Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arslan Amjad
  4. Ana Parasti Aur Aulad e Adam

Ana Parasti Aur Aulad e Adam

انا پرستی اور اولاد آدم

خالقِ کائنات نے جب اشرف المخلوقات تخلیق کو پیدا کیا تو تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کو سجدہ کرو۔ حکم الہی تھا تمام فرشتے سجدے میں جا گرے ایسے میں ابلیس جو کہ جنات کا سردار تھا، زاہد تھا، عابد تھا یہ کہتے ہوئے سجدے سے انکار کر دیتا ہے کہ اٙنٙا خٙیرُ منهُ، میں اس سے بہتر ہوں۔

یہ پہلی نافرمانی تھی، پہلا جرم تھا اور پہلا انکار تھا جو کائنات میں ہوا جس کی وجہ سے زہد و عبادت کرنے والے ابلیس کو ایسی دهتكار اور پھٹکار پڑی کہ وہ ابلیس سے شیطان بن گیا۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ نافرمانی کیوں ہوئی؟ اس کا محرک کیا تھا، اس کے پیچھے وجہ کیا تھی۔ اس سب کے پیچھے وجہ صرف ایک تھی۔ اٙنٙا خٙیرُ منهُ یعنی میں اس سے بہتر ہوں، وہ غرور، وہ تكبر اور وہ انا جس نے نار سے بنی مخلوق کو مٹی سے بنی مخلوق کے سامنے جھکنے نہیں دیا۔ جس کی بنا پر ابلیس ذلیل ٹھہرا۔۔

ایسے میں ابلیس نے بارگاہ خداوندی میں عرض کی۔۔ اے خالق ارض و سماں، مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے کہ میں آدم اور اولاد آدم کو گمراہ کر سکوں اور اس دشمنی میں شیطان رجیم نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ایسے میں اس کے پاس سب سے آسان ہدف اور كارگر نسخہ رگِ انا کو چھیڑنا تھا جس کی مدد سے ہمیشہ ابلیس نے انسان کو گمراہ کیا۔

جب اولاد آدمؑ زمین پر اتری تو ابلیس کی مانند غرور و تكبر کو اپنا لیا، میں ٹھیک، میرے والا ٹھیک اور میں سچا۔ ان باتوں نے حضرت انسان کا ایسا دماغ خراب کیا کہ اکثر اسے اپنے سوا کچھ بھی نظر نہ آیا۔

اسی انا نے کبھی بھائی کے ہاتھوں بھائی کا قتل كروایا تو کبھی فرعون کی زبان پر انا ربكم الآعلیٰ کو جاری کر دیا، اسی نے کبھی شداد کو ارم ذات العماد کی تعمیر پر مجبور کیا تو کبھی نمرود کی شکل میں انسان سے خدائی کے دعوے کروائے کبھی ابو جہل، ولید بن مغیرہ اور عتبہ جیسے لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے روکا جن کا موقف تھا کہ اسلام اگر سچا دین ہوتا تو بلال حبشی اور عمار بن یاسر جیسے لوگوں کی بجائے ہم جیسے ابوالحکم لوگوں کو سمجھ آتا تو کبھی عبدالله بن ابی جیسے زیرک انسان کو اسلام کا لباده اوڑھ کر منافق بنا دیا۔

یہی انا اور غرور وجہ ہے کہ انسان کو اپنے سوا ہر چیز محض ایک چیونٹی جیسی نظر آتی ہے۔ اسی انا اور غرور نے جنگوں میں لاکھوں انسانوں کو خود پرستی اور حوس کی بھینٹ چڑھا دیا۔

میں اس سے افضل، میں اس سے آعلیٰ، میں اس سے بہتر، میں اس سے بالا۔

ایسی سوچ ہے کہ جس کی وجہ سے معاشرہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے دور حاضر کی بات کریں تو آج ہر ایک اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے، ہر کوئی خود کی نظر میں دنیا کا سچا ترین اور اچھا ترین انسان ہے، اس کے عقائد سب سے بہتر، اس کا رہنما سب سے زیرک، اس کا علم سب سے ارفع، اس کی ذات سب سے الگ اور اس کا انداز سب سے نرالا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی انسان اچھا یا سچا نہیں ہو سکتا لیکن صرف خود کو دیکھنا اور خود پرستی میں دوسروں کو ہیچ سمجھنا سنت آدمؑ نہیں بلکہ سنت ابلیس ہے اور ایک روگ ہے جو ہمارے معاشرے میں صدیوں سے پنپتے پنپتے آج ایک ناسور بن چکا ہے۔

اس ناسور کا ایک ہی حل ہے کہ عاجزی اختیار کی جائے دوسروں کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا جائے، خود پرستی سے بچا جائے اور ہر چیز کو خدا کی عطاء سمجھ کر اور رضا کے مطابق کیا جائے کیونکہ ہم اولاد آدمؑ ہیں نہ کہ اولاد ابلیس کہ جو اپنے تكبر اور غرور کی وجہ سے مغضوب اور ذلیل ہوا۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan