Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Amjad
  4. Phatoo Phirki

Phatoo Phirki

پھتو پھرکی

ایک دوست جو شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں ان سے پچھلے دنوں ملاقات ہوئی تو بات تغیر کی ہونے لگی۔ مختلف دلائل اور مثالوں کے ساتھ بحث جاری تھی کہ اچانک جیسے انہیں کچھ یاد آ گیا ہو اور بولے۔

یار چھوڑو سب باتوں کو میں ایک شخص کا قصہ سناتا ہوں تو بات ہے کچھ عرصہ پہلے کی جب میری ڈیوٹی مردم شماری پر لگی ہوئی تھی میں اپنے ہمراہیوں کے ہمراہ اپنے مقرر کردہ علاقے میں مردم شماری کر رہا تھا دن بھر کی تكان اور گرمی سے برا حال تھا کہ ہم ایک کوٹھی کے سامنے رکے جس کی شان و شوکت، خداموں کی فوج اور باہر کھڑی گاڑیاں مالک مکان کی ثروت اور دولت کی داستان سنا رہی تھیں۔

ہم اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ چارپائی پر ایک بزرگ بیٹھے تھے جو کافی بیمار لگ رہے تھے۔ ہم نے انہیں سلام کیا اور پوچھا بابا ہم مردم شماری کے لیے آئے ہیں مالک مکان سے ملنا ہے۔۔

بابا جی سیدھے ہوتے ہوئے بولے

بولو بیٹا میں ہی مالک مکان ہوں

بابا جی کی چارپائی اور حالت ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہی تھی لیکن ان کے چہرے کی سنجیدگی اور سادہ سفید لباس ہمیں ان کی بات پر یقین دلا رہی تھی۔ خیر رسمی طور پر میں نے پوچھا۔

بابا آپ کا نام؟ تو سرائیکی میں بولے۔ این کوں (اس کو)

میں حیران ہوا بابا جی اصل نام؟ تو بولے بیٹا آج کل یہی اصلی نام ہے۔ پھر وہ سنانے لگے۔

بیٹا جب میں پیدا ہوا تو میرا نام میرے بزرگوں نے فتح محمد رکھا گیا۔ لیکن پنجاب کے دیہات کے رواج کے مطابق فتح محمد کسی نے نہیں بلایا بلکہ سب پھتو کہنے لگے۔ وقت گزرتا گیا اور میں نے کبڈی میں نام بنا لیا تو میرا نام پھتو پھرکی پڑ گیا کیونکہ میں پھرکی کی طرح سپیڈ سے بھاگتا تھا اور کسی کے ہاتھ نہ آتا تھا۔

ایک دن میں نے اپنی آبائی زمین بیچی اور انگلینڈ چلا گیا۔ ایئر پورٹ پر پہلی بار میں نے اپنا نام فتح محمد سنا۔ ایک دھن شہرت اور ناموری کی زہن پر سوار ہوگئی اور میں دیوانہ وار دنیا کے پیچھے بھاگنے لگا۔ چھ سال بعد جب میں واپس آیا تو میں نے اپنی آبائی زمین دوبارہ خرید کر اس پر یہ کوٹھی تعمیر کی میرے پاس پیسے کی کمی نہیں تھی تو میں نے لوگوں کو نوازنا شروع کر دیا۔ میں لوگوں پر خرچہ کرتا اور میرا چرچا ہوتا تھا۔ اب میں پھتو پھرکی نہیں رہا تھا بلکہ چوہدری فتح محمد ہو چکا تھا۔ میں نے اپنے بچوں کو بہترین اسکول میں پڑھایا۔ علاقے کے لوگوں نے مجھے اپنا بڑا اور پنچ تسلیم کر لیا۔ مجھےلگنے لگا کہ میں سب سے طاقتور انسان ہوں، میرے فیصلے اٹل ہوتے اور کسی کی جرات نہیں تھی میرے فیصلوں پر سوال اٹھاتا۔

اس دوران میں نے بہت سے غیر منصفانہ فیصلے بھی کئے لیکن بیٹا ہر عروج کو زوال ہے اور ہر بلندی کو پھرنا ہے۔ رفتہ رفتہ میرا وقت بھی ڈھلنے لگا۔ میرے بیٹے جوان ہوئے تو ایک بیٹا ڈاکٹر اور ایک وکیل بن گیا۔ میرے فیصلوں پر میرے اپنے بیٹے سوال اٹھانے لگے۔ دونوں کی آپس میں بالکل نہیں بنتی تھی۔ دھیرے دھیرے ان کے اختلافات بڑھنے لگے اور ایک دن وہ دونوں میرے سامنے ایک دوسرے سے لڑ پڑے۔ میں جو سارے علاقے کے فیصلے کرتا تھا۔ ان کا تصفیہ کروانے کے لیے در در پر جانے پر مجبور ہوگیا۔

پنچایت میں میرے بیٹوں نے مطالبہ کیا کہ میں اپنی تمام جائیداد ان میں بانٹ دوں تا کہ بعد میں ان میں جھگڑا نہ ہو۔۔ میرے لیے یہ بہت صبر آزما تھا کہ میری اولاد میری زندگی میں میرے بعد کا سوچ رہی تھی لیکن میں کسی قسم کا تنازعہ نہیں چاہتا تھا میں نے ساری جائیداد ان میں تقسیم کر دی۔ ساری تقسیم مکمل ہو چکی تھی سوائے ایک چیز کے۔۔ فتح محمد سانس لینے کو ذرا رکا یا آگے بولنے کا اس میں حوصلہ نہ تھا۔

میں نے پوچھا کس چیز کی تو بولا۔

میری، مجھے نہیں پتہ تھا کہ میں کس کے حصے میں آیا ہوں بالآخر فیصلہ ہوا کہ میں چھ ماہ ایک بیٹے کے ساتھ رہوں گا اور چھ ماہ دوسرے کے ساتھ لاہور شہر میں۔ اب میں ایسے ہی زندگی گزار رہا ہوں اور اب میرا نام ایں کوں (اسے) ہے کہ بیٹا تین چار دن کے بعد جب آتا ہے تو ملازموں سے ہی پوچھ لیتا ہے کہ ایں کوں روٹی شوٹی دے رہے او؟ (اسے کھانا وغیرہ دے رہے ہو) اور چلا جاتا ہے۔ فتح محمد کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔ جانتے دنیا کا سب سے بڑا بے وقوف کون ہے؟ وہ جو اس رہگزر سے محبت کرے۔ زندگی اسی تغیر کا نام ہے جس میں کبھی آپ پھتو، کبھی پھتو پھرکی، کبھی فتح محمد۔ کبھی چوہدری فتح محمد تو کبھی ایں کوں۔۔ ہو جاتے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ انسانوں میں وقت کو بدلتا رہتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے کتنے ہی لوگ ہیں جو چوہدری فتح محمد بننے کے بعد پھتو اور ایں کوں والے مرحلے کو بھول جاتے ہیں۔

میں نم آنکھوں سے استاد دوست کی جانب دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ انسان شہرت، ناموری اور دولت کے پیچھے بھاگتے ہوئے اپنے حال و مستقبل سے کتنا بے خبر ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اپنے مالک حقیقی کو بھی بھول جاتا ہے۔ ہر کوئی اپنے کردار میں کہیں نہ کہیں فتح محمد ہے۔

Check Also

Amina Ki Muhabbat

By Mansoor Nadeem