Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arooge Fatima
  4. Selab, Mehaz Qudarti Afat Ya Insani Ghaflat?

Selab, Mehaz Qudarti Afat Ya Insani Ghaflat?

سیلاب،محض قدرتی آفت یا انسانی غفلت؟

خطہ زمین پر ناگہانی آفات کا آن وارد ہونا ایک قدرتی عمل ہے مگر ان آفات کا مسلسل ڈیرے ڈال لینا بلاشبہ انسانی ناعاقبت اندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہے جن میں سے ایک کڑی پاکستان کی تاریخ میں تباہ کن سیلابی صورتحال ہے۔ جو پاکستانی نقشے پر ستر فیصد سے زائد پھیل چکا ہے۔

حالیہ افسوس ناک رپورٹ کے مطابق اب تک لگ بھگ بیس سے تیس ملین مکان سیلابی ریلے میں بہ چکے ہیں اور نو سو سے زائد افراد اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ تقریبا 15 فیصد پاکستانی عوام بے گھر ہو چکی ہے۔ تمام صوبے بالخصوص بلوچستان کا کثیر رقبہ سیلاب سے متاثرہ ہے اور710 کلومیٹر سڑکیں مکمل طور پر بہ چکی ہیں۔ پاکستان بطور زرعی ملک اس قدر بحران کا شکار ہو چکا ہے کہ ایک انداازے کے مطابق سندھ میں کپاس کی تمام فصل تباہ ہو چکی ہے جو کہ ٹیکسٹاٰئل انڈسٹری کی تباہی کا عندیہ ہے اور یہی صورتحال دوسری غذائی اجناس اورباغات کی ہے غرضیکہ تمام زرعی معیشیت تباہ کن صورت اختیار کر چکی ہے۔

مزید برآں جنوبی پنجاب کے بیشتر اضلاع، شمالی علاقہ جات وادی سوات میں روشنیوں کا شہر بحرین بھی سیلاب سے کافی حد تک متاثر ہوئے ہیں۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ اندرونِ سندھ میں ایسی آفت زدہ گھڑی میں بھی چند جاگیرداوں نے اپنی زرعی زمیں بچانے کے لئے سیلابی پانی کا رخ کچی آبادی اور دیہاتوں کی طرف کر دیا کہ؎

محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں

مٹی میں دب گئے کبھی پانی میں بہ گئے

مگر پاکستانی قوم کا خاصہ رہا ہے کہ جب بھی ملک میں کوئی مصیبت آتی ہے تو تمام قوم اپنے آفت زدہ بھائوں کی مدد کرنے کے لئے صفِ اوّل میں کھڑی نظر آتی ہے جو کہ ایک نہایت حوصلہ کن بات ہے مگر حقائق سے نظریں چرانا بھی ایک باشعور قوم کو زیب نہیں دیتا۔

اللہ نے اشرف المخلوقات کو ایک خاص دماغی صلاحیت عطا کی ہے جس کے استعمال سے انسان ستاروں پر کمند ڈالنے پر بھی کارفرما ہے۔ بلاشبہ سائنس ہی وہ اختراع ہے جس کی بنیاد پر کائنات کے تمام پوشیدہ بھید آشکار کیے جا سکتے ہیں۔ سیلابی ریلے، سمندروں، دریاؤں میں طغیانی آنا بیشک منشا الہی کی تابع ہے مگر بد قسمتی سے مس مینجمینٹ جیسے کلیے کو محض عذابِ الہی کی آڑ میں رکھ کر حکمران اپنی راہ ناپتے نظر آتے ہیں اور خدائی فرمان کو مکمل طور پر فراموش کر دیتے ہیں کہ "ہم کسی قوم پر عذاب اتارنے سے پہلے اس کے حواس چھین لیتے ہیں"۔

یہ بات سند ہو چکی ہے کہ ڈیم بنانے سے اس آفت سے خاطر خواہ بچا جا سکتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ پچھلے چالیس سال سے ملک کے سب سے بڑے اور نفع بخش کالا باغ ڈیم کی تعمیر محض دو صوبوں کی چپلقش میں پس کے رہ گئی ہے۔ اوؔل تو ہماری نہروں میں کنال سسٹم کی خرابی کی وجہ سے پانی کی قلت رہتی ہے اور نتیجتاً بارانی علاقے خشک سالی کی صورتحال سے گزرتے ہیں۔ مگر جونہی ملک میں مون سون کا راج ہوتا ہے تو کنال سسٹم کی مس مینجمنٹ کی وجہ سے سیلابی ریلےخشکی کا سفر طے کرتے ہوئے آبادی کو اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔

عالمی سطح پر کلائمیٹ چینج کا موضوع جڑ پکڑچکا ہے۔ گو کہ عالمی ماحولیاتی آلودگی میں پاکستان کا حصہ محض ایک فیصد سے کم ہے مگر پاکستان کا شمار دنیا کے سات بڑے کلائمیٹ چینج کے زیرِعتاب ممالک میں ہوتا ہےِ۔ رواں سال پاکستان میں فروری میں انتہائی گرم لو کا چلنا اور جون میں سال کے سب سے گرم ترین دن درجہ حرارت کا محض 22 ڈگری ہونا ماحولیاتی تبدیلی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اور ہم حیاتیاتی بقا کو ممکن بنانے کی بجائے ابھی تک فطرت کے ساتھ بھڑ رہے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں لاکھوں گھروں کا اجڑ جانا، قیمتی جانوں کا ضیاع ہماری عقلِ خرد کے لیے ایک طمانچہ ہے کہ خدارا! اس پنج دریاؤں کی سرخیز زمین پررحم کھایا جائے اور قدرت کے وسائل کی نا قدری کی بجائے اپنے ملک کے فلڈ مینجمنٹ سسٹم کی بہتری اور ڈیمز کی تعمیر کی طرف جُت جائیں وگرنہ تو ہم سیلاب زدگان کے ساتھ اظہارافسوس اوران کا ہرجانہ پورا کرنے کی غرض سے چندا اکٹھا کرتے ہی رہ جائنگے۔

About Arooge Fatima

Arooge Fatima is from faisalabad and Ph.D. Scholar at University of Agriculture.

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz