Wajood e Zan Se Hai Tasveer e Kainat Mein Rang
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
گزشتہ برس 2021 میں خواتین کو معیاری زندگی کی فراہمی کے اعدادو شمار کو دیکھا جا ئے تو پاکستان 167 درجے پر آتا ہے اور خواتین کو بدترین زندگی کی فراہمی میں افغانستان، شام اور یمن کے بعد پاکستان کا نمبر آتا ہے۔ اگر استعاری طور پر بات کی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ قبل از اسلام عربوں کی ریت ابھی بھی زندہ ہے۔ جو کہ ایک نہایت ہی افسوس کن بات ہے کہ ہم ترقی کی منازل طے کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں خواتین کی عالمی درجہ بندی میں معیاری زندگی کی نشاندہی بھی نہیں کروا سکتے۔
انسانی ارتقاء کی بنیاد زوج پر رکھی گئی ہے یعنی مرد اور عورت دونوں ہی معاشرے کی بنیاد رکھتے ہیں اور خدا نے دونوں کے مقامات کی فضیلت الگ الگ بیان کی ہے۔ اسلام نے زمانہ جاہلیت کی رسومات کو ختم کرتے ہوئے عورت کو معاشرے میں عزت و تکریم کا مقام دیا۔ دورِ نبوی ﷺ میں عورتوں نے ہمیشہ مردوں کے ہم پلہ اسلام کی سر بلندی کے لیے صفِ اوّل میں اپنا کردار ادا کیا۔
پاکستان کی عورت کی بات کی جائے تو تاریخ گواہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک تمام تعمیری کاموں میں خواتین کا کردار ہمیشہ قابلِ ذکر رہا ہے۔ تمام شعبوں میں آج کی عورت مردوں کے شانہ بشانہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوے صنفِ نازک سے صنفِ آہن کا سفر طے کرنے کی جانب شدومد سے گامزن ہیں اور اپنی فتح و کامیابی کے جھنڈے گاڑھ رہی ہیں۔ پاک فوج میں جرات و بہادری کی مثال جنرل نِگار، کھیل کے میدان میں فاتح نسیم حمید، تعلیم و تربیت کی ترویج میں مشغول ڈاکٹرعارفہ سیدہ زہرا، دکھی انسانیت کی خدمات کار بلقیس ایدھی، سیاست کے میدان میں بے نظیربھٹو اور کم عمر مائکروسوفٹ وئیر سرٹیفائیڈ پروفیشنل ارفع کریم جیسی خواتین نے اپنے کارہائے نمایاں سے پوری دنیا میں پاکستانی خواتین کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔
مشرقی خواتین کی سب سے غیر معمولی بات یہ ہے کہ وہ اپنی نسوانیت کی آبرو رکھتے ہوے نہ صرف خود کو پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے منواتی ہیں بلکہ اپنے اہل وعیال کی پرورش اور خاندان کی دیکھ بھال کا بھی بیڑہ اٹھاتی ہیں جس کی مثال پاکستان کے شہر گجرات کے نواحی گاؤں کی رہائش پزیر زینب صدیق ہیں۔ جنہیں دورانِ تعلیم شادی ہونے کی بنا پر اپنے تعلیمی سلسلے کو منقطع کرنا پڑا اور پھر وہ شادی خانہ آبادی میں مصروف ہو گئیں۔ مگر زینب نے اپنے اندر علم کی پیاس کو کبھی بجھنے نہ دیا۔ زینب صدیق نے اپنے حصولِ علم کے جذبے کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ بی اے میں پورے ضلعے میں اوّل آکر اس بات کا ثبوت دیا کہ قابلیت کسی بھی معاشرتی رکاوٹ کی محتاج نہیں ہوتی جب انسان محنت کی ٹھان لے تو بلا تفریق مرد و زن کے کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے کہ؎
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں سے وہ گبھرایا نہیں کرتے
معاشرے میں پچھلے چند سالوں سے عورت مارچ کے نام پر ایک نئی شورش پھوٹ پڑی ہے۔ جو کہ حقوقِ نسواں عرفِ عام فیمینزم کے نظریے پر مبنی ہوتی ہے۔ ملک کی چند لبرل عورتیں خواتین کے عالمی دن 8 مارچ کو ایک جتھا لے کر نکلتی ہیں اور نامناسب القابات و مطالبات کی بھیڑ چال چلتی ہیں اور میں جب کبھی بھی ان کی اس قسم کی آزادی طلب کرنے کی مہم کو دیکھتی ہوں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوتی ہوں کہ آخر یہ خواتین کن کی نمائندگی کرنے نکل پڑتی ہیں۔ ان کا ایجنڈا ہے کہ ہمیں اپنی ہی مخالف صِنف سے حقوق چاہیے اور میں ان کی کم فہمی پر نادم ہوں کہ اللہ نے دینِ اسلام میں عورت کے حقوق واضح ظور پر بیان کیے ہیں۔ عورت کو مضبوط بنانے کے لئے کسی عورت مارچ کی ہر گز ضرورت نہیں ہے کیونکہ خدا نے کائنات کو خوبصورت رنگوں سے مزین کرنے کے لئے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی جیسے اٹوٹ رشتوں کی ڈور میں باندھ کر مضبوط بنایا ہے کہ؎
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ درُوں
موجودہ دور میں عورت مارچ حقوقِ نسواں کی علمبرداری پر ایک سوالیہ نشان کی سی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو معاشرے کی اصلاح کے لیے تحریک چلا کر عورت کی پسماندگی کا ذمے دار محض مخالف صنف کو نہیں ٹھرانا چاہیے بلکہ ملک کی پسماندہ خواتین کو ان کے حقوق اور ان کے اندر کی مضبوطی کو اجاگرکرنے کی آگہی مہم کا انعقاد کرنا چاہیے۔ ملک کی شاہراؤں پر نعرے لگانے کی بجائے غربت کی چکی میں پسی ہوئی عورت کو با ہنر بنانے کے مواقع فراہم کرنے چاہیے تاکہ ہم عالمی سطح پر اپنے ملک کی خواتین کی معیاری زندگی کو یقینی بنا سکیں۔

