Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Amjad
  4. Taleemi Idaron Mein Enrolment Mein Kami Aur Uski Wajoohat

Taleemi Idaron Mein Enrolment Mein Kami Aur Uski Wajoohat

تعلیمی اداروں میں ان رولمنٹ میں کمی اور اس کی وجوہات

کافی عرصے سے پاکستان کے موجودہ نظام تعلیم پر عوامی اعتماد اور تعلیمی اداروں میں سٹوڈنٹس کی ان رولمنٹ میں واضح کمی محسوس کی گئی ہے۔ نیز بے روزگاری اور خاص طور پر پڑھے لکھے افراد میں بے روزگاری کی شرح میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے حکومت کی لاکھ کوششوں، سكالرشپس، سکیمز اور انعامات دینے کے باوجود یہ سلسلہ روز بروز بڑھ رہا ہے آج کی تحریر کا مقصد کسی قسم کی تنقید یا حوصلہ شکنی نہیں بلکہ بطور قوم اور بطور فرد خود احتسابی اور مسائل کا ادراک و تعين کرنا ہے تاکہ ان مسائل کے حل کی جانب پہلا قدم اٹھایا جا سکے جیسا کہ مشہور ہے کہ تشخیص علاج کی جانب پہلا قدم ہے۔

بلا شبہ موجودہ حکومت کی پالیسیز اور تعلیمی نظام میں ترامیم نہایت خوش آئند ہیں بالخصوص لیپ ٹاپ سکیمز، ایگریکلچر سكالر انٹرنشپس اور مختلف سكالر شپس سٹوڈنٹس میں خود اعتمادی اور نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں مددگار ثابت ہوئی ہیں لیکن گزارش یہ ہے کہ حکومت ان سکیمز کے علاوہ سٹوڈنٹس کے لیے باعزت روزگار کے مواقع بھی پیدا کرنے کی کوشش کریں ہر سال ہزاروں بلکہ لاکھوں طلبہ و طالبات اپنی ڈگری مکمل کرنے کے بعد روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں اور بے روزگاری کی شرح کا اندازہ اس سے لگائیں کے 4 ماہ کے انٹرنشپ ایس ٹی آئیز پروگرام میں 12 ہزار سیٹس پر زرائع کے مطابق 3 لاکھ سے زائد طلبہ نے اپلائی کیا۔ ڈاکٹرز کی ایک ایک سیٹ پر ہزاروں ایم بی بی ایس مقابلہ کر رہے ہیں۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ تعلیم کا مقصد پیسا بنانا یا صرف نوکری کرنا نہیں لیکن جو والدین اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کی بھاری فیس ادا کرتے ہیں ان کی اپنے بچوں سے بہت سی امیدیں اور توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔۔ اگر یہی حالات رہے تو عنقریب تعلیمی نظام سے سب کا اعتبار اٹھ جائے گا اس بات کا اندازہ حالیہ دنوں میں کالجز میں ان رولمنٹ کی واضح کمی سے لگایا جا سکتا ہے متعدد کالجز اور یونیورسٹیز ان رولمنٹ میں کمی کی وجہ سے داخلوں کی تاریخ میں توسیع کرنے پر مجبور ہیں۔

عوام کی تعلیم اور تعلیمی نظام سے بیزاری کی کچھ وجوہات کو مندرجہ ذیل میں زیر بحث لانے کی کوشش کروں گا تا کہ اصلاح اور بہتری کی جانب ایک قدم اٹھایا جا سکے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی آئی) کی رپورٹ کے مطابق 2021 میں پاکستان میں گریجویٹ بے روزگار افراد کی شرح 16.1 فی صد تھی جو اب 2025 میں بڑھ کر ایک اندازے کے مطابق 31 سے 50 فی صد تک ہو چکی ہے۔ (پی آئی ڈی ای کی 2025 کی رپورٹ ابھی جاری نہیں ہوئی) جس میں 23% انجنیئر گریجویٹ ہیں۔ 29فیصد زرعی گریجویٹس اور 11 فی صد میڈیکل بے روزگار ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر تعلیمی سال کے اختتام 4 سے ساڑھے 4 لاکھ گریجویٹ اپنی گریجویشن مکمل کرتے ہیں اور اگر پی آئی ڈی ای کی رپورٹس کے مطابق بھی دیکھا جائے تو کم و بیش ڈیڑھ لاکھ سے سوا دو لاکھ گریجویٹ سٹوڈنٹس ہے سال بے روزگار رہ جاتے ہیں۔

گریجویٹ ہونے کے بعد ایک سٹوڈنٹ کی لائف اپلائی کرنے اور اپنے کوائف کی فوٹو کاپی کروا کر انہیں تصدیق کروانے میں گزر جاتی ہے بعض مرتبہ تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی سرکاری نوکری کی سیٹ پر بھرتی کا اعلان ہوتا ہے سٹوڈنٹس اپلائی کرتے ہیں اور کچھ عرصے بعد وہ بھرتی کینسل ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ ٹیسٹ انٹرویو اور لیٹر ملنے کے بعد بھی کینسل ہو جاتی ہیں۔

