Zameeni Khuda
زمینی خدا
الفاظ کے بھی دانت ہوتے ہیں، جو کاٹتے ہیں، میں نے کسی جگہ پڑھا تھا، کہ الفاظ میں علاج بھی ہے، اور الفاظ میں جراثیم، بیکٹیریا بھی، الفاظ کاٹتے بھی ہے، اور کٹے ہوئے زخم پر بطور مرہم بھی استعمال ہوتے ہیں، میں لفظوں کے استعمال اور پہچان سے ناواقف ایک نالائق سا لکھاری ہمیشہ الفاظ کے خوبصورتی پر خوش، اور الفاظ کے وار سے زخمی ہو جاتا ہوں، ہم میں سے اکثر لوگ بہت حساس ہوتے ہیں، جو الفاظ کے وار سہنے سے عاجز ہوتے ہیں، میں مرشد بابا کے دربار میں بیھٹا، مرشد کی پرنور محفل سے سیراب ہو رہا تھا، کہ ایک شخص سلام کے ساتھ داخل ہوا، اور آکے بابا جی کے بلکل سامنے بیٹھ گیا۔
وہ بابا جی کو خاموشی سے اپنا غم بیان کر رہا تھا، لیکن کبھی کبھی وہ زمینی خدا کے لفظ کو بہت اونچا اور غمگین انداز میں بول دیتا تھا، ہم سب خاموش بیٹھے بابا جی اور اس کے فریادی کو دیکھ رہے تھے، وہ بابا جی کو اپنا دکھ سنا کے چلا گیا، بابا جی بہت غمگین اور خاموش بیٹھے ہوئے تھے، ہم میں سے کوئی بھی بابا جی کے خاموشی کو توڑنے کی جرات نہیں کر سکتا، ہم بابا جی کے میٹھے الفاظ کے انتظار میں اسے دیکھتے رہے، ایک دم بابا جی سسکیاں لے کے رونے لگے، میں اور مجلس میں موجود ہر شخص یہ سوچ رہا تھا، کہ اس شخص نے لازم بابا جی کو کسی اپنے کے غم کے بارے میں بتایا ہے، اسلئیے بابا جی رو رہے ہے، آہستہ آہستہ بابا جی کے زبان مبارک سے یہ الفاظ جاری ہونا شروع ہوگئے، "میں نے الحمد سے والناس تک تیری رحمت کے سوا کچھ نہ پایا " اے میرے رب
ساری دنیا کی محبت سے کنارہ کرکے
ہم نے رکھا ہے فقط خود کو تمھارا کرکے
بابا جی بس روئے جا رہے تھے، اور بلند آواز سے یہ فقرہ اور یہ شعر بولے جا رہے تھے، ہم سب بس خاموش بیٹھے انتظار کر رہے تھے، ایک دم بابا جی بولے کیا میرا رب رحیم نہیں، کیا میرا رب ارحم الراحیمین نہیں، کیا میرا اللہ کریم نہیں، کیا میرے رب سے زیادہ کوئی رحیم اور شفیق ذات ہے، ہم سب باآواز بلند نہیں ہے، جواب دینے لگے، بابا جی اللہ رب العالمین کے اسماء مبارک بیان فرماتے رہے اور روتے رہے، ہم بھی بابا جی کے بابرکت محفل کے بدولت نرم دل ہو کے رونے لگے، ذکر کرتے رہے، محفل میں ایک عجیب سا نور برس رہا تھا، ہر آنکھ اور ہر دل صرف رب سے جوڑا ہوا تھا، کچھ دیر کے لئے ہم بھول گئے تھے کہ ہم دنیا میں ہیں، مدہوشی میں سب اللہ رب العزت کے ذکر میں مشغول، آنکھوں میں نمی، دل میں تڑپ، اور زبان پر اسم مبارک اللہ، رب، مشکل کشا، حاجت روا، مالک جیسے الفاظ، اللہ کی رحمت فوارے کی شکل میں برس رہی تھی۔
کچھ دیر وجد کے کیفیت میں رہ کے بابا جی گویا ہوئے، مجھ جیسے گنہگار لوگ الفاظ کو سمجھتے کیوں نہیں ہے؟ کیوں ظالم اور جابر کو میرے خدا سے تشبیہ دی جاتی ہے؟ میرا اللہ تو رحم والا بادشاہ ہے، کیوں ان کا ذکر رحم کرنے والوں کے لیے نہیں ہوتا، اس شخص کے الفاظ نے، اور بہت دوسری جگہوں پر جب میں یہ فقرہ دیکھتا ہوں تو دل خوف اور دکھ کے مارے پھٹ جاتا ہے، کہ فلاں زمین کا خدا ہے، ہم سب کو پہلے اس فقرے پر کچھ ریسرچ کرنا چاہیے کہ اس فقرے کا تلفظ اور معنی کیا ہے، کسی نے اسے ایجاد کیا ہے، اور کیوں؟ یا کسی نے اسے بگاڑا ہے؟ یہ فقرہ ایسا ہے کہ فلاں"زمین کا خدا ہے" ہم لوگ ہمیشہ اس کو غلط لکھتے اور سمجھتے ہیں، اگر کسی برے، جابر، ناانصاف کو کوئی تشبیہ دینی ہی ہے، تو ابلیس کا دے شیطان کا دے، جو رحم کے نام سے ناواقف ہے، جن کا کام اور میشن ہی مخلوق عالم کو جہنم کا ایندھن بنانا ہے۔
میں آج آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اللہ کے لئے آپ سوشل میڈیا پر اس فقرے کا صحیح تلفظ اور معنی لوگوں کو سمجھائے، کہ بھائی صاحب یہ فقرہ ایسا ہے کہ جس کے معنی ہے سارے اختیارات خود اپنے پاس رکھنے والا، نہ کہ میرے رب جیسا دوسرا رب، میرا رب تو ارحم راحیمین، اور بابا جی دھاڑیں مار کے رونے لگے، اور اپنے چبوترے میں داخل ہوگئے۔
اہل علم سے درخواست ہے کہ آجکل کے دور میں جہاں ہر محکمے اور ہر ادارے میں اختیارات کے ناجائز استعمال کرنے والے بیٹھے ہیں، تو یہ فقرہ غلط تلفظ اور معنی کے ساتھ لکھا اور پڑھا جا رہا ہے، ان پر بہت کچھ لکھنے اور بولنے کی ضرورت ہے، اس جہاد میں اہل علم بہت اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں، اللہ کے لئے ہم جیسے نالائق اور ناواقف لوگوں کو تباہی و بربادی اور نافرمانی سے بچانے کے لیے اس فقرے کو واضح اور ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔
تحریر میں اگر کوئی غلطی ہو، تو اہل علم حضرات اور میرے اساتذہ کرام میری علمی نالائقی سمجھ کے معاف کریں، شکریہ۔
وما علینا الإبلاغ

