Insaf Ki Dehleez Par Jalta Hua Mazdoor
انصاف کی دہلیز پر جلتا ہوا مزدور

کل لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں ایک ایسی چیخ بلند ہوئی جس نے پورے نظام عدل اور معاشرتی بے حسی کے چہرے سے نقاب ہٹا دیا۔ ایک مزدور، انصاف کی امید لیے عدالت کے دروازے پر آیا، لیکن جب سُنائی نہ دی تو اپنی آخری پکار آگ میں بدل دی۔
یہ صرف ایک شخص کا دکھ نہیں تھا، یہ ہر اُس مزدور کی داستان ہے جو برسوں اپنی محنت کا حق مانگتا ہے، لیکن عدالتوں، دفتروں اور کارخانوں کے ٹھیکیداروں کی دہلیزوں پر دھکے کھاتا رہتا ہے۔ یہ کہانی صرف لاہور ہائی کورٹ کے باہر جلنے والے شخص کی نہیں، یہ ہر اُس محنت کش کی کہانی ہے جس کی زندگی کی مشعل روز بروز غربت، استحصال اور سماجی ناانصافی کے ایندھن سے بجھ رہی ہے۔
آصف جاوید ایک محنت کش تھا جو ایک معروف ملٹی نیشنل فوڈ اینڈ بیوریج کمپنی میں کام کرتا تھا۔ زرائع کے مطابق 2015 میں اسے مزدور یونین میں سرگرم ہونے کی پاداش میں نوکری سے برطرف کر دیا گیا۔ اس نے اپنے حقوق کے لیے مزدور عدالت اور نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن (NIRC) سے رجوع کیا، جہاں اس کے حق میں فیصلہ آیا، لیکن کمپنی نے اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ پانچ سال گزر گئے مگر آصف اور اس کے ساتھی انصاف کے منتظر ہیں۔
پاکستان میں مزدوروں کی ایک بڑی تعداد صنعتوں میں ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرتی ہے۔ یہ مزدور کارخانوں، دفاتر اور سرکاری اداروں میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔ ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرنے والے مزدور شدید استحصال کا شکار ہیں جہاں نہ تو حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم اجرت دی جاتی ہے، بلکہ انہیں بنیادی سہولیات، بشمول صحت، پنشن اور دیگر مراعات سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔ صنعتی اداروں میں ٹھیکیداران کی ایک اپنی الگ ریاست دیکھنے کو ملتی ہے۔
کنٹریکٹ کی بنیاد پر کام کرنے والے ان مزدوروں کو جب چاہے نکال دیا جاتا ہے اور انہیں کسی قسم کا قانونی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ جب یہ مزدور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، تو انہیں نوکری سے نکالنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں، یا پھر جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے۔
اور شاید انہی نا انصافیوں سے متاثر ہوتے ہوے صوبہ پنجاب میں لیبر کوڈ 2024 تھرڈ پارٹی نظام کو قانونی حثیت دینے کے لیے بھونڈی کوشش کی گئی جس کی مخالفت صوبہ بھر کی یونیز، قائدین و کارکنان آج تک کر رہے ہیں۔ پاکستان میں موجود مزدوروں کو تحفظ دینے کے قوانین کو اور پچیدہ کرنے کی کوشش جاری ہے۔
پاکستان میں مزدور کی زندگی ایک مسلسل امتحان ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ وہ کون سے حالات ہوتے ہیں جو ایک مزدور کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ خود کو آگ لگا لے؟ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ مزدور جو معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے، جو فیکٹریوں میں دن رات کام کرکے ہماری ضروریات پوری کرتا ہے، جس کی محنت سے یہ عمارتیں، یہ سڑکیں، یہ کارخانے چلتے ہیں، وہی سب سے زیادہ بے بس اور مظلوم کیوں ہے؟
یہ وقت صرف آنسو بہانے کا نہیں بلکہ جاگنے کا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کب تک مزدور یوں ہی جلتے رہیں گے، کب تک ان کے بچوں کے چہروں پر بھوک کی لکیر گہری ہوتی جائے گی، کب تک یہ ناانصافی کا کھیل جاری رہے گا؟ مزدور کا حق صرف وعدوں اور قوانین کی کتابوں میں نہیں، بلکہ عملی اقدامات میں نظر آنا چاہیے۔
مزدور کی زندگی کسی کھیل کا حصہ نہیں، اسے انصاف، عزت اور بنیادی حقوق فراہم کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے۔ اگر آج بھی ہم نے اپنی بے حسی نہ توڑی، تو آنے والے دنوں میں مزید مزدور جلیں گے، مزید آنسو بہیں گے اور انصاف کی عمارت مزید کھوکھلی ہوتی جائے گی۔
یہ بھوک ہے جو ہر جرم کو جنم دیتی ہے
یہ بھوک ہے جو انسان کو مار دیتی ہے