گزشتہ سالوں کے کرائسس اور بجلی تیل کی اضافی قیمتوں کی وجہ سے زیادہ تر پرائیویٹ انڈسٹری بھی تباہی کے دهانے تک پہنچ چکی ہے وہاں بھی مخدوش حالات اور غیر یقینی کی صورتحال کی وجہ سے نئی بھرتی اور جاب کے مواقع تقریباً ختم ہو چکے ہیں اگر کہیں ہے بھی تو اس میں مقابلہ اور پھر اتنی کم تنخواہ کہ با عزت گزر بسر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو چکا ہے۔

میں ذاتی طور پر بہت سے ایسے گریجویٹس کو جانتا ہوں جو اس بے روزگاری سے تنگ آ کر مایوسی میں انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہیں بہت آسان ہے ہمارے لیے کہنا کہ صبر کرو سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن یہ وہی جانتا ہے جس پر بیتتی ہے۔

میرے ایک استادِ محترم ایک دن کہنے لگے کہ ہمیں اسکول میں ان رولمنٹ کے حوالے کے لیے والدین اور بچوں کو ترغیب دینے کا کہا جاتا ہے اور ان رولمنٹ کم ہونے پر سختی اور اسکولوں کی پرائیویٹائیزیشن کا عندیہ دیا جا رہے ہے تو ساتھ بیٹھے ان کے دوست کا کہنا تھا کہ جو حالت گزشتہ 8 سال سے گریجویٹس کی گریجویشن کے بعد ہوئی ہے وہی والدین کی عبرت کے لیے کافی ہے تو وہ ان کی حالت دیکھنے کے باوجود وہ کیسے اپنے بچوں کو ان رول کریں گے؟

ان سب کے علاوہ نظام تعلیم ایک خامی یہ بھی ہے کہ طلبہ آج نمبرز کی دوڑ میں اتنے مگن ہو گئے ہیں کہ وہ دیگر سرگرمیوں اور پریکٹیکل ورک کی جانب بہت کم توجہ دیتے اور اگر کہیں ہو بھی رہا تو وہ بس خانہ پری والا حساب ہے۔ ایک سٹوڈنٹ کیمسٹری میں 99% مارکس لیتا ہے اور اسے بنیادی ٹائیٹریشن تک نہیں آتی ایک سٹوڈنٹ اردو میں 95% نمبر لیتا ہے اور کسی موضوع پر 10 جملے نہیں لکھ سکتا ایک سٹوڈنٹ انگریزی میں 100% نمبر لے لیتا ہے لیکن وہ کسی سے 5 منٹ انگلش میں بات نہیں کر سکتا۔

سب سے اہم بات یہ کہ اپنی کلاس کے ٹاپرز تک کو پتہ نہیں کہ ان کی مستقبل کی منصوبہ بندی کیا ہے انہیں کس فیلڈ میں جانا ہے کونسا کام کرنا ہے ملک و قوم کی ترقی میں کس طرح کردار ادا کرنا ہے ایک عمر تعلیمی دنیا میں بسر کرنے کے باوجود وہ معاشرے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کو قابل نہیں بن سکتے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے اور ملک میں انڈسٹری کے قیام اور بیرونی سرمایہ کاری لا کر نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں۔

سرکاری اداروں میں بھرتی کے عمل کو شفاف اور آسان بنایا جائے۔ بے روزگار گریجویٹس کا ڈیٹا جمع کرکے ان کی صلاحیتوں کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں استعمال میں لایا جائے۔ نوجوان طلبہ کو زیادہ سے زیادہ اپنی فیلڈ کے بارے میں پریکٹیکل ورک کروایا جائے مختلف ورک شاپس اور پریکٹیکل ورک پر زیادہ توجہ دی جائے۔ طلبہ کو نمبرز کی دوڑ سے نکال کر ان کو مختلف ہنر اور اپنی فیلڈ کے پریکٹیکل ورک کا ماہر بنایا جائے۔

اگر تھیورٹیکل ورک کو دن میں 4 گھنٹے دے جا رہے ہیں تو 4 گھنٹے ہی پریکٹیکل ورک کو دئے جائیں اس پریکٹیکل ورک میں خام سامان انہیں دیا جائے جس سے وہ کارآمد پراڈکٹس تخلیق کریں اور ان پراڈکٹس کو حکومتی سرپرستی میں مارکیٹ میں بیچ کر ملنے والے منافع کو سٹوڈنٹس کی فلاح و بہبود میں استعمال کیا جائے اس طرح سے تعلیمی ادارے غیر منافع بخش کی بجائے منافع بخش ادارے میں تبدیل ہو جائیں گے اور سٹوڈنٹس بھی عملی زندگی میں خود انحصاری حاصل کر سکیں گے۔

سٹوڈنٹس میں خود اعتمادی پیدا کی جائے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے شعبہ سے منسلک ورک کرکے کم عمری میں خود انحصاری حاصل کرنے کی کوشش کریں تا کہ آنے والے وقت میں اپنے اور اپنی قوم کے لیے مفید شہری ثابت ہو سکیں۔

اگر اس معاملے پر آج سوچ و بچار کر لی جائے تو ان شاء اللہ اس زرخیز زمین میں پیدا ہونے والے قابل نوجوان مستقبل قریب میں پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔۔

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood