Tuesday, 29 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Ali Durrani
  4. Pakistan Mein Tehqeeq Ka Bohran

Pakistan Mein Tehqeeq Ka Bohran

پاکستان میں تحقیق کا بحران

تحقیق کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کا بنیادی جزو ہے۔ وہی اقوام دنیا میں نمایاں مقام حاصل کرتی ہیں جو تحقیق و جستجو کو اپنا شعار بناتی ہیں۔ بدقسمتی سے، پاکستان میں تحقیق کا شعبہ تنزلی کا شکار ہے اور اس زوال کے کئی عوامل ہیں۔

اگر کسی بھی ملک میں اچھے محققین موجود ہوں تو اس ملک کی ترقی کی راہ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اسی طرح، اگر پاکستان میں تحقیق کے حوالے سے بات کی جائے تو یہاں تحقیق کا ایک انتہائی ناقص نظام رائج ہے، بلکہ یہ مسئلہ آج کا نہیں بلکہ کئی صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے جب ہم نے پشاور کی ایک نجی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت اور ابلاغ عامہ کے لیکچرر امجد خان سے بات کی تو انہوں نے تفصیل سے تحقیق کے بارے میں گفتگو کی۔

امجد خان کے مطابق تحقیق وہ عمل ہے جو ایک سوال سے شروع ہوتا ہے اور پھر مزید سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ ایک منظم طریقہ کار ہے جس میں ایک خاص سوال یا مسئلہ منتخب کیا جاتا ہے، پھر مختلف ذرائع سے معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اور ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ سوال کے تمام پہلوؤں کا گہرائی سے مطالعہ کیا جا سکے۔ تجزیے کے دوران مختلف نظریات اور ماڈل کو مدنظر رکھا جاتا ہے تاکہ سوال کا جامع اور منطقی جواب تلاش کیا جا سکے۔ تحقیق کا اختتام اس وقت ہوتا ہے جب نتائج کو واضح اور مفصل انداز میں پیش کیا جاتا ہے، جو ابتدائی سوال کا جواب فراہم کرتے ہیں یا اس کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس عمل کا مقصد صرف سوالات کے جوابات تلاش کرنا نہیں، بلکہ نئے سوالات کو جنم دے کر علم کے دائرے کو وسیع کرنا بھی ہے۔ امجد خان کے مطابق تحقیق ہر جواب سے مزید سوالات کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

آج کل پاکستان کی یونیورسٹیوں میں معیاری تحقیق کا فقدان ہے۔ دنیا میں تحقیق کا معیار مسلسل بہتر ہو رہا ہے، مگر ہمارے ہاں تحقیق کا معیار تسلی بخش نہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سب سے بڑی وجہ فنڈنگ کی کمی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں جب طالب علم کسی موضوع پر تحقیق کرتے ہیں تو یونیورسٹیاں انہیں خصوصی فنڈز فراہم کرتی ہیں، مگر پاکستان میں ایسا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسی وجہ سے اکثر طلبہ ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جن پر پہلے ہی تحقیق ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ پہلے سے موجود مواد کو کاپی کرتے ہیں اور اسے اپنے تحقیقی کام میں شامل کر لیتے ہیں، جس کے باعث تخلیقی تحقیق سامنے نہیں آتی۔ اس طرح طلبہ کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ جو کام کر رہے ہیں، وہ اصل تحقیق کے زمرے میں آتا بھی ہے یا نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں طلبہ کے لیے تحقیق کے حوالے سے سہولیات ناکافی ہیں۔ جب تحقیقی کام کے لیے مناسب فنڈز موجود نہ ہوں تو معیاری تحقیق ممکن نہیں رہتی۔

اس کے علاؤہ اگر تحقیق کے اقسام پر بات کرنا بھی ضروری ہے تو تحقیق مختلف اقسام پر مشتمل ہو سکتی ہے، جو مختلف موضوعات اور طریقہ کار پر مبنی ہوتی ہیں۔

بنیادی تحقیق وہ ہے جو سائنسی اصولوں اور نظریات کو سمجھنے کے لیے کی جاتی ہے اور اس کا مقصد کسی مخصوص مسئلے کا حل نکالنے کے بجائے علم میں اضافہ کرنا ہوتا ہے، جیسے فزکس، کیمسٹری اور بایولوجی یا دیگر شعبوں میں ہونے والی تحقیق۔

مقداری تحقیق یہ تحقیق اعداد و شمار پر مبنی ہوتی ہے اور مختلف رجحانات، تعلقات اور شماریاتی تجزیے کے ذریعے نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔

