Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arooge Fatima
  4. Khud Shanasi

Khud Shanasi

خود شناسی

خود شناسی ایک ایسا عمل ہے جو انسانی خمیر میں ازلوں سے قدرت کی جانب سے ودیعت کردہ ہوتا ہے۔ مگر اس کو حرکت میں لانے کے لئے ایک خاص قوت درکار ہوتی ہے، جو دنیاوی چکاچوند میں کھو جاتی ہے۔ اور پھر مادیت پرستی جیسی لت کی تسکین کے لئے اپنے مفاد کو مدِ ںظر رکھتے ہوے ہر ممنوعہ کام کو حق سمجھ کر عمل میں لایا جاتاہے۔ اور پھر یہ تاویل دی جائے انسانی ترقی ہی تو شخصیت سنورانے کا پیش خیمہ ہوتی ہے کجا کہ انسان اپنی صلاحیتوں کی جان کاری رکھتے ہوے ہی تو منزل کی جانب رواں دواں ہوتا ہے۔

اگر یہ تمام آلہ کار ہی محض ذات کو نکھارنے کا ذریعہ ہوتے پھر تو کائنات کا عظیم مقصد تدبر کا سرے سے وجود ہی نہ ہوتا۔ ہر شخص اپنی عقل کی پٹاری کھولے اور اپنی اہلیت کو بدرجہ اتم زیرِ استعمال میں لا کر اور واہ واہ سمیٹتے ہوے خود کو کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کر لے اور اپنی تسخیر کا عمل پائہ تکمیل کو پہنچا دے۔۔ اسی حوالے سے ڈاکٹر عارفہ سیدہ کہتی ہیں کہ "زندگی امکان سے زندہ ہے عقل سے نہیں"۔

تو گویا ذات کی پہچان کسی معاشی و معاشرتی ترقی سے مشروط نہیں ہوتی محض قلب کی دیدہ وری درکار ہوتی ہے، اور جو اپنے قلب کا سراغ پا لے، پھر اسے کسی اور آلہ کار کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی اس کا ہادی و رہبر تو وہ ذاتِ کریم بن جاتی ہے جو کہ اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے، بقول شاعرِ مشرق۔۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگانی۔۔

عملی طور پر دیکھا جائے تو بسا اوقات خود کو پہچاننا بھی بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ انسان واقعی اک پہیلی کی مانند ہے، اک ایسا پزل جو وقت کی رفتار کا محتاج ہے۔ جیسے ہی وقت اپنا پہیہ گھماتا ہے اس پزل کا نیا سرا ہاتھ میں آتا دکھائی دیتا ہے۔۔

تو سوال یہ ہے کہ خود شناسی کیسے کی جائے؟ کیا کوئی خاص لائحہ عمل اپنایا جائے؟ یا پھر وقت کے دھارے پر چھوڑ دیا جائے؟

عام طور پر یہ کہا جاتا ہے خود شناسی انسان کی منزل کا تعین کرتی ہے۔۔ انسان اگر خود کو جانچ لے توذرا سہولت سے اپنے مقصدِ حیات کو پا لیتا ہے۔

مگر کیا خود کو جان لینے کا دارومدار کسی خاص عمرِ رواں پر ہے۔۔ اگر ایسا ہوتا پھر تومسلسل جستجو کا صیغہ ہی نہ رہتا۔ جیسا کہ انسانی وجود دو چیزوں کامجموعہ ہے پہلا جسم "مادی وجود" جسے خدا نے مٹی سے بنایا اور دوسرا روح "روحانی وجود" جسے خدا نے اپنے نور سے تخلیق کیا۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے مادی وجود کی بڑھوتری کا تو خوب خیال رہتا ہے مگر اپنی روح کی آبیاری کو ہم قصداً بھلا چکے ہیں۔ جیسا کہ واصف علی واصف کہتے ہیں

"ہماری آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب ہماری آنکھیں بند ہونے والی ہوتی ہیں"۔

خود شناسی بھی دراصل اپنی روحانی وجود کی آگہی کا نام ہے۔ جب انسان اس منزل کا مسافر بن جاتا ہے تو وہ مسلسل اپنی ذات کے متعلق انکشافات سے گزرتا ہے۔۔ کبھی تو یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان اپنی زندگی کے آخری حصے میں ہوتا ہے اور اپنی کسی نت نئی سوچ یا اپنی فطرت کے کسی عجب پہلو سے آشکار ہوتاہے جو نجانے پسِ پردہ اس کے اندر کب سے پنپ رہی تھی۔

جی ہاں! خود شناسی زندگی کا کوئی ایک مرحلہ نہیں ہے جسے ایک ہی جست میں عبور کیا جاسکے بلکہ یہ تو مسلسل جاری رہنے والا سفر ہے جس کا اختتام محض سانس کی ڈوڑ ٹوٹنے پر ہی ممکن ہے۔

About Arooge Fatima

Arooge Fatima is from faisalabad and Ph.D. Scholar at University of Agriculture.

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz