Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Amjad
  4. Maktoob Banam Allama Iqbal

Maktoob Banam Allama Iqbal

مکتوب بنام علامہ اقبال

غریب خانہِ مداح

تاریخ، 9 نومبر 2023

بجانب: شاعر مشرق علامہ اقبال

منجانب: مداح اقبال

امید ہے کہ آپ کی روح پروردگارِ عالم کی خاص رحمت کے سائے میں پناہ گزیں ہو، بفضل خدا اور اجداد کی محنت سے آپ کے خواب کی تعبیر، مملكت پاکستان کی صورت میں حاصل ہو چکی اور ایک الگ تشخص، الگ پہچان اور الگ وطن قائم ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے 76 سے قائم و دائم ہے، آج آپ کے مسلم شاہین کے لیے ایک تجربہ گاہ، ایک کرار گاہ اور ایک مضبوط چٹان قائم ہو چکی ہے۔ جس ریاست کا تصور آپ نے پیش کیا وہ اب پوری آن اور شان سے کھڑی ہے۔ لیکن آپ کے شاہین آج وہ نہیں رہے۔

خودی، خودداری اور خود اعتمادی جیسی صفات کو آپ کے شاہین کھو بیٹھے ہیں، آپ کے شاہین اپنی خودی کو اس بلندی پر نہیں لے جا سکے کہ خدا ان سے ان کی رضا پوچھے، انہوں نے اپنے فقر کو شانِ سکندری کے سامنے ہیچ کر دیا ہے اور خراج کے گدا بنے بیٹھے ہیں، آج آپ کے مسافر نے محمل قبول کر لی ہے اور پہلوئے لیلیٰ سے لگا راہ نورد شوق نہیں رہا، آپ کا شاہین خودی کو ایک نوکری کے عوض بیچ چکا ہے کیونکہ وہ غریبی میں نام پیدا نہیں کر سکتا۔

آپ کا شاہین آج ٹک ٹاک، فیس بک اور دیگر ایسی چیزوں کے آسیب میں ایسا قید ہیں کہ اس کی اس غفلت سے انجم سہمے جاتے ہیں، اور ان مشینوں کی حکومت اس کے دل کے لئے موت کا سبب بن رہی ہے، آج آپ کا شاہین تندی باد مخالف سے اس قدر پریشان ہے کہ اس نے اپنی پرواز کو بہت محدود کر لیا اور لذت خانما برباد کو بھول گیا ہے اب وہ چٹان پر بسیرا کرنے سے خوف زدہ اور نشیمن پھونکنے سے گریزں نظر آتا ہے۔

آج کا نوجوان عشق کی انتہا نہیں چاہتا، نہ تو اس کی خودی صورت فولاد رہی ہے اور نہ ہی اس کی عقابی روح کو اب اپنی منزل آسمانوں میں نظر آتی ہے، اب اگر حقیقت منتظر کبھی لباس مجاز میں اترے تو شاید ان کی جبینِ بے نیاز سجدے کے لیے نہ جھک سکے، کیونکہ ان کو آج بتوں سے امیدیں ہیں خدا سے ناامیدی۔ آج وہ کردار میں، گفتار میں اللہ کی برهان نہیں رہے بلکہ اپنا عشق لیے آتشِ نمرود کے سامنے محو تماشائے لب بام کھڑے ہیں۔

آج حرم الاقصیٰ حملوں کی زد میں ہے اور آپ کا مسلم نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر غفلت کی نیند میں سویا ہوا ہے۔ وہ جنہوں نے دی تھیں اذانیں کبھی یورپ کے كلیساؤں میں تو کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں وہ جن کی آنکھوں میں شان جچتی نہ تھی جہانداروں کی، وہ جو کلمہ پڑھتے تھے چھاؤں میں تلواروں کی، وہ امت جس کے بارے میں آپ نے کہا تھا کہ چبھے کانٹا جو کابل میں تو ہندوستان کر ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے آج غزہ و فلسطین کی تباہی اور قتل عام پر خاموش ہیں الغرض لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزہ جینے میں۔ ہم نے آپ سے سیکھا ہے کہ کبھی بھی مایوس نہیں ہونا، اب بھی ہم فضائے بدر پیدا ہونے اور فرشتوں کی نصرت پر یقین رکھتے ہیں، اور آپ ہی کی طرح یقین ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

آج بھی شجر سے امید بہار رکھتے ہوئے پیوستہ ہیں۔

ان شاء اللہ اسی صنم خانے سے کعبے کے پاسبان پیدا ہوں گے اور ان پر اسرار بندوں کی ٹھوکر سے صحرا و دریا دو نیم اور پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی ہوں گے تو امت کی نشاط ثانیہ ہوگی ہم نہیں تو ہماری نسلیں دیکھیں گیں لیکن امت ایک بار پھر ضرور بیدار ہوگی اس بات پر ہمیں یقین محکم ہے۔

Check Also

Time Magazine Aur Ilyas Qadri Sahab

By Muhammad Saeed Arshad