Urdu Hai Jis Ka Naam Hami Jante Hain Dagh
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
زبان خیال کا وطن ہوتی ہے۔ کسی بھی فکر، نظریے یا سوچ کو اظہار کا عملی جامہ پہنانا ہو تو اس کے لیے زبان پر عبور حاصل کرنا ایک لازم و ملزوم سا امر ہے۔ قومی زبان کسی بھی ملک کے لیے سرمایہ افتخار ہوتی ہے۔ برصغیر پاک وہند کی تقسیم کے نتیجے میں پاکستان کی قومی زبان اردو طے پائی گئی گویا کہ مسلمانوں نے اپنے اجداد مغلوں کے درباروں پر راج کرنے والی زبان کو اپنانے کی ٹھان لی ہو۔
اردو ترکی زبان کا لفظ ہے جس کا ماخذ دراصل ہماری ہی سر زمین برصغیرپاک و ہند ہے۔ اردو ادب کی تاریخ کو دہرایا جائے تو برصغیر میں نمایاں اردو دان اور شعراء اکرام کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ پھر وہ چاہے غالبؔ کی ریختہ ہو، اردو نثّر کے بانی سر سید احمد خان کی تعلیمی خدمات ہوں، اقبال کی ولولہ انگیز شاعری ہو یا پھر داغ دہلوی کا ستائیش بھرا فقط ایک شعر ہو؎
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زبان کی ہے
انیسویں صدی میں برطانوی سامراج کا تسلط قائم ہونے کے بعد باقی شعبوں کی طرح اردو زبان بھی بتدریج زوال کا شکار ہوتی جا رہی تھی کہ ایسے میں ایک مردِ مجاہد بابائے اردو مولوی عبدالحق میدان میں آئے اور اردو کی اشاعت و ترویج کے سلسلے میں کارہائے نمایاں سر انجام دیے۔ انہوں نےاردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے جامعہ عثمانیہ کا قیام کیا۔ مزید برآں علی گڑھ یونیورسٹی کے تحت قائم کردہ علمی شعبے "انجمنِ ترقیِ اردو" سے تادیر منسلک رہے جس نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے میں اہم کردار ادا کیا۔
حالیہ دور میں اردو زبان کے استحکام کی تحریک کی جب بھی شورش اٹھتی ہے تو میرے ذہن میں ایک ہی شخصیت کا نام منڈلاتا ہے۔ آج کی تحریرکا بنیادی مقصد پاکستان کی مایہ ناز ہستی ماہرِ تعلیم، ماہرِ لسانیات اور اردو زبان کی حامی ڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرہ کی گراں کرخدمات کو نہ صرف خراجِ تحسین پیش کرنا ہے بلکہ ان کی اس تحریک میں ہمہ پلہ کھڑے ہونے کا یقین دلانا بھی ہے۔
ڈاکٹر صاحبہ کی زندگی کے فلسفے کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ وہ جن غور طلب مسائل کی طرف توجہ دلاتی ہیں ان میں سے ملک میں قومی زبان کی عدم استحکامی اور نظامِ تعلیم میں بگاڑنمایاں ہے کہ موجودہ دور میں ہمارے تعلیمی ادارے تعلیم کے نام پر ڈگریاں تو فراہم کر رہے ہیں مگر تربیت جیسے فرض سے نا بلد ہو چکے ہیں۔ جس کا دوش وہ قوم کے معماروں کو نہیں دیتیں بلکہ ان حالات کی وجہ ان کے ورثاء کو گردانتی ہیں کہ بلاشبہ وہ اپنے سرمایہ کو تقسیم کرنے میں ناکام رہے۔ کیونکہ جب ہم نے اپنی زبان کا نظریاتی و ثقافتی اعتبار سے استحصال کیا اور اپنے آقاؤں کی زبان کا پرچار کیا تو گویا ہم نے اپنے ہاتھوں سے غلامی کو اپنی تقدیر بنا لیا۔
ڈاکٹر صاحبہ ایک تقریب میں اردو کے بارے میں فرماتی ہیں کہ اردو زبان کی ایک عجب دلفریب بات ہے کہ یہ ہر زبان سے باآسانی گھل مل جاتی ہے پھر چاہے اس کےقوائد ترکی زبان سے اور لغت فارسی زبان سے ہی مستعار کیوں نہ لیے گئے ہوں مگر اس کی چاشنیت ہمہ وقت برقرار رہتی ہے اور اسی بات پر مولانا ؔحالی صاحب کا شعر کیا خوب صادق آتاہے؎
شہدوشکر سے شیریں اردو زباں ہماری
ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری
تاریخ گواہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے ہمیشہ اپنی زبان کے فروغ کی اہمیت کو اوۤل جانا۔ جرمنی ہو یا چین وہاں کے باشندے اپنی زبان کے علاوہ کسی اورزبان میں بات کرنا اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں۔ اور یہاں یہ عالم ہے کہ ہم کسی بھی انسان کے پڑھے لکھے ہونے کا اندازہ ہی اس معیار پر لگاتے ہیں کہ آیا یہ شخص کس قدر روانی میں انگریزی بولنے میں ماہر ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا انتہائی ناگزیر ہے کہ زبان کوئی بھی بری نہیں ہوتی اور پھر انگریزی تو بین الاقوامی رابطے کی زبان ہے۔
جیسا کہ عارفہ سیدہ صاحبہ کہتی ہیں کہ "انگریزی کا کھاتی ہوں اور بات اردو بچاؤ مہم کی کرتی ہوں " تو صاحبو اس مہم کا مقصد پاکستان کی بین الاقوامی ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانا ہر گز نہیں ہے بلکہ اپنی ہی ملک و قوم کو خائنین کی فہرست سے نکالنا ہے اور اپنے ہم وطنوں سے محض یہ التجا کرنا ہے کہ خدارا اپنے بکھرے ہوے اثاثوں کی حفاظت کا علم بلند رکھیں تاکہ ہم بھی یہ نعرہ فخر سے با آواز بلند کر سکیں کہ؎
سلیقے سے ہواؤں میں خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

