Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Amjad
  4. Doston Ke Khasail

Doston Ke Khasail

دوستوں کے خصائل

یار، جگر، دل، سنگی اور پتہ نہیں کیا کیا؟ یہ نام ہیں اس مخلوق کے جو ہر انسان کی کنڈلی میں شنی بن کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ اور حسب توفیق و تمنا مفید و مضر ثابت ہوتے ہیں، جی ہاں میں بات کر رہا ہوں دوستوں کی۔

تاریخ کی تمام کتابیں کھنگالنے کے بعد اردو زبان کے اکابرین اور ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اردو زبان میں لفظ دوست کی کوئی خاص اور مناسب تعریف نہیں ملتی کیوں کہ اردو ایک انتہائی شائستہ اور مہذب زبان ہے اور اس مخلوق کا تہذیب کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ اور ویسے بھی دوست سبھی کے ایک جیسے ہوتے ہیں تو کسی شاعر، مصنف یہاں تک کہ فلسفی نے آج تک دوست کی تعریف کی ہی نہیں ہوگی۔

ہاں انگریزی زبان میں کہیں کہیں دوست کی تعریف (definition) کے شواہد ملے ہیں لیکن محققین کا قیاس ہے کہ وہ کسی گورے نے شراب پی کر غلطی سے تعریف کر دی ہوگی لہٰذا اسے مستند نہیں گردانہ جاتا۔

اگر خصوصیات کی بات کی جائے تو اس مخلوق میں ہر وہ خاصیت موجود ہوتی ہے جو کسی بھی انسان کو گھر سے نکلوانے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ عجیب و غریب شکل اور حلیہ کی یہ مخلوق کبھی بھی اپنے آپ کو کسی فلمی ہیرو سے کم نہیں سمجھتی۔ ان کا سٹائل منفرد، ایفیشنسی جدا اور نخرہ عروج پر ہوتا ہے۔

اپنے دوست کی تعریف کرنا اور ان کے کام کو سراہنا ان کے لیے زہر کھانے کے مترادف ہے۔ اندر سے پورے۔۔ ہوتے ہیں لیکن شکل ایسی کہ جیسے معصومیت ان پر ختم۔ دیکھنے میں کسی چھوٹے بچے کی طرح معصوم لیکن کسی سے رسمی سی ہی سہی جان پہچان ان کی ہو جائے تو یہ راون کی طرح اپنے باقی چہرے دکھاتے ہیں۔

صرف ایک کام ہے جو انہیں آتا ہے اور بہترین طریقے سے کرتے ہیں وہ ہے اپنی غربت کا پرچار، اور اپنی خالی جیب کا اعلان۔

جب بھی کینٹین پر جاتے انتہائی مسکینوں اور غریبوں والی شکل بنا کر کہتے "یار آج تو دے دے بل اگلی بار پکا میں دوں گا" اور وہ کل کبھی آئی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کل کے آنے کے امکان ہیں۔

پڑھائی میں تو ماشاءالله سے ایسے کہ جب امتحان سر پر آجاتے تو انہیں خیال آتا کہ ارے ہم بھی تو پڑھنے آئے تھے۔ پھر کبھی انفرادی اور کبھی اجتمائی طور پر آئی ایم ایف پروگرام شروع ہو جاتا اور یہ لوگ ان ٹاپرز سے جنہیں پورا سیمسٹر تنگ کرتے گزرتا ایسے ایسے تعلقات اور رشتے نکال کر نوٹس مانگتے جیسے یہی ان کے حقیقی ماں جائے ہوں۔ اس سب کے باوجود بھی پیپر والے دن پوچھتے پھرتے کہ پیپر کس چیز کا ہے؟

باقی نجی زندگی میں بہت اچھے ہیں اتنے اچھے کہ کوئی گھر پر بھی منہ نہیں لگاتا اور اکثر باہر ہی رہتے ہیں۔ اپنے دوست کا بہت خیال اور دھیان رکھتے ہیں۔ ذرا سا کوئی شعر یا تحریر دیکھیں تو سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ دوست نے تو نہیں لکھی اگر جواب ہاں میں ہو تو پھر بہت ہی پیارے پیارے کمنٹ جیسے کہ *چول*

*فضول* وغیرہ کرکے حوصلہ افزائی کرتے ہیں

ڈوبتا سورج کا مذاق بناتے ہیں لیکن روز اس کی تصویر بھیجتے ہیں۔ محبت میں اغراض و مقاصد کی قید پر یقین نہیں رکھتے لیکن جب کوئی کام ہو تو پیر و مرشد تک مان لیتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ میرے دوست خزانے جیسے ہیں اور کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ زمین میں گاڑھ دوں ان کو۔ آپس میں ایک دوسرے سے بہت پیار ہے ہمارا لیکن دنیا کو بس دکھانا نہیں۔ چاہتے ورنہ لوگ ہنسیں گے، لیکن کیا کریں ان پاگلوں کے ساتھ ہی زندگی کا مزہ ہے۔

پتہ ہے کیوں؟ کیوں کہ ان کے طنز میں نفرت نہیں ہوتی اسی لئے مجھے کسی واہ سے زیادہ ان کے کمنٹ کا انتظار رہتا ہے۔

آج کل زندگی کی باگ دوڑ میں مصروف ہیں اور اب رابطہ بہت کم ہوتا ہے، ہاں کبھی کبھی کسی کی کال آ جاتی ہے یا میسج تو پرانا زمانہ یاد آجاتا ہے۔

تو میرے دوستو! ہنستے رہو اور ہنساتے رہو اور ایسے ہی رہو بدلنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تمہارے سدھرنے کی تو توقع نہیں شاید بدل کر شاید اس سے بھی عجیب و غریب ہو جاؤ۔۔

Check Also

Imran Khan Ki Rihai Deal Ya Dheel

By Sharif Chitrali