معیاری تحقیق اس تحقیق میں مشاہدات، انٹرویوز اور بیانیہ تجزیے شامل ہوتے ہیں، جن کے ذریعے کسی مسئلے کی گہرائی میں جا کر اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

تجرباتی تحقیق یہ تحقیق لیبارٹری یا عملی میدان میں تجربات کے ذریعے کسی نظریے کی تصدیق یا تردید کے لیے کی جاتی ہے، خاص طور پر سائنسی اور طبی تحقیق میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔

تاریخی تحقیق یہ تحقیق تاریخی واقعات اور ان کے اثرات کا تجزیہ کرتی ہے تاکہ ماضی کے حقائق کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے اور پالیسی سازی میں مدد ملے۔

ایکشن ریسرچ یہ تحقیق تعلیمی یا کاروباری مسائل کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے کی جاتی ہے، جس میں عملی اقدامات کے ذریعے بہتری لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پاکستان میں تعلیمی نظام تحقیق کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے رَٹّا سسٹم کو فروغ دیتا ہے۔ طلبہ کو تحقیق کے بنیادی اصولوں سے روشناس کرانے کے بجائے محض نصابی کتابوں تک محدود رکھا جاتا ہے۔ یونیورسٹیوں میں تحقیق کے لیے وسائل اور جدید آلات کی عدم دستیابی بھی اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہے۔

تحقیق کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز وسائل اور فنڈز ہیں، لیکن پاکستان میں تحقیق کے شعبے کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ تحقیق پر خرچ کرتے ہیں، جبکہ پاکستان میں تحقیق کے لیے مختص بجٹ نہایت محدود ہے۔ تحقیقی منصوبوں کے لیے مختص فنڈز اکثر غیر مؤثر پالیسیوں اور بدعنوانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔

تحقیقی مقالوں میں سرقہ ایک عام مسئلہ بن چکا ہے، جس کے باعث اصل تحقیق کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس کے علاوہ تحقیقی اساتذہ اور ماہرین کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جو طلبہ کی تحقیقی صلاحیتوں کو کمزور کر رہی ہے۔ بعض یونیورسٹیوں میں جعلی اعداد و شمار کا استعمال بھی عام ہو چکا ہے، جو تحقیق کے معیار کو مزید متاثر کر رہا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں سائنسی اور تکنیکی تحقیق پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ جدید سائنسی تحقیق کے فقدان کے باعث ملکی معیشت، زراعت، صحت اور ٹیکنالوجی جیسے شعبے عالمی معیار سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ خاص طور پر بایوٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور دیگر جدید سائنسی میدانوں میں پاکستان کا حصہ نہایت کمزور ہے۔

پاکستان میں تحقیق کے فروغ کے لیے تعلیمی نظام میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ نصاب میں ایسے مضامین شامل کیے جائیں جو طلبہ میں تحقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کریں۔ اساتذہ کو جدید تحقیقی طریقوں کی تربیت دی جائے تاکہ وہ طلبہ کی بہتر رہنمائی کر سکیں۔ حکومت اور نجی ادارے تحقیق کے لیے بجٹ میں اضافہ کریں تاکہ محققین کو جدید سہولیات میسر آ سکیں۔

تحقیق کی حوصلہ افزائی کے لیے تحقیقی ایوارڈز اور گرانٹس دی جائیں اور طلبہ کو تحقیق کو بطور کیریئر اپنانے کے لیے راغب کیا جائے۔ یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں میں باقاعدگی سے ورکشاپس، سیمینارز اور کانفرنسز منعقد کی جائیں تاکہ طلبہ اور اساتذہ تحقیق میں مزید دلچسپی لے سکیں۔

پاکستان میں تحقیق کے شعبے کو اگر سنجیدگی سے ترقی دی جائے تو یہ ملک کی اقتصادی، سائنسی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کے لیے حکومت، تعلیمی اداروں، اساتذہ اور نجی شعبے کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ پاکستان بھی تحقیق و جستجو کے میدان میں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ کھڑا ہو سکے۔ تحقیق کے فروغ سے نہ صرف تعلیمی میدان میں ترقی ممکن ہوگی بلکہ معیشت، ٹیکنالوجی، طب اور زراعت جیسے اہم شعبوں میں بھی بہتری آئے گی۔

Check Also

Bare Khwabon Ka Aghaz Aik Khwab Se Hota Hai

By Muhammad Saqib