Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Aaina Aur Aagahi Ka Aks

Aaina Aur Aagahi Ka Aks

آئینہ اور آگہی کا عکس

پانی کو چھو رہی تھی جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسیں کوئی آئینہ دیکھتا ہو

کبھی کبھی ایک شعر، ایک منظر، ایک لمحہ پوری کائنات کے راز افشا کر دیتا ہے۔ یہ دو مصرعے بظاہر ایک منظر کی تصویر ہیں، مگر اگر دل کی آنکھ کھلی ہو تو یہ ایک مکمل فلسفۂ حیات، آئینۂ خودی اور شعور کی ایک عظیم لہر بن کر دل و دماغ کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔ ایک سادہ سی شاخ ہے، پانی کے کنارے جھکی ہوئی، بار بار پانی کو چھو رہی ہے۔ لیکن شاعر نے اسے صرف ایک شاخ یا گل کی ٹہنی نہیں سمجھا، بلکہ اسے "حسین" کی تمثیل میں ڈھال دیا ہے، جو آئینہ دیکھنے کے لیے جھکتا ہے، خود کو دیکھنے، پرکھنے، سچ کو پانے، یا شاید خود سے ملنے کے لیے۔

یہ شعر ہمیں زندگی کی سطح پر جھانکنے کی بجائے، اس کی تہہ میں اترنے کی دعوت دیتا ہے۔ ذرا غور کیجئے: یہ گل کی ٹہنی کون ہے؟ پانی کیا ہے؟ اور وہ "حسین" جو آئینہ دیکھ رہا ہے، وہ کون ہو سکتا ہے؟ کیا یہ محض منظر ہے یا ایک وجود کی داخلی کیفیت کی تصویر؟ ایک ایک پرت کھولیے، تو انسان حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔

گل کی ٹہنی وہ وجود ہے جو نرم ہے، نازک ہے، مگر فطرت کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ وہ درخت سے جُڑی ہے، جڑ سے جُڑی ہے، مگر اس کا جھکاؤ خودی کی طرف ہے، آگاہی کی طرف ہے۔ وہ جھک رہی ہے، اپنی مرضی سے، غرور کے خلاف، بلند قامت ہونے کے باوجود، وہ پانی کو چھو رہی ہے۔ گویا وہ جھک کر حقیقت کو چھو رہی ہے، اپنی اصل کی طرف لوٹ رہی ہے۔ یہی جھکنا دراصل عروج ہے۔ کیونکہ جو جھکتا ہے، وہی اونچا ہوتا ہے۔ جو تکبر سے اکڑ جائے، وہ ٹوٹ جاتا ہے۔ سچ ہے کہ فطرت میں غرور کی کوئی جگہ نہیں۔

پانی کو چھونا گویا سچائی کو چھونا ہے۔ پانی زندگی ہے، شفافیت ہے، عکس ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جو سچ بولتا ہے، جو اصل دکھاتا ہے۔ جب گل کی ٹہنی پانی کو چھوتی ہے، تو وہ دراصل اپنے عکس کو دیکھتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ جو تصویر پانی میں ہے، وہی وہ اصل میں ہے۔ جو جھک کر پانی کو نہ چھو سکے، جو خود کو نہ پہچان سکے، وہ کتنا ہی تنا رہے، جڑ سے کٹ جائے گا۔

یہاں ہمیں "جھکنا" ایک روحانی تجربہ لگتا ہے۔ جیسے کوئی صوفی مراقبے میں خود کو دیکھتا ہے، ویسے ہی یہ گل کی ٹہنی پانی میں اپنا عکس دیکھتی ہے اور یہی عکس، یہی "خودی"، ہمیں ہماری حقیقت سے جوڑتی ہے۔ اقبالؒ کی زبان میں کہیں تو یہی خودی، بندے کو خدا سے ہمکلام کر دیتی ہے۔ لیکن شرط ہے کہ وہ جھکے، کہ وہ "میں" کو ختم کرے، کہ وہ خود کو آئینے میں دیکھنے کا حوصلہ رکھے۔

اب ذرا اس حسین کے استعارے پر غور کیجئے، جو آئینہ دیکھ رہا ہے۔ ہم سب انسان، کسی نہ کسی درجے میں "حسین" ہیں۔ ہمیں اپنی صورت سے محبت ہے، اپنی ذات سے انس ہے۔ ہم بار بار آئینہ دیکھتے ہیں، چہرہ سنوارتے ہیں، خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر یہ آئینہ اگر صرف ظاہری ہو، تو دھوکہ ہے۔ اصل آئینہ تو اندر ہے، دل کے پانی میں ہے، جہاں ہم اپنی نیتوں، خواہشوں، خوابوں اور گناہوں کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔ مگر کیا ہم جھک کر اس پانی کو چھوتے ہیں؟ کیا ہم جھک کر اپنے دل کا آئینہ دیکھنے کی ہمت رکھتے ہیں؟ اکثر نہیں۔ ہم خود سے بھاگتے ہیں۔ ہم اپنے سچ سے نظریں چرا لیتے ہیں۔ ہم خود کو فریب میں رکھ کر جیتے ہیں۔

یہی وہ لمحہ ہے جب یہ شعر ایک چٹان کی طرح ہمیں روکتا ہے۔ کہ اے انسان! رک جا، جھک جا، دیکھ لے اپنی حقیقت۔ فطرت کی ہر شے تجھے دعوت دے رہی ہے کہ تُو بھی گل کی ٹہنی بن، پانی کو چھو، جھک جا، آئینہ دیکھ۔ ورنہ یہ غرور کی زمین تیری جڑوں کو کھا جائے گی۔ تُو سوکھ جائے گا، مرجھا جائے گا اور کبھی سچ کا ذائقہ نہ چکھ سکے گا۔

اب اگر ہم اس شعر کو انسان کی زندگی کی ایک مکمل تمثیل مان لیں، تو زندگی کی تمام جہات کھلنے لگتی ہیں۔ بچپن گل کی ٹہنی جیسا نرم، نازک اور جھکنے والا ہوتا ہے۔ پھر جوانی آتی ہے، انا آتی ہے، اکڑ آتی ہے، آئینہ دھندلا جاتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے ہم جو بھی ہیں، ٹھیک ہیں، ہمیں کسی سچ کو چھونے کی ضرورت نہیں۔ مگر وقت گزرتا ہے اور ایک دن ہماری روح تڑپتی ہے، کیونکہ اندر کی پیاس ختم نہیں ہوتی۔ تب ہم فطرت کی طرف لوٹتے ہیں، روحانیت کی طرف، جیسے ایک تھکا ہارا مسافر واپس گھر لوٹتا ہے۔ یہی جھکنے کا لمحہ ہے، یہی لمحہ ہے جب آئینہ سچ دکھاتا ہے۔

اس شعر میں ایک سبق ہے، ایک پکار ہے، ایک فریاد ہے، کہ انسان! تو جو اتنا حسین ہے، تُو کب جھکے گا؟ کب آئینہ دیکھے گا؟ کب اپنے اندر کے پانی میں اپنی حقیقت تلاش کرے گا؟ تو کب جان پائے گا کہ زندگی کی سب سے بڑی کامیابی جھکنے میں ہے، خاموشی میں ہے، خود شناسی میں ہے؟

یاد رکھو، آئینہ وہی کچھ دکھاتا ہے جو اس کے سامنے جھکتا ہے۔ جو اس کے قریب آتا ہے۔ جو دور کھڑا ہو، یا اکڑ کر دیکھے، وہ صرف عکس کا فریب پاتا ہے، حقیقت نہیں۔ اگر تُو بھی چاہتا ہے کہ حقیقت کو پا لے، اپنی اصل کو چھو لے، اپنے رب کو پہچان لے، تو جھک جا۔ تو گل کی ٹہنی بن جا۔ پانی کو چھو۔ سچ کو دیکھ۔ خود کو پہچان۔

ہمارے اردگرد بے شمار لوگ ہیں جو ساری عمر آئینہ ہی نہیں دیکھتے۔ خود سے ملتے ہی نہیں۔ وہ معاشرے کے بتوں میں کھو جاتے ہیں۔ شہرت، دولت، حیثیت، طاقت، یہ سب پانی کو گندہ کر دیتے ہیں اور پھر آئینہ کچھ نہیں دکھاتا۔ نہ عکس، نہ سچ۔ صرف دھند۔

کبھی کسی بچے کو دیکھو، وہ جب پانی میں جھانکتا ہے، تو اس کی آنکھوں میں حیرت، معصومیت اور خوشی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ جھکنا جانتا ہے۔ وہ سیکھنے کو تیار ہوتا ہے۔ اس کی روح ابھی بوجھ سے پاک ہوتی ہے۔ ہم بھی اگر جھکنا سیکھ لیں، تو یہی حیرت، یہی خوشی، یہی معصومیت ہمیں لوٹائی جا سکتی ہے۔

یہ شعر ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ جھکنے کا تعلق صرف عاجزی سے نہیں، عشق سے بھی ہے۔ جو محبوب کے سامنے جھک جائے، وہی اصل عاشق ہے اور جو رب کے سامنے جھک جائے، وہی اصل بندہ ہے۔ اس جھکنے میں ذلت نہیں، عزت ہے۔ یہ جھکنا، سجدہ بن جائے تو انسان زمین پر بھی ہو کر عرش کو چھو لیتا ہے۔

اب سوچئے، اگر ایک گل کی ٹہنی جھک کر اپنی حقیقت کو چھو سکتی ہے، تو ہم کیوں نہیں؟ اگر ایک نازک شاخ آئینہ دیکھنے کا حوصلہ رکھتی ہے، تو ہم جو اشرف المخلوقات ہیں، ہم کیوں خود سے نظریں چرا لیتے ہیں؟ شاید اس لیے کہ ہمیں سچ کا سامنا کرنے سے ڈر لگتا ہے۔ مگر یہی سامنا اصل آزادی ہے۔ جو اپنے آپ سے مل جائے، وہ دنیا کے کسی زنجیر میں قید نہیں رہتا۔ وہ آزاد ہو جاتا ہے۔ وہ جینا سیکھ جاتا ہے۔

زندگی کا سب سے بڑا ہنر ہے جھکنا، مگر وقت پر۔ آئینہ دیکھنا، مگر سچ کا۔ پانی کو چھونا، مگر عاجزی سے۔ تبھی عکس نکھرتا ہے، تبھی دل چمکتا ہے، تبھی روح مہکتی ہے۔

اس شعر نے ہمیں ایک راز دیا ہے، راز خودی کا، عشق کا، عاجزی کا، سچائی کا، زندگی کا۔ یہ محض الفاظ نہیں، یہ آئینہ ہے۔ اگر آپ نے دل سے پڑھا، تو شاید آج آپ نے اپنا عکس دیکھ لیا ہوگا اور اگر واقعی دیکھا، تو اب جھکنا سیکھ لیجئے۔ کیونکہ جو جھک گیا، وہی بچ گیا۔ جو جھک گیا، وہی سچ تک پہنچا۔ جو جھک گیا، وہی روشن ہوا۔

پانی کو چھو رہی تھی جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسیں کوئی آئینہ دیکھتا ہو

بس اتنا ہی کہوں گا کہ اگر آپ یہ شعر پڑھ کر بھی نہ جھکے، تو شاید کبھی سچ کو نہ پا سکیں۔ لیکن اگر آپ جھک گئے، تو یقین کریں، آئینہ آپ کو آپ کی اصل دکھا دے گا اور یہی اصل، آپ کی روشنی ہے، آپ کا سفر ہے، آپ کی نجات ہے۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan