے ہیں۔

یہ ملک ایک احساس ہے اور احساس کو کوئی سرحد، کوئی توپ، کوئی سازش شکست نہیں دے سکتی۔

اس لیے وہ صحافی ٹھیک کہتے ہیں: اب پاکستان کو چھیڑا، تو انڈیا میں واقعی گھاس نہیں اُگے گی۔ کیونکہ جس زمین کے ذرے ایمان سے بھرے ہوں، وہاں دشمن کے قدم کبھی جم نہیں سکتے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan