Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asad Ur Rehman Aasi
  4. Barhti Hui Naqal Makani

Barhti Hui Naqal Makani

بڑھتی ہوئی نقل مکانی

سمندر پار پاکستانی اور انسانی وسائل و ترقی کی وزارت کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں بتیس لاکھ پچھتر ہزار پاکستانی جو کہ آبادی کا 1.3 فیصد ہیں بہتر مستقبل اور روزگار کے لیے ملک چھوڑ گئے۔ پاکستان سے 2023 میں 9 لاکھ افراد بیرون ملک ہجرت کر چکے ہیں، جو کہ 1971 کے بعد دوسری سب سے بڑی ہجرت ہے۔

بیرون ملک سے نقل مکانی یا نوکری کی پیشکشوں کے باوجود پاکستانیوں کو دیگر ممالک سے آے ہوے مزدوروں کی طرح روزگار کے حوالے سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عمومی مسائل میں کم اجرت کا ملنا، تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیریا عدم ادائیگی، اجرت سے زیادہ کام لینا یا اضافی کام کا معاوضہ نا ملنا شامل ہیں۔

بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق یہ عمل زیادہ تر تعمیراتی اور گھریلو کام کے شعبوں میں دیکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بیرون ملک جا کر کام کرنے والے پاکستانی مزدوروں کو غیر محفوظ کام کے حالات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ چوٹوں، معذوری یا اکثر موت کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ کام کے لیے ایگریمنٹ یا معاہدے میں تبدیلیاں اور پاسپورٹ ضبط کرنا ایک معمولی سی بات ہے۔ بہت سے مزدور کمپنیوں یا مالکان سے ادھار لینے کے بعد قرض کی غلامی میں بھی پھنس جاتے ہیں، اکثر مزدوروں کو کام یا نوکری کے حصول کے لیے بھاری فیسیں بھی ادا کرنا پڑتی ہیں ہیں اور بعض اوقات مزدور قرض کی ادائیگی کے لیے استحصال کا شکار بھی ہوتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور عالمی ادارہ محنت کی تصانیف میں ان زیادتیوں کو نمایاں کرکے بیان کیا گیا ہے، خاص طور پر خلیجی ممالک میں موجود مائیگرنٹ ورکرز کے تحفظ کے لیے فوری اصلاحات کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔

بیرون ممالک موجود مزدوروں کی حفاظت قانونی فریضے سے زیادہ ایک اخلاقی ذمہ داری ہے۔ وہ نا صرف پاکستان بلکہ اپنے میزبان ممالک دونوں کی معیشتوں کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

منصفانہ ترقی کے لیے ان کے حقوق کا تحفظ بہت اہمیت کا حامل ہے اور یہ نا صرف مزدوروں کے خلاف ہونے والے استحصال کو روکنے میں بھی مدد کرتا ہے بلکہ انہیں ہر طرح کی بدسلوکی سے بھی بچاتا ہے۔ ان تمام مشکلات کو حل کرنے کے لیے پاکستان اور عالمی سطح پر موجود یونینز اس کوشش میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں۔ وہ بیرون ممالک میں موجود مزدوروں کو نا صرف قانونی مدد کی پیشکش کرتی ہیں بلکہ آجروں /مالک کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں، اور محنت کشوں کے لیے بہتر کام کے حالات اور حقوق کی ادائیگی پر بھی زور دیتی ہیں۔

ایک قابل ذکر مثال 2022 قطر ورلڈ کپ کے دوران بلڈنگ اینڈ ووڈ ورکرز انٹرنیشنل (بی۔ ڈبلیو۔ آئی) ہے۔ بی۔ ڈبلیو۔ آئی نے قطر میں اسٹیڈیم اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں شامل مزدوروں کے لیے بہتر زندگی اور کام کے حالات، منصفانہ اجرت اور کام کے محفوظ ماحول کے حصول کے لیے کامیاب وکالت کی۔

اپنی کوششوں کے ذریعے، اس گلوبل فیڈریشن نے نہ صرف قطر میں مایئگرنٹ ورکرز کی زندگیوں میں بہتری لائی بلکہ اس بات کی ایک مضبوط مثال بھی قائم کی کہ کس طرح مزدوروں کی یونینیں حکومتوں اور آجروں کومزدوروں کے ساتھ سلوک کے لیے جوابدہ ٹھہراتی ہیں۔ قطر میں بی۔ ڈبلیو۔ آئی کی کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یونینیں مزدوروں کے لیے حقیقی فوائد کیسے حاصل کر سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ ان جگہوں پر بھی جہاں مزدوروں کے حقوق کو اکثر نظرانداز کیا جاتا ہے۔

اس وقت سعودی عرب پاکستانی تارکین وطن مزدوروں کے لیے سرفہرست مقام بن گیا ہے، جہاں تقریبا اٹھارہ لاکھ بیس ہزار سے زائد افراد کی نے روزگار کے لیے نقل مکانی کی ہے، اس کے بعد متحدہ عرب امارات 708,268 کارکنوں کے ساتھ اور عمان 265,496 کارکنوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔

لیکن ان اعداد و شمار سے ہٹ کر روزگار کی تلاش میں نقل مکانی کرنے والے ہر شخص کی کہانی میں بہت ساری قربانیاں موجود ہوتی ہیں۔ کوئی بھی شخص جب بہتر مواقع کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہیں تو نا صرف بچپن سے دیکھے ہوے خواب بلکہ اپنے ماں باپ، بیوی بچے اور اپنی زندگی کا قیمتی وقت اور سرمایہ بھی بہتر روزگار کی تلاش میں قربان کر دیتا ہے اور نتیجہ میں ان کی محنت نہ صرف ان کے خاندانوں بلکہ ہمارے ملک کی معشیت اور مشکل اوقات میں خاص طور پر بحران کے وقت یہ ترسیلاتِ زر قوم کے لیے لائف لائن اور ایک مضبوط سہارے کا باعث بنتی ہیں۔

یہ نقل مکانی کرنے والے پاکستانی سچے محب وطن ہیں، اور ان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے سے زیادہ وہ بیرون ملک قیام کے دوران تحفظ اور انصاف کے مستحق ہیں۔ پاکستانی حکومت عالمی فیڈریشنز، اداروں اور حکومتوں کے ساتھ بیرون ملک ان کی شکایات کے ازالے کے لیے موثر نظام بنا کر ان کے حقوق کی برقراری کو یقینی بنا سکتی ہے۔

Check Also

Molana University Of Politics And Management

By Javed Chaudhry