Ustad Ke Naam
استاد کے نام
5 اکتوبر عالمی یوم استاد کے موقع پر تمام اساتذہ کرام اور معلمین جن سے بالواسطہ یا بلا واسطہ سیکھا سب کی عظمت کو سلام۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً
مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔
استاد ہونا ایک عظیم ترین مرتبہ اور شان والا مقام ہے۔ ایسا مقام جس کی نسبت حضور ﷺ اور انبیاء کرامؑ سے ملتی ہے اور قابل افتخار و ستائش شعبہ ہے۔
استاد قوم کا معمار ہوتا ہے۔۔ یہ جملہ سو بار لکھا، ہزار بار پڑھایا اور لاکھوں بار سنا گیا لیکن بد قسمتی سے آج تک کبھی بھی اس جملے کی وضاحت یا سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
آپ کے پاس كنسٹرکشن کا سامان وافر مقدار میں ہو آپ اسے جتنا مرضی چمکا لیں لیکن ایک اچھے معمار کے بنا یہ سب کسی کام کا نہیں۔ ایک استاد کسی بھی قوم کی بنیاد بناتا ہے۔
قوم کا سیاست دان ہو یا حکمران طبقہ، انجینئر ہو یا ڈاکٹر، بزنس مین ہو یا بیوروکریٹ، جج ہو یا جرنیل، عالم ہو مبلغ، شاعر ہو یا لکھاری یہاں تک کہ ایک عام مستری اور حجام ہر کسی کی تراش ایک ماہر جوہری کی طرح ایک استاد کے ہاتھوں سے ہوتی ہے۔ ایک استاد چاہے تو اپنے ہنرِ سنگ تراشی سے پتھر سے صنم اور ہیرے تراش سکتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے اور بالخصوص ملک خداداد میں استاد کو سنگ تراشی کا وہ موقع میسر ہی نہیں آتا اور نہ ہی وہ مقام و مرتبہ حاصل ہوتا ہے جو کہ مہذب اور ترقی یافتہ اقوام میں استاد کو حاصل ہے۔ یہاں آج بھی استاد کو ایک ملازم کے طور پر ہی ڈیل کیا جاتا ہے اور استاد کے معاشرتی کردار کو فقط کتابوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ ایک استاد اور طالب علم پر کتابوں کا بوجھ اس قدر لاد دیا گیا ہے کہ استاد کے تیشہِ تربیت سے جو ہیرے کبھی تراشے جاتے تھے آج وہ آنا بند ہو گئے ہیں۔
اگر کچھ عرصہ پہلے کی بات کی جائے تو اکثر استاد مختلف قسم کی اسناد اور ڈگریوں کے بوجھ سے کم ہی لدے ہوتے تھے۔ ڈسپلن پر بھی كمپرومائز ہو جاتا تھا لیکن پھر بھی مودب اور تربیت یافتہ لوگ درسگاہوں سے نکل رہے تھے لیکن آج ٹیچر ایم فل، پی ایچ ڈی کے باوجود، بی ایڈ، ایم ایڈ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ویل ٹرینڈ ہونے کے باوجود آپ کی درسگاہیں ویسے لوگ پیدا کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ تو اس کی وجہ کیا ہے؟
کیا اس کی وجہ استاد ہے؟ اس کی وجہ جیسے کہ اوپر وضاحت ہو چکی کہ کسی بھی طرح ٹیچر کا کم قابل یا کم تعلیم یافتہ ہونا نہیں بلکہ سسٹم میں موجود وہ خامیاں ہیں جو ایک جوہر شناس جوہری کو اس کا کام کرنے میں مشکلات پیدا کر رہی ہیں۔
آج ایک استاد لمبے چوڑے سلیبس کور کروانا، الیکشن ڈیوٹی دینا، ڈینگی مہم میں تصاویر، مردم شماری اور اس جیسے دیگر بہت سے کام کرتا نظر آتا ہے لیکن کبھی گلا شکوہ کرتا نظر نہیں آتا۔
بہت سے لوگ جو ٹیچنگ فیلڈ سے وابستہ ہیں اس بات سے اتفاق کریں گے کہ جب وہ اس نظام تعلیم سے وابستہ ہوئے تو ایک جذبہ اور ایک جنون ان میں تھا لیکن وقت کی گرد میں وہ جذبہ کہیں دب گیا اور آہستہ آہستہ وہ لوگ اس سسٹم کا حصہ بن گئے۔ جو استاد کے پاؤں میں بیڑیاں ڈالے اسے اسی نظام کے تحت چلنے پر مجبور کرتا ہے۔ جس میں مجبوراً طلبہ کو نمبرز کی دوڑ میں سرپٹ دوڑانا پڑتا ہے اس دوران میں چاہے کچھ اہم تربیتی پہلوؤں سے تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے انہیں فراموش کرنا پڑے تو کرنا پڑتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ ٹیچر کی زنجیروں سے آزاد تو کرکے دیکھیں، انہیں وہ تیشہِ فرہاد دے کر تو دیکھیں آپ حیران ہوں گے کہ یہ لوگ جوئے شیر لانے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں اور قابلیت بھی۔
تاریخ عالم گواہ ہے کہ جس قوم نے استاد کو عزت، احترام اور مرتبہ دیا اسی قوم نے دنیا کو بہترین انسان دئے۔ آج بھی اگر ملک خداداد میں استاد کو وہ مرتبہ اور وسائل مل جائیں تو ہم دیکھیں گے کہ تعمیر و ترقی کی دوڑ میں ہم کسی بھی اقوام عالم کے مقابلے کم نہیں۔ بقول اقبال
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی