Pehla Passport
پہلا پاسپورٹ

ماہ نومبر 1997 کے ایک سہانے چمکتے دن اکنامکس ڈیپارٹنمنٹ کے سر اشتیاق صاحب کا لیکچر سن کر باہر نکلے، اگلا پیریڈ فری تھا، دوستوں کو تلاش کرتا اوول گراؤنڈ پہنچا، ٹکڑی بنا کر ایک ناول پڑھ رہے تھے، ٹائٹل دیکھا، استاد محترم مستنصر حسین تارڑ کا ناول "نکلے تیری تلاش میں"، اگلے پیریڈ کا وقت ہونے تک میں بھی ان کے ساتھ چپکا رہا، کچھ دن بعد اقبال ہوسٹل میں ایک کلاس فیلو کے کمرے میں وہی ناول نظر آیا، پڑھنے کیلئے مستعار لیا، ایک مرتبہ پڑھا پھر سب کچھ سائیڈ پر رکھ کر دو مرتبہ پڑھا، ناول میں ایک مختلف دنیا تھی جس کے بارے نہ کبھی سُنا اور نہ سوچا، سوشل میڈیا جیسے ذرائع ابلاغ کی سہولت ناپید تھی، جو کچھ بھی تھا وہ فقط اخبارات، کتاب یا ٹی وی پر میسر تھا۔
کالج میں اکثر بیرون ممالک سے یونیورسٹیوں کے وفود آتے تھے، ان کو دیکھ کر دل میں ٹھان لی کہ جو بھی ہو، جیسے بھی ہو ایک مرتبہ بیرون ملک تعلیم کیلئے ضرور جانا ہے اور ناول میں لکھی گئی چیزوں بارے خود مشاہدہ کرنا ہے، معلوم ہوا کہ خرچہ بہت زیادہ ہے، حساب کتاب لگایا، ابا جی یہ افورڈ کر سکتے تھے لیکن ان سے بات منوانا جوئے شیر لانے مترادف تھا۔
موسم گرما کی ایک رات میرے آبائی گھر کی بیٹھک میں سید زیشان شاہ کاظمی اور میں، ایک نئی فلم "ہم دل دے چکے صنم" دیکھ رہے تھے، فلم کے ایک سین میں اجے دیو گن اور ایشوریہ رائے کو یورپ میں لٹیرے لوٹ لیتے ہیں، تب شانی شاہ بولا "غور سے دیکھ لو، یورپ میں ایسا بھی ہوتا ہے، نہ کوئی مددگار، نہ آگے اور نہ پیچھے"۔ میرا جواب تھا "اللہ مالک ہے"۔ خیر گھر والوں سے کچھ جھوٹ وسچ بولے، مگر وہ راضی نہ تھے، اکلوتے بیٹے کو جُدا نہیں کرنا چاہتے تھے، میں کھانا پینا چھوڑ دیا تب خود ہی راضی ہوگئے، اگلا مرحلہ پاسپورٹ بنوانا جس کیلئے پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ ضروری تھا، ان دنوں حافظ آباد سے کوریج اخبار شائع ہوتا تھا جس کے سٹاف کے ساتھ میری بہت اچھی دوستی، ایڈیٹر یاسر عظیم چوہان نے گائیڈ کیا اور سمجھایا "کسی کو ایک پیسہ مت دینا، خود ہی پولیس تھانے جا کر جمع کرواؤ"۔ ضروری کاغذات و بیان حلفی اکٹھے کرکے جمع کروایا، دو مرتبہ پتہ کرنے گیا، معلوم ہوا کہ ابھی تحت کاروائی ہے، تین دن بعد گیا تو پولیس کلیرنس سرٹیفکیٹ بغیر کوئی پیسہ دیئے تیار تھا، سکون کا سانس لیا کہ اب منزل کی طرف پہلا عملی قدم اٹھا لیا ہے۔
میرا پہلا شناختی کارڈ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ کا اجراء تھا، ایک دوست سے ملنے فیصل آباد گیا تھا، وہاں اس کے مشورے پر مقامی فیصل آباد پاسپورٹ آفس گئے لیکن وہاں سے جواب ملا "لاہور جاؤ"، چونکہ بسلسلہ تعلیم لاہور میں مقیم تھا، پاسپورٹ آفس واقع قلعہ گوجر سنگھ جا پہنچا، خلاف معمول موسم سرد لیکن خوشگوار دھوپ، دروازے کے باہر بہت سارے ٹاؤٹ حضرات موجود، باری باری سب نے پوچھا، "آؤ باؤ جی پاسپورٹ بنوانا ہے"۔ "پاسپورٹ بنوا دیتے ہیں"۔ پاسپورٹ ارجنٹ بن جائے گا۔ ان سب کو سائیڈ پر کرکے فارم لیا، وہیں بیٹھ کر پُر کیا اور جمع کروانے کیلئے لمبی لائن میں لگ گیا، دوسری طرف ایک لائن غیر ملکی دوشیزاؤں کی، سب کی نظریں انہی پر گامزن، گوری و بے داغ رنگت جو ہم برصغیر والوں کو کچھ زیادہ ہی متوجہ کرتی ہے، یہ اس گورے رنگ کا کمال تھا کہ لائن بہت رینگ رینگ کر چل رہی تھی اور کھڑکی پر متعین بابو جب ایک امیدوار کا فارم جمع کرلیتا تو اسے آواز دیکر اگلے امیدوار کو اپنی جانب بلانا پڑتا تھا۔
"جناب آگے تشریف لے آؤ"، "جناب تہاڈی واری آ گئی اے"، "جناب فارم جمع کروا لو"۔
اپنی باری پر ارجنٹ فیس کے ساتھ فارم جمع کروایا، دو بجے پاسپورٹ وصولی کا وقت ملا، وہیں گھوم پھر کر انتظار کیا، ریڑھی والے سے چاول چنے کھائے، دو بجے پاسپورٹ لینے گیا تو کھڑکی والے بابو نے فرمایا "آپ دوسرے کمرے میں بڑے صاحب کے پاس تشریف لے جائیں"، وہاں گیا، اپنا تعارف کروایا، ایک صاحب کو معاملہ گوش گذار کیا، اس نے دوسری میز کی طرف بھیج دیا، وہاں ایک مولوی ٹائپ لمبی داڑھی والے صاحب، ہاتھ میں موٹے منکے والی تسبیح تھامے براجمان، معاملہ سن کر اس نے دراز کھولی، کچھ فارم نکالے، پھر غور سے ایک فارم پر دیکھ کر بآواز بلند میرا نام پڑھا اور بولا "اپنا پہلا پاسپورٹ لاؤ"۔ میں نے عرض کیا "پہلی مرتبہ پاسپورٹ اپلائی کیا ہے"۔ اس نے میری بات رد کر دی "برخوردار اپنا پہلا پاسپورٹ لاؤ"۔ عرض کیا "میں گورنمنٹ کالج لاہور کا سٹوڈنٹ ہوں، آج تک پاکستان سے باہر نہیں گیا، پہلی مرتبہ پاسپورٹ اپلائی کیا ہے"۔ میری بات سن کر اس نے فائل بند کردی، میں دوبارہ سے وہی عرضداشت پیش کی "میرا کوئی پولیس ریکارڈ نہ ہے، ہمیشہ سے سکول و کالج کا ٹاپ سٹوڈنٹ ہوں"۔ وہ کہنے لگا "اپنا شناختی کارڈ دکھاؤ"۔ دیکھ کر بولا "یہ شناختی کارڈ دوسرے ضلع کا بنا ہے"۔ عرض کیا "آئین پاکستان کی رُو سے اگر آپ کسی ضلع میں چھ ماہ سے زیادہ قیام پذیر ہیں تو آپ اسی ضلع سے اپنا شناختی کارڈ و پاسپورٹ اجراء کروا سکتے ہیں اور اگر کوئی قانونی معاملہ ہو تو اسی ضلع کی کسی بھی آئینی عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں"۔
وہ ہنس کر بولا "یہ قانون کتابوں میں لکھا ہے، اگر ریلیف چاہیئے تو عدالت چلے جاؤ"۔ عرض کیا "میرے امتحانات سر پر ہیں، کل پہلا پیپر ہے، گوجرانوالہ جانے اور آنے میں وقت کا ضیاع ہوگا"۔ اس نے نرم ہو کر پوچھا "پاسپورٹ پر پروفیشن کیا لکھا ہے؟" عرض کیا "طالب علم ہوں اور کالج کا اصل سرٹیفکیٹ بھی ہمراہ لف کر دیا ہے"۔ اس نے میرا فارم غور سے دیکھا "بی اے، رول نمبر 220"، پھر پوچھتا "چائے پیئو گے؟"، عرض کیا "تکلف کی ضرورت نہیں، آپ فارم کلیئر کردیں یہی نوازش ہوگی"۔ وہ کرسی پر سیدھا ہو کر بولا "آپ پاسپورٹ کیوں بنوانا چاہتے ہیں؟" عرض کیا "پاسپورٹ بنوانا ہر شہری کا حق ہے"۔
مجھے غور سے دیکھ کر بولا "آپ جینوئن سٹوڈنٹ لگتے ہو"۔ میں نے جواب دیا "میں جینوئن سٹوڈنٹ ہی ہوں، ہمیشہ ٹاپ کیا ہے، اخبارات میں نام چھپتا رہا ہے، تراشے میرے پاس موجود ہیں" اور ساتھ ہی گوجرانوالہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کا رزلٹ کارڈ اور جنگ اخبار میں شائع ہونے والا رزلٹ دکھایا جس میں میرا آٹھواں نمبر تھا، کچھ لمحات خاموشی طاری رہی پھر وہ بولا "ٹھیک ہے مان لیتا ہوں لیکن آپ کا پہلا پاسپورٹ کہاں ہے؟"، اب میں زچ ہو چکا تھا، کہنا پڑا "اب کیا بیان حلفی جمع کرواؤں؟"
وہ زیرلب مسکراتا بولا "بیان حلفی سے کچھ نہیں ہوگا، آپ کو پہلا پاسپورٹ دکھانا ہی پڑے گا"۔ میں نے پوچھا "تو اس مسئلے کا کیا حل ہے؟" وہ دھیرے سے بولا "آپ سٹوڈنٹ بندے ہو اور سٹوڈنٹ بھی جینوئن، گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لینا ہی بہت مشکل ہے، پاکستان کا سب سے ہائی میرٹ ہوتا ہے، اس کالج میں قدم رکھنا میری اور میرے بچوں کی حسرت ہی رہ گئی، کالج بھی مہنگا ہے، آپ کیلئے سپیشل ڈسکاؤنٹ"۔ یہاں پہنچ کر وہ خاموش ہوا، وقفہ دیکر تجسس بڑھاتے بولا "دس ہزار زیادہ لوں گا"۔ پوچھا "کس بات کا؟" میں پیدائشی ضلع گوجرانوالہ سے ہوں، برما کا بارڈر پار کرکے نہیں آیا ہوں"۔ وہ دھوبی پٹرا مارتے بولا "آپ کا شناختی کارڈ دوسرے ضلع سے ہے، آپ نے پہلے بھی پاسپورٹ بنوایا ہے"۔ وغیرہ وغیرہ۔
میں تنگ ہو کر اٹھا اور دروازے سے باہر نکل گیا، ایک دکان سے لنگوٹیئے یارِغار کو فون گھمایا، اتفاق سے وہ موجود تھا، معاملہ گوش گذار کیا، طے پایا کہ کچھ دے دلا کر پاسپورٹ بنواؤ، واپس اسی مولوی کے پاس گیا، مجھے اندر داخل ہوتا دیکھ کر وہ احترام سے کھڑا ہوگیا "جی جناب ہمارے راوین صاحب"۔ میں بھی چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجا کر کرسی پر بیٹھ گیا، معاملہ دس ہزار کی بجائے پانچ ہزار میں طے ہوا، تب اس نے یک بیک دایاں ہاتھ ہوا میں بلند کیا اور مجھے بھی ہاتھ اٹھا کر حلف دینے کو کہا، "میں اپنی مرضی سے پانچ ہزار دے رہا ہوں، مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ہے اور نہ مجھ سے کسی نے زور زبردستی کی ہے اور نہ مجھ سے کسی نے پیسے مانگے ہیں، کسی کو نہیں بتاؤں گا اور نہ کسی عدالت میں رِٹ دائر کروں گا"۔
ازراہ تجسس پوچھا "آپ کیا سوچ کر یہ حلف لے رہے ہیں؟"، وہ بولا "دیکھیں جی ہم سب مسلمان ہیں، حق حلال کی روٹی کھاتے ہیں، آپ ہمارے بچوں جیسے ہو، اگر کل کو آپ بیوروکریٹ بن گئے تو ہمارا جینا حرام کر دو گے لیکن امید ہے کہ حلف کی رُوگردانی نہیں کرو گے"۔ میں مسکرایا تو وہ بولا "دیکھیں مائی ڈیئر راوین ایک دن سب کو مرنا ہے میں کوئی گناہ اپنے ساتھ لیکر نہیں جانا چاہتا، آپ کا پاسپورٹ ارجنٹ بنوا دیتا ہوں، ایک گھنٹے بعد آپ کھڑکی سے وصول کر لینا"۔

