Khushi Ka Pemana Kya Hai?
خوشی کا پیمانہ کیا ہے؟
کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا کا دورہ کرتے ہوۓ ایک خبر میری نظر سے گزری جس کی شہ سرخی کچھ یوں تھی کہ "خوش رہنے والی اقوام میں پاکستان نے بھارت کو واضح مارجن سےپچھے چھوڑ دیا" اقوام متحدہ کے سالانہ اعداد و شمار کے مطابق فن لینڈ کو مسلسل پانچویں سال دنیا کا سب سے خوش ملک جبکہ افغانستان کو نا خوش ملک قرار دیا گیا۔
146 ملکوں کے سروے میں پاکستان کی درجہ بندی 103 اور بھارت کی 136 ویں نمبر پر کی گئی۔ اور اس خبر کو پڑھنے کے بعد میں ناقص العقل یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ خوشی کو ماپنے کا پیمانہ کب ایجاد ہوا؟ میں ابھی اسی شش و پنج میں مبتلا تھی کہ پھر اسی سوشل میڈیا کی بدولت اک تحریر میری نظر سے گزری جس نے میری اس سوچ کو مزید پروان بخشی۔ ویسے سوشل میڈیا بھی کس قدر انسانی زندگی پر حاوی ہو چکا ہے نا بلا تفریق ہر عہد کا انسان برابری کی سطح پر اس کے زیرِ اثر ہے۔
خیر مدعے کی بات کرتے ہیں۔ خوشی کیا ہے؟ ایسی کیا چاشنی ہے اس جذبے میں کہ انسان اس کے حصول کی خاطر اپنی ساری حیاتی تیاگ دیتا ہے مگر جب غم کا بادل گرجتا ہے تو اس کی وقعت ٹکے کی نہیں رہتی۔ کیا یہ واسطہ یا بلا واسطہ طور پر مالی آسودگی سے مشروط ہے؟ یا اس جذبے کا تعلق انسانی روح کی تسکین سے ہے اور یہ کہنا حق بجانب ہو گا کہ عصرِ حاضر کی دوڑ دھوپ نے اس جذبے کی حقیقی روح کو مادیت پرستی کی چکا چوند سے آلودہ کر دیا ہے۔
غم و خوشی میں اضافے کا اندازہ جیب میں موجود نوٹوں کی تعداد اور ان کی افزائش کے لیے کی جانے والی کوشش پر لگایا جانے لگا ہے۔ اور مجھے اس بات سے چنداں انکار نہیں ہے کہ مالی آسودگی ایک بھر پور طرزِ زندگی کی ضمانت ہوتی ہے اور ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی زندگی کو بہتر سے بہترین بنانے کے لیے سر توڑ کو شش جاری رکھے۔ مگر مجھے صحیح معنوں میں اختلاف اس بات سے ہے کہ ہم نے خوشی کے پیمانے مادی چیزوں کی بنیاد پرکیوں مقرر کر رکھے ہیں؟
کجا کہ یہ تو وہ جذبہ جو ہماری روح کا آئینہ دار ہوتا ہے اور ہم اسی کی شفافیت کا سودا بڑے گھاٹے میں کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ارد گرد مختلف آلہ کار مجمع لگائے رکھتے ہیں جو ہماری وقتی تسکین کا باعث بنتے ہیں۔ کبھی ہم دولت اکٹھی کرنے کی چاہ میں اپنی دلی خوشی محسوس کرتے ہیں، کبھی ہم محبت کے گرداب میں پھنسے نظر آتے ہیں اور خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کی چاہ میں ہوتے ہیں۔ مگر بصیرت کی آنکھ کو کھلا رکھا جائے تو یہ تمام آلہ کا وقتی ڈھکوسلہ ثابت ہوتے ہیں۔ بقول شاعر۔
بصارت سے بہت کچھ ماورا ہے، بصیرت کے لئے ہر در کھلا ہے
چلو ہجرت کریں اندر کی جانب، جہاں ہر شے مثالِ آئینہ ہے
ہمارا المیہ یہ ہے جب کبھی اس موضوع پر بات کی جاتی ہے تو فوراً سے پیشتر اس بات پر محاذ کھڑا ہو جاتا ہے کہ یہ صرف کتابی باتیں ہیں، حقیقت سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔ مشینی دور میں محض پیسہ ہی تو خوشیوں بھری زندگی کی ضمانت ہوتا ہے تو پھر میری ادنیٰ سی گزارش ہے کہ ذرا ملک میں موجود نفسیاتی مسائل میں مبتلا عوام کا جائزہ لیا جائے کہ ہمارے ملک کا ایک امیر و کبیر صنعت کار، باعزت کرسی پر بیٹھا ہوا افسر، ابھرتی ہوئی نسل کا نوجوان یا جسمانی طور پر صحت مند انسان کیوں کر نفسیاتی بدحالی کا شکار ہو جاتا ہے؟
تو پھر طے ہوا کہ خوشی کوئی مستقل طور پر رہ جانے والی چیز نہیں کہ جس کو حا صل کر کے امر کیا جا سکے اور نہ ہی اس کے حصول کے لیے دنیا کوفتح کرنا واجب ہوتا ہے۔ بلکہ حقیقی خوشی تو ان الوہی لمحات کا نام ہے جس میں آپ کی روح سرشاری کے عالم میں ہوتی ہے، دل تشکرِ خدا سے لبالب ہوتا ہے اور دماغ سکون کی حالت میں ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے موجودہ حالات پر مطمئن اور خوش و خرم رہنے کی کوشش کو عملاً جاری رکھیں تو پھر یہی محاورہ صادق آتا ہے کہ "راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے"۔

