1.  Home/
  2. Blog/
  3. Asad Ali/
  4. Mehngi Dawai Ab Aur Nahi

Mehngi Dawai Ab Aur Nahi

مہنگی دوائی اب اور نہیں

ڈاکٹر مہنگی دوایاں کیوں لکھتے ہیں کیا انکا متبادل بازار میں دستیاب بھی ہوتا ہے کہ نہیں؟ پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھی جس میں ایک بوڑھی عورت، ڈاکٹر سے اپیل کر رہی ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب دوائی مہنگی نہ لکھنا میرے بیٹے کی تنخواہ بہت کم ہے۔

اس تصویر نے میرے ذہن میں بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ پہلی تو اپنے بیٹے کی لیئے، ماں کی محبت۔ دوسرا کیا ادویات اتنی ہی مہنگی ہیں کہ کوئی تنخواہ دار یا کسی مزدور کی پہنچ سے باہر ہیں؟ تو اسکا جواب ہے "جی ہاں"۔ ہمارے سربراہان نے جان بچانے والی ادویات پر بھی ٹیکس عائد کر رکھا ہے (ایسا دنیا میں اور کہیں نہیں ہوتا) ملٹی نیشنل کمپنیوں کا یہ حال ہے کہ آئے روز کبھی ٹیکس کے نام پر تو کبھ خام مال مہنگے کے نام پر دوائووں کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔

ہمیں سب سے پہلے ڈاکٹر، کیمسٹ اور میڈیسن کمپنی کی تکون کو توڑنا ہوگا۔ کیا اسکا کوئی حل ہے؟ ایک تو سادہ سا حل یہی ہے کہ اپنے ملک میں اسی نسخے کے مقابلے کی دوائی کی تیاری کو ممکن بنایا جائے۔ لوکل بنائی جانے والی دوائی کی کوالٹی کو بہتر سے بہتر بنایا جائے۔ فیکٹری کو لائسنس دینے سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ، اسکا کوالٹی سٹینڈر اور فارما ڈاکٹر مکمل کوالیفائڈ ہوں۔

حکومت ٹیکس پر کچھ حد تک چھوٹ دے یا میڈیسن کمپنی اپنا مارجن کم رکھے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں جنکا پاکستان میں متبادل تیار ہو رہا ہو اسکی ادویات کی فروخت پر پابندی عائد کر دی جائے۔ جیسے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمائندے ڈاکٹر کو اپنی کمپنی کی دوائی لکھنے پر/ زیادہ سے زیادہ لکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ کلچر ختم کرکے لوکل کمپنی کی تشہیر کی جائے اور دوائی بھی وہ لکھے جسکی ضرورت ہو نہ کہ پورا میڈیکل سٹور لکھ دیا جائے۔

صرف ان چند اقدامات سے ہم نہ صرف اس مافیا سے آزادی حاصل کر سکیں گے بلکہ اپنے ملک میں کاروبار اور روزگار دونوں کو فروغ ملے گا۔ اور اربوں روپے جو ملٹی نیشنل کمپنیوں والے ہر سال پاکستان سے بایر لیجاتے ہیں اسکی بھی بچت ہوگی۔

Check Also

Jamaat e Islami Kya Soch Rahi Hai? (2)

By Amir Khakwani