Film War Aur Maskh Shuda Haqaiq
فلم وار اور مسخ شدہ حقائق
آج کی دنیا ٹیکنالوجی کی دنیا ہے، آج معلومات ایک کلک کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے آج کا دور پروپیگنڈہ کا دور ہے۔ آج کے دور میں سچا وہی ہے جس نے پورے زور و شور سے اپنی آواز اور بات لوگوں تک پہنچا دی۔ آج کا موضوع بنیادی طور پر عالمی طور پر ہونے والی فلم وار اور اس کے زریعے ہونے والی زہن سازی کے متعلق بات کرنا ہے۔
فلم میں ہسٹری بیسڈ فلمیں یا وار موویز ہمیشہ سے پر کشش اور اپنی جانب توجہ مبذول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جس کی بنیادی وجہ قومی یا مذہبی وابستگی، جذبہ حب الوطنی اور ایک اہم وجہ ایکشن اور تھرل ہے جو ہمیشہ سے ان فلموں اور ڈراموں کا حصہ رہی ہے۔
مختلف ممالک اپنے نظریات، عقائد اور تاریخ کی ترویج کے لیے اپنے تھنک ٹینک اور اپنے ذرائع ابلاغ کا بے دریغ استعمال کر رہا ہے۔ مغربی ممالک جنگ عظیم اول، جنگ عظیم دوم، رومن ایمپائر، افغان جنگ اور اپنے بہادروں پر بے شمار فلمیں بنا چکی ہے۔
حالیہ وقتوں میں تركی اپنی تاریخ کو بخوبی دنیا تک پہنچا رہا ہے ایرتغل غازی، عثمان غازی، الپ ارسلان، جلال الدین شاہ خوارزم، ملک شاہ اور سنجر سلطان کی تاریخ بہت ہی خوبصورتی سے فلمائی گئی ہے جس سے وہ اپنے نظریات دنیا تک پہنچا رہا ہے۔
ایرانی فلم انڈسٹری کو دیکھا تو مختار ثقفی کی زندگی پر بنائی گئی مختار نامہ، امام علی، حجر بن عدی جیسی فلمیں دنیا کو دے کر اپنے عقائد کا پرچار کر رہا ہے۔
ایسے وقت میں جس ملک نے فلم انڈسٹری کو سب سے زیادہ اپنے عقائد اور نظریات کے ساتھ تاریخی تبدیلیوں کے ساتھ استعمال کیا ان میں ہمارا پڑوسی ملک بھارت صف اول میں نظر آتا ہے فکشن اور ڈرامہ کی حد تک بولی وڈ کی فلمیں بہت بہترین انداز میں فلمائی گئی ہیں لیکن تاریخی حقائق کو جس انداز سے مسخ کیا گیا اور مسلمان حکمرانوں کے کردار کو مسخ کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
کہیں پدماوتی مووی میں بہترین جرنیل اور انتظامی امور میں ماہر ترین مسلمان حکمران علاؤالدین خلجی کو ایک سفاک، ظالم انسان اور ایک عیاش حکمران ثابت کیا گیا ہے حالانکہ افسانوی داستان پدماوتی کا کسی بھی مستند تاریخ میں ذکر تک نہیں بلکہ ایک ہندو شاعر نے علاؤالدین خلجی کے دور کے سو سال بعد اس کا ذکر کیا جو کہ ایک محض افسانوی داستان تھی۔
اسی فلم کے بعد ہندوستانی سینما سے پانی پت نامی ایک فلم ریلیز ہوئی جس میں نہایت چالاکی اور ہوشیاری سے احمد شاہ ابدالی کو ایک ظالم اور لٹیرا ظاہر کیا گیا اور عظیم مسلمان سالار نجیب الدولہ روہیلہ سردار کو ایک غدار وطن کے طور پر دکھایا گیا ہے اور ساتھ میں ابدالی کے لشکر کی تعداد کے بارے بھی مبالغہ آرائی کی حد تک جھوٹ بولا گیا ہے حالاں کہ تاریخ کی گواہی کے مطابق ابدالی کی فوج مرهٹہ فوج کے مقابل تین پر ایک تھی۔
اسی تاریخی مبالغہ آرائی کے بعد اب بولی وڈ کی ایک نئی فلم پرتھوی راج چوہان کی وکالت میں بن رہی ہے جس میں ایک بار پھر سلطان محمد غوری کے کردار کو ختم کرنے کی سازش ہے۔ یہاں تک دکھایا گیا ہے کہ سلطان کو خود پرتھوی راج چوہان نے مارا۔
بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے لوگوں کو اچھے، سچے اور بہادر دکھانا ہی ہے کیونکہ وہ ان کے اپنے لوگ ہیں لیکن جب آپ ایک انٹرنیشنل لیول کی فلم بنا رہے تو آپ کو تاریخی حقائق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
بات کریں ہمارے سینما کی تو ہمارے سینما میں آج کل جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں۔ اخلاقی تربیت اور كرداد سازی کی تو بات ہی ایک طرف رکھیں۔ اپنی ہی روایات اور معاشرے کی منافی کرتا ہر ڈرامہ اور فلم اور بے جان کہانی ہمارے نوجوان کی بیزاری اور لا تعلقی کا باعث بن رہی ہے۔
ایسے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہماری بیشتر نوجوان نسل جو متبادل کے طور پر انڈین سینما کو دیکھتی ہے کل کو اگر وہ ان مسخ شدہ حقائق کو سچ مان بیٹھی تو کیا ہوگا؟ اگر ہمارے آج کے ہیرو ہماری نسلوں کے لیے ولن ہوئے اور ہمارے اسلاف جن کی بہادری پر ہمیں ناز ہے کل کو اگر ہماری نسلیں انہیں لٹیرا، غاصب اور ظالم گردانیں تو قصور کس کا ہوگا؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہی اس کا تدارک کیا جائے اور پاکستان میں بھی ایسے اپنی تاریخ کو دکھایا جائے کیونکہ مشہور مقولہ ہے کہ
جو قوم اپنے ماضی کو بھلا دے ان کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