Maholiyati Tabdeeli Aur Pakistan Ki Surat e Haal
ماحولیاتی تبدیلی اور پاکستان کی صورتِحال
سائینسی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ گلوبل وارمنگ ہے۔ جو کہ زمین کے گرد اوزون گیس کی حفاظتی تہ میں سوراخ کی وجہ سے دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اور بالخصوص پاکستان اس کی لپیٹ میں مکمل طور پر آ چکا ہے۔ جس کی حالیہ مثال پاکستان کی آب و ہوا میں واضح تبدیلی ہے۔ درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کی بنا پر موسمِ گرما کا وقت سے پہلے آن وارد ہونا، بارشیں نہ ہونے کے باعث بارانی علاقوں میں زراعت کا متاثر ہونا اور چولستان میں خشک سالی کا پڑاؤ سب گلوبل وارمنگ کی ہی مرہونِ منت ہے۔
دنیا بھر میں اس مسۤلے کے حل کے لیے تمام سائینس دانوں کی فوج اپنی اپنی تحقیق کے ہتھیاروں سمیت کمر بستہ ہے اور سائنس کی مختلف جہتوں میں اپنے جھنڈے گاڑ چکی ہے۔ جس کی تفصیلات ہم کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں، اور آج کے دن کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ 5 جون کو ملک بھر میں عالمی ماحولیاتی دن منایا جاتا ہے۔ جس میں اس بات کا اعادہ کیا جاتا ہے، کہ ہم اپنے ملک کو صاف ستھرا رکھنے کی بھر پور کوشش کریں گے۔
ملک بھر میں پودے لگانے کی ترویج کو بڑھانے کے لیے گرین پاکستان، سیف پاکستان کے نعرے بلند کیے جاتے ہیں، مزید برآں سرکاری اور غیر سرکاری ادارے صفائی کیمپین کے نام سے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کرتے ہیں۔ 5 جون کو دلی طور پر کیے جانے والے عہد و پیمان اور عملی طور پر کیے جانے والے اقدامات بلاشبہ قابلِ ستائیش ہیں۔ مگر سوال یہ ہے، کہ کیامحض ایک دن کافی ہوتا ہے۔ اپنے وطن کو صاف و ستھرا رکھنے کے لیے؟
عالمی ماحولیاتی دن پر ہم بحیثیت قوم اس بات پر یکجا ضرور ہوتے ہیں، کہ اپنے ملک و قوم، اپنے آشیانے کو آلودگی سے بچانا ہماری ذمے داری ہے۔ مگر اس کا ہر دن عملی مظاہرہ کرنا بھی ہمارا اولین فریضہ ہونا چاہے۔ جس کے لیے کوئی بڑی بڑی کیمپین چلانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ اگر ہماری با شعور قوم انفرادی طور پر اس پر عمل پیرا رہے تو کافی حد تک افاقہ ہو گا۔
اگر کوئی شخص اپنے سرکاری دفترمیں استعمال شدہ اشیاءکے کچرے کو ادھر ادھر پھینکنے کی بجائے کچرا دان کی معصومانہ التجا "یوزمی" کو زیرِ غور لے آئے یا ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والی عوام کچرے کو سڑکوں کی رونق بخشنے کی بجائے اپنے سفر ختم ہونے پر کسی کچرا دان میں ڈمب کر دیں، تو اس میں کوئی مضائقہ نہ ہو گا، یا پھر ملک کا ہر باسی اپنے گھر کے ساتھ ساتھ گلی محلے کو صاف رکھنے کی ریت قائم کرے۔
غرضیکہ یہ تمام چھوٹے چھوٹے اقدامات حتی الامکان طور پر ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ ایک صحت مند ماحول بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بحیثیتِ مسلمان ہم سب بخوبی جا نتے ہیں کہ دینِ اسلام ہمیشہ پا کیزگی کا درس دیتا ہے۔ حدیثِ نبوی ﷺ ہے "پاکیزگی نصف ایمان ہے" تو گویا اپنے ایمان کی کاملیت کو بایقینی بنانے کے لیے ظاہری و باطنی صفائی انتہائی ضروری امر ہے۔
یہ ایک مسلم حقیقت ہے، کہ قدرت کبھی بھی فطرت کے منافی چلنے والی چیزوں کی حمایت نہیں کرتی اور ہم انسان ہی ہیں جو فطرت سے دوری اختیار کر کے اس کا دوش زمانے اور معاشرے کو دیتے ہیں، اور موجودہ دور میں ایسا معلوم ہوتا ہے، کہ ہمارے سیارے کی فضا تو ہم انسانوں کی نا عاقبت اندیشی کی وجہ سے اوزون میں سوراخ کی وجہ سے "کلائیمیٹ چینج " کا شکار ہو ہی چکی ہے۔
بالکل اسی طرح انسانی روح بھی دل کی وقتاً فوقتاً سینیٹایزیشن نہ ہونے کی بنا پر گلوبل وارمنگ کی سی صورت اختیار کر گئی ہے۔ جس کی وجہ سے تمام دنیاوی آلائیشات با آسانی رسائی حاصل کر چکی ہیں۔ تو گویا ہمیں عالمی ماحولیاتی دن کے حوالے سے نہ صرف اپنے ملک میں ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کے لیے اقدامات اٹھانے چاہیے بلکہ اپنی باطنی صفائی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنے دل کو بھی نفرت، کدورت، حسد، بغض اور کینہ جیسی آلائیشات سے پاک کرنے کا عہدِ مصمم کرنا چاہیے۔

